شہر میں گیسٹرو کی وبا۔۔۔

اشرف مغل  جمعرات 30 مئ 2013
ہسپتالوں کی غیر معیاری حالت انتظامیہ کا منہ چڑا رہی ہے۔ 
فوٹو : فائل

ہسپتالوں کی غیر معیاری حالت انتظامیہ کا منہ چڑا رہی ہے۔ فوٹو : فائل

خیر پور:  بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، انہیں پھولوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے اور کائنات کا حسن سمجھا جاتا ہے۔

دنیا بھر کی حکومتیں بچوں کی بہتر صحت، خوراک اور علاج معالجے کے لیے مناسب انتظامات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں مگر وطن عزیز میں مستقبل کے ان معماروں پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ یہاں چھوٹا، بڑا، بوڑھا جوان اور خواتین سمیت ہر شخص اپنے حقوق کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔

ملک کے دیگر علاقوں کی طرح رقبے کے لحاظ سے سندھ کا سب سے بڑا ضلع خیرپور بھی ان دنوں جہاں دیگر مسائل میں جکڑا دکھائی دیتا ہے وہیں لوڈ شیڈنگ اور غیر معیاری اشیاء خوردونوش نے یہاں کے لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ ضلع بھر میں گیسٹرو کی بیماری نے ایک وبائی صورت اختیار کرلی ہے اور اب تک ضلع کی آٹھ تحصیلوں میں قائم اسپتالوں میں سینکڑوں بچے گیسٹرو کی بیماری میں مبتلا ہوکر داخل ہو چکے ہیں۔

اعدادو شمار کے مطابق خیرپور شہر میں قائم گورنمنٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں گزشتہ ایک ہفتے میں روزانہ درجنوں بچوں کو وارڈ میں داخل کیا گیا۔ اسپتال میں بجلی نہ ہونے، لوڈشیڈنگ، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، عملے کی غیر موجودگی اور ادویات کی کمی کی وجہ سے درجن بھر بچے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں جب کہ درجنوں بچے اس وقت بھی زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے کہ گیسٹرو ایک ایسی بیماری ہے جس میں بچوں کو مسلسل الٹیوں اور دست کی تکلیف رہتی ہے۔ ہسپتال میں مناسب ماحول اور احتیاطی تدابیر نہ ہونے کی وجہ سے بھی بچے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

اس وقت بھی ضلع بھر میں سینکڑوں بچوں کو روزانہ ہسپتال لایا جا رہا ہے۔ وارڈ میں گنجائش نہ ہونے پر تین تین، چار چار بچوں کو ایک ہی بیڈ پر لٹایا جاتا ہے۔ وارڈ میں سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ گھروں سے چارپائیاں لا رہے ہیں جب کہ کئی خواتین چارپائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر ہی اپنے بچوں کو لٹانے پر مجبور ہیں۔

وارڈ میں شدید گرمی اور لوگوں کے ہجوم کے باعث پیدا ہونے والا حبس ناقابل بیان ہے۔ ہسپتال میں ہیوی جنریٹرز موجود ہونے کے باوجود جنریٹرز نہیں چلائے جاتے اور انتظامیہ مختلف حیلے بہانے کرکے تیل بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ گیسٹرو کی بیماری عام ہونے اور بچوں کو علاج معالجے کی سہولتیں نہ ملنے پر اخبارات میں چھپنے والی خبروں کا کمشنر سکھر ڈاکٹر نیاز علی عباسی نے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر گورنمنٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا دورہ کیا۔ اُنہوں نے گیسٹرو میں مبتلا بچوں کے والدین سے بات چیت کی اور اُن کے مسائل سُنے۔

اس موقع پر بچوں کے والدین سمیت دیگر لواحقین ارباب ٹانوری، غلام شبیر، سید حبدار، غلام علی و دیگر نے کمشنر کو عملے کی غفلت، ادویات کی کمی، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، عملے کے ناروا سلوک اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ابتر صورت حال سے آگاہ کیا، جس پر کمشنر نے ہسپتال انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی کہ وہ متاثرہ بچوں کو بہتر علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت بھی اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کمشنر نے کہا کہ سستی و لاپرواہی برتنے والے ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اتنے بڑے پیمانے پر بچوں میں گیسٹرو کی وباء پھیلنے پر چاہیے تو یہ تھا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایمرجنسی لگا کر بچوں کی زندگیاں بچانے کی کوششیں کی جاتیں مگر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت نے کسی بھی قسم کے انتظامات نہیں کیے جس سے متاثرہ بچوں اور لواحقین کی پریشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ بیماریوں میں اضافہ بننے والے اسباب میں صفائی ستھرائی کی ابتر صورت حال، غیر معیاری مشروبات، قلفی، گولے گنڈے، مضہر صحت مشروبات، کھلی اشیاء اور گلے سڑے فروٹ اور سبزیوں کی فروخت ہیں۔

ایسی صورت حال میں ضلع انتظامیہ کو دفعہ 144 نافذ کرکے کھانے پینے کی مضر صحت، گلی سڑی اشیاء اور غیر معیاری مشروبات کی فروخت پر پابندی عاید کرنی چاہیے۔ بنیادی صحت مراکز اور رول ہیلتھ مراکز میں عملے کی چھٹیاں منسوخ کرکے 24 گھنٹے ڈیوٹی یقینی بنائی جائے مگر افسوس صد افسوس کہ پھول جیسے معصوم بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے حکومت کسی بھی قسم کے اقدامات سے گریزاں ہے۔ خیرپور ضلع میں پیپلز پارٹی کی سابقہ پانچ سالہ حکومت میں ایک ارب روپے سے زائد لاگت سے سول اسپتال کی نئی عمارت زیر تعمیر ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت بڑی بڑی عمارتیں تو بنالیتی ہے مگر اداروں میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے افسران اور ملازمین اپنے فرائض انجام نہیں دیتے۔ اُنہوں نے کہا کہ فنڈز میں خرد برد عام ہونے اور ملازمین کی غفلت کی وجہ سے بے شمار خرابیاں جنم لے رہی ہے جو کہ سرکاری محکموں بالخصوص محکمہ صحت کے افسران کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ معالجین بھی راتوں رات امیر بننے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو چیک کرنے کے بجائے پرائیویٹ کلینکس پر مریضوں کو آنے کا مشورہ دے کر ان سے بھاری رقم وصول کی جا رہی ہیں اور غریبوں کے بچوں پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جا رہی، جس کی وجہ سے لوگوں کا سرکاری ہسپتالوں پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ کئی لوگ جو یہاں زمین پر اپنے بچوں کو لیے بیٹھے تھے اُن کا کہنا تھا کہ وہ غریب ہیں اور اُن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جا کر علاج کرائیں۔

اس لیے وہ مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اپنے بچوں کو سرکاری سرکاری ہسپتالوں میں داخل کرانے پر مجبور ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔