ڈرون حملے میں ولی الرحمان کی ہلاکت

ایڈیٹوریل  جمعرات 30 مئ 2013
 قومی اسمبلی کا اجلاس شروع نہیں ہوا مگر امریکا نے ڈرون حملہ کر کے نئی آنے والی حکومت کوپیغام دے دیا ہے کہ اس کی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔فوٹو: فائل

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع نہیں ہوا مگر امریکا نے ڈرون حملہ کر کے نئی آنے والی حکومت کوپیغام دے دیا ہے کہ اس کی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔فوٹو: فائل

بدھ کو شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹرز میرانشاہ میں امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر ولی الرحمن سمیت چھ افراد جاں بحق اور 4زخمی ہو گئے۔ طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ولی الرحمن کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

پاکستان میں عام انتخابات کے بعدفاٹا میں امریکا کا یہ پہلا ڈرون حملہ ہے اور اس میں اہم ٹارگٹ حاصل کیا گیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن‘ پی ٹی آئی‘جے یو آئی اور جماعت اسلامی ڈرون حملوں کے خلاف بیانات دیتی رہی ہیں‘ ان جماعتوں کا موقف رہا کہ وہ برسراقتدار آ کر امریکا سے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کریں گی کیونکہ یہ حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف ہیں۔

ابھی قومی اسمبلی کا اجلاس شروع نہیں ہوا مگر امریکا نے ڈرون حملہ کر کے نئی آنے والی حکومت کوپیغام دے دیا ہے کہ اس کی ڈرون پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ امریکا نئی آنے والی حکومت کے کہنے پر ڈرون حملے روکتا ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حالیہ حملہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نئی جمہوری حکومت کے لیے ڈرون حملوں کو رکوانا آسان کام نہیں ہو گا۔

پاکستان نے امریکی جاسوس طیارے کے حملے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جب کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی ان حملوں کو غیر قانونی‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان امریکی ڈرون حملوں پر اعلیٰ سطح پراحتجاج کرتا اور انھیں بند کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے مگر امریکا نے پاکستان کے مطالبے کو رد کر دیا اور ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی ڈرون حملوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ امریکا نے ڈرون حملوں کا آغاز نومبر 2002ء میں یمن سے کیاتھا۔ اب وہ صومالیہ‘ یمن‘ عراق‘ افغانستان اور پاکستان پر ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں سے اب تک طالبان اور القاعدہ کی اہم شخصیات ماری جا چکی ہیں لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان حملوں میں بے گناہ شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد جاں بحق ہو چکی ہے۔

ان شہریوں کی ہلاکت پر ان علاقوں میں نہ صرف امریکا کے خلاف نفرت پھیلتی ہے بلکہ پاکستان کے خلاف بھی غم و غصہ جنم لیتا ہے اور اس کی آڑ میں وہاں موجود تنظیمیں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کر دیتی ہیں۔ پاکستان حکومتی سطح پر امریکا سے ان حملوں کو روکنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے مگر امریکا ان حملوں کو روکنے سے انکار کرتا رہا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو کسی نہ کسی سطح پر پاکستان اور امریکا کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ یہ ڈرون حملے بھی ہیں۔ اب ایک بار پھر امریکا نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ کر کے نئی آنے والی حکومت کے لیے خاصا مسئلہ بنا دیا ہے۔

امریکا کے حالیہ حملے میں کالعدم تحریک طالبان کی انتہائی اہم شخصیت نشانہ بنی ہے۔ ولی الرحمان محسودتحریک طالبان کی تنظیم میں حکیم اللہ محسود کے بعددوسرا اہم ترین کمانڈر تصور کیا جاتا ہے۔ولی الرحمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے 2004ء میں طالبان گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ ولی الرحمان نظریاتی طور پر پاکستان میں جمہوری نظام اور اس کے حامی سیاستدانوں کے خلاف تھا۔ اس نے انتخابات سے قبل جمہوری سیاستدانوں کے خلاف کارروائیوں کی دھمکی بھی دی تھی،اس نے بعض سیاستدانوں کی ہلاکت اور انتخابی جلسوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمے داری بھی قبول کی تھی، وہ ایک عرصہ سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث چلا آ رہا تھا۔ولی الرحمان کا مارے جانا پاکستان کے لیے کوئی نقصان نہیں ہے۔

پاکستانی فورسز بھی شاید ایسا ہی کرتیں لیکن پاکستان امریکا کے ڈرون حملوں کی مخالفت اس وجہ سے کر رہا ہے کہ یہاں مسئلہ ریاست کے اقتدار اعلیٰ کا ہے۔ کسی ملک کی اجازت کے بغیراس کے علاقے میں ڈرون حملے عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ حالیہ حملے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے پر شدید تحفظات ہیں۔ یہ ڈرون حملے ہماری سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں۔

یہ امر شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ یہ حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں مگر ان زمینی حقائق سے بھی کسی طور اعراض نہیں برتا جا سکتا کہ جہاں ڈرون حملے ہو رہے ہیں‘ ان علاقوں میں حکومت پاکستان کی رٹ نہیں ہے اور یہاں ایسی تنظیموں کا کنٹرول ہے جو حکومت پاکستان کی رٹ کو مسلسل چیلنج کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں۔

ولی الرحمان بھی ان علاقوں میں آزادانہ رہ رہا تھا اور یہاں ہی سے دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ امریکا سے احتجاج اپنی جگہ پر مگر حکومت پاکستان کو ان علاقوں پر اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے تاکہ دہشت گرد یہاں سے نکل کر پورے پاکستان کو اپنا نشانہ نہ بنا سکیں۔ جب تک حکومت پاکستان شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں اپنی رٹ قائم نہیں کرتی امریکا کو ڈرون حملوں کا جواز ملتا رہے گا۔ جو علاقہ حکومت پاکستان کے کنٹرول ہی میں نہیں وہاں ڈرون حملوں کو سلامتی اور خود مختاری پر حملے قرار دینا عجب معلوم ہوتا ہے۔

اب جب پاکستان میں نئی حکومت تشکیل پانے والی ہے ‘امریکا پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ ڈرون حملے کر کے نئی حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ نہ کرے اور عالمی قوانین کا احترام کرتے ہوئے ڈرون حملوں کا سلسلہ فی الفور بند کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔