ایٹمی دھماکے…کچھ باتیں

نصرت جاوید  جمعرات 30 مئ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

2002ء کے بعد سے جب بھی 28 مئی آتا ہے تو ہمارے ٹیلی وژن اسکرینوں پر ایک مخصوص گروہ بڑی رعونت سے یہ دعوے کرتا نظر آتا ہے کہ 1998ء کے بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد نواز شریف کو جوابی دھماکے کرنے کی جرأت نہیں ہو رہی تھی۔ ’’قومی غیرت‘‘ اُجاگر کرنے کے لیے وہ لوگ آگے بڑھے اور لاہور کے ’’کاروباری اور غیر سیاسی‘‘ وزیر اعظم کو چاغی میں جوابی دھماکے کر دینے پر مجبور کر دیا۔

محسنِ پاکستان کہلائے جانے والے ڈاکٹر قدیر خان جب یہ کہانی بیچنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی وجہ سمجھی جا سکتی ہے۔ ایٹم بم کے لیے سب سے بنیادی مواد ایک مخصوص قوت والا یورینیم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کی مکمل سرپرستی سے بالآخر اس تک رسائی حاصل کر لی۔ مگر خام مال سے ایٹم بم بنا کر اسے اپنے ہدف تک پہنچانا ایک قطعی طور پر مختلف شعبہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب اس شعبے کی مبادیات کے بارے میں بھی بے خبر ہیں۔ بہت سارے گمنام لوگوں نے دن رات محنت کے ذریعے اس ضمن میں پاکستان کو اس شعبے میں کامیاب کیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ان افراد میں سے ایک جانا پہچانا چہرہ ہے۔ مگر وہ اکیلے ہی ساری داد و تحسین کے مستحق نہیں۔

ہمارے سیاستدانوں میں سے نواز شریف کی جوابی دھماکوں کے بارے میں مبینہ ہچکچاہٹ کی پہلی کہانی مئی 1998ء میں نواز شریف کے وزیر خارجہ گوہر ایوب نے گھڑی تھی۔ ان کے سیاسی جانشین عمر ایوب ان دنوں جنرل مشرف کے معاشی جادوگر شوکت عزیز سے حکمرانی کے گُر سیکھ رہے تھے۔ گوہر ایوب کی طرف سے جلا وطن ہوئے نواز شریف کی بھد اُڑانے کا اس سے بہتر موقع کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے قریب گوہر ایوب اور ان کے فرزند ایک بار پھر ’’بزدل‘‘ نواز شریف کی جماعت میں چلے گئے۔ انتخاب میں کامیابی پھر بھی نصیب نہ ہوئی۔

گوہر ایوب کو 28 مئی کے جوابی دھماکوں کے حوالے سے نواز مخالف کہانیاں بیچنے میں بازی لیتا دیکھ کر ہمارے راولپنڈی کی لال حویلی میں بیٹھے مفکر بھی جوش میں آ گئے۔ چونکہ موصوف جنرل مشرف کے وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے، اس لیے ہمارے ’’آزاد‘‘ ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر طویل وقت لے کر تواتر سے اپنی طلسم ہوشربا مارکہ کہانیاں سناتے رہے۔ جاوید ہاشمی جب نواز شریف کو چھوڑ کر عمران خان سے جا ملے تو انھوں نے بھی نواز شریف کی جوابی دھماکے کے ضمن میں مبینہ ہچکچاہٹ کی کہانیوں کی تصدیق کرنا شروع کر دی۔ نواز شریف کے ساتھ ہی ساتھ یہ تمام افسانہ نگار سرتاج عزیز، مشاہد حسین اور چوہدری نثار علی خان کو بھی 28مئی 1998ء سے پہلے ایمان کی کمزوری کا مرتکب گردانتے ہیں۔

مشاہد حسین سید کے ساتھ میں نے تقریباََ پانچ سال تک رپورٹر کی حیثیت میں کام کیا ہے۔ 1982ء میں اس انگریزی اخبار میں گیا جس کے وہ مدیر ہوا کرتے تھے۔ میرے ساتھ بہت سی تنہا ملاقاتوں میں انھوں نے بارہا بڑے جوش سے اس بات پر اصرار کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت تک دیر پا امن قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک نئی دلی اور اسلام آباد کھلے بندوں ایٹمی طاقت ہونے کا پوری دُنیا کے سامنے اقرار و اظہار نہ کر لیں۔ 1986ء میں ان کے اخبار سے میں الگ ہوا۔

بھارت نے جب مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکا کیا تو اس کے عین دوسرے روز میری ان سے ایک مختصر ملاقات ہوئی۔ وہ اس وقت نواز شریف کے وزیر اطلاعات تھے۔ میں نے ان سے کچھ سوال کیے تو انھوں نے صرف ایک فقرے میں بتا دیا کہ پاکستان کے پاس جوابی دھماکے کرنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے اور نواز شریف اس ضمن میں قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے نواز شریف نے اپنے کچھ ایلچیوں کو مختلف سیاستدانوں کے پاس بھیجا تھا۔ چوہدری نثار علی اس حیثیت میں خان عبدالولی خان کے ساتھ مشاورت کرنے چارسدہ گئے۔

وہ جب اس بزرگ رہنما سے ملے تو وہ اپنے گلابوں کی کیاری میں ’’گوڈی‘‘ کر رہے تھے۔ چوہدری صاحب نے مدعا بیان کیا تو زیرک پشتون نے صرف ایک سوال کیا کہ پاکستان کے پاس بم ہے یا نہیں۔ چوہدری صاحب نے ہاں میں جواب دیا تو انھوں نے یہ فقرہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ اگر پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے تو جوابی دھماکے کرنے کے لیے جلدی نہ کی جائے۔ پتہ لگایا جائے کہ امریکا وغیرہ ہمیں دھماکے نہ کرنے کے عوض کیا کچھ دینے کو تیار ہے۔ ہماری تسلی کے مطابق کچھ نہ ملے تو دھماکا کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔

جہاں دیدہ پشتون بزرگ نے بات بڑی حکمت کی کہی تھی مگر چوہدری صاحب اسے سن کر کافی مایوس ہوئے۔ ان کی اس مایوسی سے کم از کم یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ خود بھی جوابی دھماکے کرنے کو بڑے بے چین تھے۔ سرتاج عزیز صاحب کے ان دنوں کے رویے کے بارے میں میرے پاس کوئی مستند روایت نہیں پہنچی۔

زیادہ تفصیل میں جائے بغیر میں پوری ذمے داری سے یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد جو بھارتی وزیر اعظم اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے درمیان غیر رسمی پیغامبروں کے ذریعے ہوئے، واجپائی اور نواز شریف نے اپنی اپنی ایٹمی قوت کو ظاہر کرنے کا فیصلہ بہت پہلے سے کر رکھا تھا۔

دھماکوں کے فوری بعد واجپائی جب پاکستان آئے تو یہ بھی پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کا ایک اور مرحلہ تھا۔ مقصد اس کا دُنیا کو یہ بتانا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کو غیر مہذب اور وحشی نہ سمجھے۔ دونوں نے اپنی ایٹمی قوت کو عیاں کر دیا ہے۔

اب انھیں عالمی نیوکلیئر کلب کا باقاعدہ اور ذمے دار رکن سمجھا جائے۔ اس لیے بھی کہ اپنے اپنے ایٹمی پتے شو کر دینے کے بعد دونوں نے پاک بھارت جنگ کے امکانات کو تقریباََ معدوم کر دیا ہے۔ وہ تو بلکہ دیرپا امن کے لیے مذکرات کا عمل شروع کر رہے ہیں۔ واجپائی اور نواز شریف کو اپنے طے شدہ اسکرپٹ کے تحت آگے بڑھنے دیا جاتا تو شاید ان دنوں ہمارے خطے میں ایک پر امن اور خوش حال منظر نظر آتا۔ مگر جنرل مشرف کارگل کے ذریعے سری نگر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بہتر ہے لال حویلی کے داستان گو اپنی گفتگو سے آپ کو محظوظ کرتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔