چیف سلیکٹر کو کیا کرنا چاہیے؟

سلیم خالق  جمعرات 13 ستمبر 2018
انضمام نے کوئی کال ہی نہیں کی ہوگی لیکن اگر ایسا کیا تو ان کیخلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

انضمام نے کوئی کال ہی نہیں کی ہوگی لیکن اگر ایسا کیا تو ان کیخلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

’’قومی کرکٹ چیف سلیکٹر انضمام الحق کومفادات کے ٹکراؤ پر پی ایس ایل ڈرافٹ کمیٹی سے ہٹا دیا گیا‘‘

شاید بہت سے لوگوں کیلیے یہ ایک عام سی خبر ہو لیکن اگر غور کریں تو اس میں بہت بڑا طوفان چھپا ہے،انضمام پی ایس ایل کی ٹیم لاہور قلندرز کے ساتھ بھی وابستہ ہیں، پی سی بی نے ہر ماہ لاکھوں روپے دے کر ان سے سوائے ٹیم سلیکشن کوئی کام ہی نہیں لیا، مگر ایک پرائیوٹ پارٹی بہتر پلان بنا کر انھیں ملک کے کئی شہروں میں لے جا کر ٹیلنٹ کی تلاش کرتی دکھائی دی، یہ بورڈ کیلیے لمحہ فکریہ اور وہاں کس نان پروفیشنل انداز سے کام ہو رہا ہے اس کا بھی عکاس تھا۔

بعض پی ایس ایل فرنچائزز کو خدشہ ہوا کہ کہیں ڈرافٹ کی کیٹیگریز بناتے ہوئے انضمام اپنی ٹیم کو فائدہ نہ پہنچا دیں اس لیے اعتراض جڑ دیا،گوکہ پریس کانفرنس میں نئے چیئرمین احسان مانی نے سلیکشن کمیٹی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید نئی انتظامیہ انضمام پر نجم سیٹھی جیسا اعتماد نہیں کر رہی، چیئرمین نے تاحال ان کو ملاقات کیلیے بھی نہیں بلایا، پی ایس ایل کمیٹی سے ہٹانا ایک طرح سے چیف سلیکٹر کی ایمانداری پر شکوک اور ان کی توہین ہے،یہ پاکستان کی لیگ اور اس سے منسلک بیشتر لوگ پی سی بی میں بھی پوزیشنز سنبھالے ہوئے ہیں۔

کل کو کوئی اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا کہ کوچ مکی آرتھر کراچی کنگز سے بھی منسلک ہیں اور قومی ٹیم میں اپنے فرنچائز کے فلاں کھلاڑی کو لے آئے تو کیا ان کو بھی ہٹا دیں گے،یا اظہر محمود فلاں بولر کو اس وجہ سے قومی ٹیم میں لائے کیونکہ وہ ان کی فرنچائز کا تھا تو کیا ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے، بورڈ کواس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنانا ہوگی، یا تو ایسا کر دیں کہ قومی ٹیم سے وابستہ کوئی بھی شخصیت چاہے وہ انضمام، آرتھر، اظہر محمود جو بھی ہو وہ پی ایس ایل سے دور رہے گی،مگر میں جانتا ہوں ایسا نہیں ہوگا نہ ہی ہونا چاہیے، اسی طرح پی سی بی کے آفیشلز جو دونوں جگہ کام کر کے ڈبل بونس بھی لیتے ہیں ان کی مراعات ختم کی جائیں،قانون سب کیلیے برابر ہونا چاہیے، پی سی بی کے حالیہ اقدام نے انضمام کی ساکھ پر سوال اٹھا دیا، ایسا لگتا ہے کہ حکام بھی فرنچائز کو فائدہ پہنچانے والی بات کو درست سمجھتے ہیں۔

ایسے میں کیا انھیں پورے پاکستان کی ٹیم منتخب کرنی چاہیے؟ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ وہ فلاں شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور فلاں شہر کے پلیئرز منتخب نہیں کیے تو کیا ہوگا؟ بدقسمتی سے انضمام نے اپنے دور میں کئی غلطیاں بھی کی ہیں،انھوں نے اپنے بھتیجے امام الحق کو فوراً موقع دے دیا لیکن فواد عالم سمیت کئی حقدار کھلاڑی انھیں نظر نہیں آئے،امام یقیناً باصلاحیت بیٹسمین ہیں اور چچا نہ ہوتے تو بھی جلد یا دیر سے انھیں چانس مل ہی جاتا مگر اب پوری عمر یہی چھاپ لگی رہے گی کہ رشتہ دار ٹیم میں لائے، اسی طرح اب انضمام کے بیٹے کا معاملہ بھی سامنے آ گیا، عبدالقادر نے الزام لگایا کہ انھوں نے جونیئر چیف سلیکٹر باسط علی کو فون کرکے اپنے بیٹے کے عدم انتخاب کی وجہ پوچھی، گوکہ سابق کپتان اس کی تردید کر چکے مگر بدقسمتی سے اب ان کے بیٹے کا نام بھی منفی حوالے سے سامنے آ گیا۔

جب تک وہ چیف سلیکٹر ہیں وہ جہاں بھی کھیلا یہی کہا جائے گا کہ والد کی وجہ سے موقع ملا، اصل مفادات کے ٹکراؤ کا الزام یہاں آتا ہے،البتہ مجھے یقین ہے کہ انضمام نے باسط کو فون نہیں کیا ہوگا، جو انسان محض اپنی انا کو تسکین پہنچانے کیلیے پاکستان کا ٹیسٹ فورفیٹ کر دے، جو اپنے عروج کے دور میں چیئرمین پی سی بی تک کو اہمیت نہ دے، وہ کسی سابق ساتھی کھلاڑی سے اپنے بیٹے کے لیے بات نہیں کر سکتا،انھوں نے اگر پی سی بی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تو ایسا ضرور ہونا چاہیے.

احسان مانی کو معاملے کی تہہ تک جانا ہوگا،اول تو انضمام نے کوئی کال ہی نہیں کی ہوگی لیکن اگر ایسا کیا تو ان کیخلاف ایکشن ہونا چاہیے، اگر باسط علی نے غلط بیانی کی تو ان کو گھر بھیجنا ہوگا، دونوں ٹھیک ہیں تو عبدالقادر سے پوچھنا چاہیے کہ آپ نے کیا سوچ کر ایسا الزام لگا دیا، معاملہ جو بھی ہو لیکن اس سے بھی پاکستان کرکٹ کی جگ ہنسائی ہی ہوئی، چیف سلیکٹر نے بھی فوراً ویڈیو بیان جاری کر کے تنازع کو ہوا دی، ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں مگر بڑی پوسٹ پر فائز شخصیت کو ایسے ردعمل نہیں دینا چاہیے۔

کھیل سے منسلک اعلیٰ شخصیات کے رشتہ دار بھی کرکٹ میں ہوں تو اقربا پروری کے الزامات تو سامنے آتے ہی رہتے ہیں، حالانکہ کرکٹ آسٹریلیا کے مستعفی چیف سدرلینڈ اور سابق کوچ لی مین کے بیٹے بھی جونیئر لیول کی کرکٹ سے منسلک ہیں مگر وہاں کا سسٹم مضبوط اور کوئی فاسٹ ٹریک طریقے سے ٹیم میں نہیں آ سکتا، اسی لیے سوالات نہیں اٹھ رہے، بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں حق داروں کا حق کھاکر منظور نظر افراد کو نوازا جاتا ہے اسی لیے اعتراضات بھی ہوتے ہیں، موجودہ سلیکشن کمیٹی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے دور میں ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی اور لارڈز ٹیسٹ سمیت بعض اہم کامیابیاں حاصل کیں۔

البتہ ہمیں اس کا زیادہ کریڈٹ مکی آرتھر اور سرفرازاحمد کو دینا ہوگا جنھوں نے صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے نوجوان کرکٹرز کو مسلسل کھلایا، پی ایس ایل کے ذریعے ینگسٹرز کا اعتماد بھی بڑھا،اس وقت حالات چیف سلیکٹر کیلیے اتنے اچھے نہیں لگ رہے، حکام ان سے اس بات پر ناخوش ہیں کہ وہ اعلان سے قبل ہی پوری ٹیم میڈیا کے مخصوص حصے کو جاری کر دیتے ہیں، جب تک انضمام چیف سلیکٹر ہیں بھتیجے امام الحق اور بیٹے ابتسام الحق کو سکون سے کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا، اس لیے انھیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آگے کیا کرنا ہے، بچوں کا مستقبل دیکھیں یا پھر اپنا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔