ایک فون…ایک خبر

لطیف چوہدری  جمعرات 30 مئ 2013
latifch910@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے بارے میں ہم اتنے فکر مند نہیں ہوتے جتنے یورپ میں مقیم ہمارے ہم وطن ہیں۔ ڈرون حملے ہوں یا خود کش دھماکے‘ کسی ویگن میں معصوم بچے جل کر مر جائیں یا کہیں وبائی امراض پھوٹ پڑیں ‘ ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ ایسے سانحات اور قتل و غارت ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں لیکن سمندر پار پاکستانی یہا ں کے حالات پر دکھی رہتے ہیں۔

وہ یہاں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اب مسلم لیگ ن نے الیکشن جیت لیا ہے تو میرے دوست اس تبدیلی پر بڑے خوش گمان ہیں۔ اگلے روز اسکاٹ لینڈ‘ برطانیہ میں مقیم ہم دم دیرینہ شرقی احمد ٹیپو کا فون آیا۔ فون تو وہ اکثر کرتا رہتا ہے اور ہر موضوع پر طویل گفتگو ہوتی ہے۔ بہت کم لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ امریکا یا یورپ جا کر بھی پرانے دوستوں کو نہیں بھولتے اور ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ شرقی احمد ٹیپو ایسے ہی نگینوں میں شامل ہے۔ وہ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کا بھی رکن رہا ہے اور میرا اس کا تعلق تیرہ چودہ برس پر محیط ہے۔

اس نے فون کیا اور بولا‘ ’’مسلم لیگ ن کی قیادت ایک اچھا فیصلہ کرنے جا رہی ہے‘ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئی تو پاکستان کے لیے بہتر ہو گا‘‘۔ میرا سوال تھا کہ کیسا فیصلہ؟ اس نے جواب دیا‘ ’’برطانیہ میں مقیم بااثر پاکستانی حلقوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت معروف پاکستانی نژاد برطانوی سیاسی شخصیت چوہدری محمد سرور کو برطانیہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر تعینات کرنے جا رہی ہے۔ یہ خبر بظاہر بڑی خوش کن لگتی ہے لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ ایک برطانوی شہری کو پاکستان کی حکومت کیسے لندن میں اپنا ہائی کمشنر تعینات کر سکتی ہے۔

یہ آئین و قانون کا معاملہ ہے‘ مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے کئی ارکان پارلیمنٹ کو غیر ملکی شہریت کی بنا پر نا اہل قرار دیا ہے‘ حالیہ الیکشن میں بھی کسی غیر ملکی شہریت رکھنے والے سیاستدان کو الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈین شہریت ہی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی تھی اور انھوں نے جو رٹ دائر کی تھی عدالت عظمیٰ نے اسے اسی بنا پر خارج کر دیا تھا۔ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن ہیں، وہ بھی وہیں رہتے ہیں لیکن ان کی دہری شہریت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی نے برسراقتدار آ کر حسین حقانی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا تھا‘ ان پر امریکی شہریت کا الزام لگتا رہا لیکن وہ انکار کرتے رہے ہیں، ان کی امریکی شہریت کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملا، ان کی سفارت میمو کیس کی وجہ سے گئی، امریکی شہریت کی وجہ سے نہیں۔ ایسی صورت میں چوہدری محمد سرور کیسے ہائی کمشنر بنیں گے‘ یہ سوال بہر حال موجود ہے۔ اگر یہ خبر برطانیہ میں گردش کر رہی تو اسے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی خواہش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ برطانوی شہری ا پنا وطن چھوڑ تو چکے ہیں لیکن ان کے دل پاکستان میں ہی ہیں اور وہ یہاں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر اتنی نظر رکھتے ہیں کہ ہم یہاں ایسا نہیں کرتے۔

چوہدری سرور محض برطانوی شہری ہی نہیں بلکہ تین بار برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو چکے ہیں، وہ 1997 سے 2010 تک اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے ہیں‘ وہ ایک معروف شخصیت ہیں اور پاکستان میں خاصے جانے جاتے ہیں‘ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت کے خاصے قریب ہیں‘ پنجاب خصوصاً فیصل آباد ریجن میں ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ان کی مشاورت شامل رہی ہے‘ برطانیہ میں مقیم دوستوں کا تو کہنا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد ن لیگ کی قیادت نے انھیں پاکستان میں اہم ذمے داری دینے کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مسائل بخوبی سمجھتے ہیں۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ نئی حکومت آئین و قانون کی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں کوئی ذمے داری دے دے۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں مسلم لیگ ن کے لیے پاکستان کو ایک پر امن اور مستحکم ملک کا روپ دینا آسان کام نہیں ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک ایسا چیلنج ہے جس کے بارے میں اب میاں محمد نواز شریف بھی محتاط گفتگو کر رہے ہیں‘ ان کے مخالفین نے تو ابھی سے آستین چڑھا لی ہیں‘ امریکا نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ کر کے حکومت کو پہلی سلامی پیش کر دی ہے اور عمران خان صاحب نے تو یہ بھی فرمایا دیا ہے کہ حکومت ڈرون حملے بند کرانے یا ڈرون گرانے کے بارے میں واضح فیصلہ کرے۔

ن لیگ کے لیے بڑا کٹھن وقت آنے والا ہے‘ پاکستانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے‘ اگر بجلی نہ ملی‘ کارخانے بند رہے‘ ڈرون حملے ہوتے رہے‘ خودکش حملے اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہ رکی تو پھر مسلم لیگ ن کی حکومت کا جو حشر ہو گا‘ وہ شاید پیپلز پارٹی سے بھی برا ہو گا‘ ایسی صورت حال میں مسلم لیگ ن کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور یورپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہو گی‘ اس مقصد کے لیے غیر ممالک میں مقیم بااثر اور شفاف پاکستانی نژاد شخصیات کا تعاون اور مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

پاکستان کے لیے عالمی سیاست میں امریکا اور برطانیہ کی انتہائی اہمیت ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں ان ممالک کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو‘ پاک بھارت تنازعہ ہو یا پاکستان کے معاشی مسائل‘ ان سب میں یہ دونوں ممالک موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر چوہدری سرور کو نہیں جانتا لیکن میرے دوست نے جوکچھ بتایا ہے‘ اس سے سن کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے‘ ہمارے لیے سب سے زیاد اہمیت پاکستان کی ہے اور اس کی ترقی و خوشحالی کے لیے جہاں سے بھی مدد ملے ، اسے خوش دلی سے قبول کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔