مسلسل اچھی اچھی خبریں

شکیل فاروقی  جمعرات 30 مئ 2013
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

خبروں کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ No News is a Good News مگر گزشتہ ایک طویل عرصے کے دوران یکے بعد دیگرے تواتر سے بری بری خبریں آرہی تھیں جس کے باعث صورت حال یہ تھی کہ بقول شاعر:

کتنے ہلاک‘ کتنے گرفتار دیکھنا
بس صبح و شام اس لیے اخبار دیکھنا

مگر شکر ہے خدا کا کہ اب تسلسل کے ساتھ اچھی خبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تازہ ترین خبر یہ کہ مستقبل کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ صدر زرداری سے استعفیٰ نہیں مانگیں گے۔ جواباً صدر زرداری نے میاں صاحب سے فرمایا ہے کہ آپ کو ابھی سے وزیر اعظم مانتا ہوں۔ خیرسگالی کے ان مثبت جذبات کے حوالے سے اس کے علاوہ بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ:

بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے
جو صلح ہوجائے جنگ ہوکر

اسی طرح کی ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے معتوب سینیٹر بابر اعوان پر پورے ڈیڑھ سال بعد ایوان صدر کے دروازے کھل گئے۔ دارالخلافہ اسلام آباد سے دلچسپ خبر یہ ملی ہے کہ الیکشن ہارنے کے بعد (ن) لیگ کے حنیف عباسی اب ٹیبل ٹینس کھیلنا سیکھیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ جس طرح عمران خان کھیل کے میدان میں اپنا لوہا منوانے کے لیے اب سیاست کے میدان میں اپنا نام پیدا کر رہے ہیں اسی طرح اب حنیف عباسی سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد کھیل کے میدان میں اپنے جوہر دکھائیں گے۔ رہی بات سیاست کے میدان میں ان کی شکست خوردگی کی تو ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بس یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ:

گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا کرے جو گھٹنوں کے بل چلے

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان سے سردار یار محمد رند کے حوالے سے یہ اچھی خبر بھی موصول ہوئی ہے کہ انسداد دہشت گردی سے متعلق سبی کی عدالت نے انھیں دہرے قتل کے مقدمے میں ان کے بیٹے سمیت بری کردیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے گزشتہ دنوں یہ اچھی خبر بھی سننے کو ملی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عمران خان بستر علالت سے اٹھ کر چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے ہیں اور آہستہ آہستہ دوبارہ صحت مندی کی جانب گامزن ہیں۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے یہ خوش خبری بھی سننے کو ملی کہ تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے لیے اس کے قائد اعلیٰ میاں محمد نواز شریف کے لیے نئی شیروانی کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔ان ہی اچھی خبروں کے درمیان ایک بہت بڑی خوش خبری یہ بھی ہے کہ پاکستان کا برادر اور انتہائی مخلص ملک سعودی عرب پاکستان کو اس کے شدید ترین معاشی اور توانائی کے بحران سے باہر نکالنے کے لیے 15 بلین ڈالر کا ایک خصوصی بیل آؤٹ (Bail Out) پیکیج دینے پر آمادہ ہوگیا ہے جس کی مدد سے توانائی کے شعبے میں سرکلر قرضے کے دائمی مسئلے کا حل تلاش کرلیا جائے گا۔

ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کے زیر نگرانی قائم ہونے والی پاکستان کی نئی حکومت کے قیام ودوام میں خصوصی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ جب 1998 میں پاکستان دنیا کے نقشے پرساتویں ایٹمی قوت بن کر ابھرا تو اس آڑے وقت میں بین الاقوامی اقتصادی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے سعودی عرب نے ہی برادرانہ جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ 1998 سے لے کر 2002 تک پاکستان کو سعودی عرب سے 3.5 بلین ڈالر مالیت کا تیل بعداز خرید ادائیگی کی بنیاد پر خصوصی رعایت کے تحت ملا تھا جس نے پاکستان کی معیشت کو بروقت سہارا دیا تھا۔

11 مئی کو ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں جوں ہی مسلم لیگ (ن) کو بھاری عوامی حمایت حاصل ہونے کی خبریں عام ہوئیں، تو پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نے بلاتاخیر ہماری وزارت خارجہ سے پاکستان کی تیل کی ضروریات کا تخمینہ طلب کرلیا توقع ہے کہ پاکستان کو باسہولت بعدازخرید ادائیگی کی بنیاد پر آیندہ تین سال میں کی جانے والی ادائیگی کی بنیاد پر یومیہ 100,000 بیرل خام تیل اور تقریباً 15 ہزار ٹن فرنس آئل مہیا کیا جائے گا۔

اس خصوسی سہولت کی بدولت پاکستان کی نئی حکومت کو لوڈشیڈنگ میں فوری کمی کرنے کی کوششوں میں خاطر خواہ مدد حاصل ہوگی اور اس طرح ملک کو عرصہ دراز سے درپیش ایک انتہائی پیچیدہ اور سنگین نوعیت کے مسئلے کا فوری حل میسر آجائے گا۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت طویل المدت بنیاد پر بجلی کے بحران کا مثالی حل تلاش کرسکے گی اور پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز کے مشترکہ تعاون سے اس سلسلے میں ایک کارگر حکمت عملی وضع کرلی جائے گی۔

توقع ہے کہ میاں نواز شریف جب آیندہ ماہ اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لیں گے تو وہ سعودی عرب کا نہایت اہم سرکاری دورہ کریں گے۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی بیرونی ملک کا ان کا یہ پہلا دورہ ہوگا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے کتنے دیرینہ اور گہرے روابط ہیں۔

مگر سعودی حکمراں میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ اس جانب ایک اشارہ اس حقیقت سے بھی ملتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی حکومت کی جانب سے گرمجوشی کا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان کے کئی بڑے بڑے وفود نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سعودی عرب کے کئی دورے کیے جس میں صدر آصف علی زرداری بذات خود بھی شامل تھے،مگر اس کے باوجود یہ تمام دورے کسی نمایاں کامیابی کے حصول سے تقریباً محروم ہی رہے۔

گزشتہ دنوں مستقبل کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی کے ساتھ ملاقات کی خبر بھی بڑی خوش آیند تھی۔ اس ملاقات کا سب سے قابل ذکر پہلو یہ تھا کہ سپہ سالار کسی پروٹوکول کے بغیر میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے بلا تکلف ان کے پاس گئے۔ اس ملاقات سے نئی جمہوری حکومت کے ساتھ افواج پاکستان کے خوشگوار تعلقات کی جانب ایک واضح اشارہ ملتا ہے جو ملک و قوم کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ سول اور ملٹری تعلقات میں توازن اور خوشگواری نئی حکومت کی Smooth Sailing کے بارے میں ایک حوصلہ افزاء نوید ہے۔

ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ متوقع وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے طالبان کے ساتھ افہام و تفہیم اور مکالمے کی جس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے طالبان کی جانب سے اس کے جواب میں مثبت اور امید افزا اشارے ملے ہیں۔

اگر اللہ کے فضل و کرم اور میاں نواز شریف کی نیک نیتی سے یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو وطن عزیز میں قیام امن وامان کا پیچیدہ اور سنگین مسئلہ حل ہوجائے گا اور پوری قوم اطمینان اور سکون کا سانس لے سکے گی۔ علاوہ ازیں اس متوقع انقلابی پیش رفت کے ملکی معیشت پر بھی نہایت مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور صنعت و تجارت کا پہیہ جو عرصہ دراز سے سست روی اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ گھومنا شروع ہوجائے گا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی مذاکرات کی دعوت کو خوش آیند قرار دینا بڑی اچھی خبر ہے۔

گزشتہ دنوں کی تمام اچھی خبروں میں چین کے وزیر اعظم کا حالیہ دورہ سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے۔ کسی بھی بیرونی حکومت کے سربراہ کا یہ سب سے پہلا دورہ ہے جو میاں نواز شریف کے مسند وزارت سنبھالنے سے بھی پہلے وقوع پذیر ہوگیا ہے۔ مستقبل کی نئی حکومت کے ساتھ چینی قیادت کے تعلقات کے استحکام اور فروغ کی شاہراہ پر اس دورے کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔