مجرمانہ واقعات کی افسانوی حیثیت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 30 مئ 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

گجرات میں اسکول وین میں آتشزدگی کے واقعے میں 16 بچے اور ایک ٹیچر جاں بحق ہوگئے، اس وین میں سوار بچوں نے گیس کے لیکیج کی بو محسوس کرکے ڈرائیور کو اس سے آگاہ کیا تھا لیکن ڈرائیور نے سنی ان سنی کردی، کچھ دیر بعد بیٹری کے تاروں کے اسپارک نے پوری وین کو جلاکر بھسم کردیا، اسکول کی ٹیچر نے کئی بچوں کو باہر نکال کر ان کی جان بچائی اور اپنی جان گنوا بیٹھی۔

حادثہ بڑا دردناک اور روح فرسا تھا۔ گاڑی کا ڈرائیور خوفزدہ ہوکر فرار ہوگیا تھا جس کو گرفتار کرلیا گیا ہے، گرفتاری کے بعد اس نے پولیس کو بتایا کہ اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے اور وہ چھ ہزار روپے ماہانہ پر یہ گاڑی چلایا کرتا تھا۔ واقعے کے بعد مالکان اسکول میں تالا لگا کر غائب ہوگئے ہیں جب کہ پرنسپل نے اپنا فون بند کردیا ہے۔

اتوار کی صبح ٹی وی چینلز پر اس سانحے کی خبریں اور کمنٹری چل رہی تھیں جس میں پس پردہ موسیقی اور صوتی اثرات کے ساتھ سانحے کی فلم اور اس سانحے کا شکار ہوجانے والے بچوں کے خاندان کی بپتا انتہائی جذباتی اور افسانوی انداز میں پیش کی جارہی تھی کہ فلاں بچہ یہ کہہ کر اسکول گیا تھا، فلاں فلاں بچے آپس میں بہن بھائی تھے اور فلاں خاندان کے اتنے افراد اس سانحے میں لقمہ اجل بن گئے۔

کاش! وہ اس دن نہ جاتے، کاش! وہ سامنے سے چلے آئیں، کوئی کہہ دے کہ وہ آرہے ہیں۔ یہ تمام تفصیلات بے شک سانحے کے پس پردہ چھپی تلخ اور الم ناک حقیقت ہیں لیکن ان میں اتنا منہمک نہیں ہوجانا چاہیے کہ سانحے کے اصل پہلو پس پشت چلے جائیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کو سب سے زیادہ توجہ اس امر پر دینا چاہیے، اس قسم کے واقعات کے مرتکب اس میں ملوث اور لاپرواہی کے حامل افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور مستقبل میں اس قسم کے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔

اس سلسلے میں میڈیا کو چاہیے کہ متعلقہ محکموں اور ارباب اختیار سے فوری طور پر رابطہ کرکے حادثے سے متعلق ان کی ذمے داریوں اور قانونی پابندیوں کے بارے میں استفسار کیا جائے۔ ان سے پوچھا جائے کہ حادثہ کیوں رونما ہوا؟ اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ انھوں نے اپنی ذمے داری پوری کرنے کے لیے کیا کاوشیں کی ہیں؟ اور اب اس کے نتیجے میں حادثے کے مرتکب افراد کے خلاف کیا کارروائی ہوگی؟ اس سلسلے میں ان کی جانب سے کیا پیش بندیاں کی گئی ہیں؟ احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟ عوام کو ان سے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟

اور مستقبل میں ایسے حادثات سے نمٹنے اور عوام کی آگاہی اور دادرسی کے لیے کیا پروگرام طے کیا گیا ہے؟ اس قسم کی جواب دہی متعلقہ ارباب اختیار سے لے کر وزرا اور وزیراعلیٰ تک ہونی چاہیے اور پھر اس پر یہیں اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ میڈیا کو اس پر فیڈ بیک بھی لینی چاہیے کہ متعلقہ ارباب اختیار نے کیا کہا تھا؟ کیا وعدے اور اعلانات کیے تھے اور ان پر کس حد تک عمل کیا گیا یا نہیں کیا گیا؟ ایک مرتبہ پھر ان کے بیانات، وعدے اور اعلانات کے کلپس دکھا کر ان سے جواب طلب کیا جائے کہ آپ نے کیا کچھ کہا تھا، اس پر کتنا کچھ عمل ہوا ہے اور نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا؟ اور کب تک ہوگا؟

اس قسم کے حادثات کے بعد متعلقہ ارباب اختیار کی جانب سے اپنے دفتروں سے غائب ہوجانے اور ٹیلی فونز بند کردینے کی جو بے حس قسم کی روش ہے اس کے تدارک کے لیے میڈیا کو ان کے دفاتر میں پہنچ کر اس کے منظر دکھانے اور ان کے بند ٹیلی فون نمبرز کو اسکرین پر نمایاں (ڈسپلے) کرکے دکھانے چاہئیں اور پیش کش کرنی چاہیے کہ وہ چینلز پر فوری طور پر رابطہ کرکے اپنی پوزیشن واضح کریں۔

ورنہ اس قسم کے روح فرسا واقعات کی نوعیت مجرمانہ سے مظلومانہ اور افسانوی حیثیت اختیار کرتی جائے گی، جب عوام کی توجہ صرف بین، گریہ و زاری اور نوحوں تک محدود ہوکر رہ جائے گی، انھیں ارباب اختیار کی وقتی طفل تسلیوں اور حکمرانوں کے تعزیتی پیغامات کے سوا کچھ نہیں ملے گا اور وہ ایک حادثے کے بعد دوسرے حادثے کے لیے اپنی آنکھوں میں اشک جمع کرتے رہیں گے۔

حالیہ واقعے پر بھی صدر، وزیراعظم ودیگر ارباب اقتدار نے گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے، کیا اس سے ان درجنوں بچوں کے والدین کے دکھ کا درماں ہوجائے گا جنہوں نے اپنے پھول جیسے بچوں کو اسکول کے لیے رخصت کرتے ہوئے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انھیں گھنٹہ بھر میں ان کے یہ پھول ناقابل شناخت کوئلے کی صورت میں لوٹا دیے جائیں گے۔ زخمی بچوں کے والدین بے سروسامانی کے عالم میں لاہور کے ایک اسپتال کے لان اور لاہور کے ہوٹلوں میں پڑے کس کرب و ذہنی اذیت سے گزر رہے ہوں گے۔ کیا وہ یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ اسکول نے ایسی ناکارہ گاڑی کیوں حاصل کی تھی؟ ڈرائیور بغیر لائسنس کے سڑکوں پر گاڑی کیسے دوڑا رہا تھا؟ گجرات جیسے شہر میں جہاں حکمرانوں کو تمام سہولیات میسر ہیں یہاں سے دو وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں پورے شہر میں کوئی برن وارڈ کیوں نہیں تھا؟

ڈرائیونگ کا شعبہ طبیعت کی حساسیت، مزاج کی لطافت اور احساس ذمے داری کا شعبہ ہے لیکن بدقسمتی سے اس شعبے میں ناخواندہ، بدمزاج، بداخلاق اور منشیات کے عادی افراد کا غلبہ ہے جن سے معمولی معاوضے پر طویل ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ اسکول انتظامیہ ناکارہ بسیں محض کمیشن یا کم ریٹ پر لے کر بچوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگاتی ہیں، ٹرانسپورٹ ناکارہ گاڑیوں پر کم معاوضے پر غیر تربیت یافتہ ڈرائیور رکھتے ہیں، پولیس و دیگر متعلقہ محکموں کو رشوتیں دے کر دھڑلے سے اپنا کام کرتے ہیں،

اسکول انتظامیہ ٹرانسپورٹ کنٹریکٹر کے علاوہ، کینٹین کنٹریکٹر، یونیفارم اور کتابیں مہیا کرنے اور کمپیوٹر لیب وغیرہ چلانیوالے افراد سے بھی باقاعدہ پرسنٹیج حاصل کرتے ہیں اور اس آمدنی سے محکمہ تعلیم کے علاوہ دیگر متعلقہ مجاز نگراں اداروں کو بھی رشوتیں دے کر خاموش کردیتے ہیں۔ اسی لیے حادثے سے پہلے یا حادثے کے بعد محکمہ تعلیم، محکمہ شہری دفاع، محکمہ ماحولیات، ٹرانسپورٹ اتھارٹی یا پولیس وغیرہ کا کوئی کردار دیکھنے میں نہیں ماسوائے اس کے کہ یہ قانون شکن افراد کے مربی اور ان کے دست و پا بنے ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں لاکھوں بچے اسکولوں میں غیرمحفوظ حالات میں تعلیمی عمل جاری رکھتے ہیں، بھیڑ بکریوں کی طرح ناکارہ اور خطرناک اسکول بسوں میں سفر کرتے ہیں، یہ خرابیاں دور کیوں نہیں کی جاتیں؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے مفادات بڑے بڑے لوگوں کے ہیں اور مصائب چھوٹے طبقات کے لیے ہیں۔

کیونکہ اشرافیہ، ارباب اختیار اور آسودہ حال طبقے کے بچے تو ان مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں تمام معیارات برتے جاتے ہیں، ان اداروں کے ارد گرد سیکیورٹی بھی ہوتی ہے، بعض مرتبہ سڑکیں بھی بند کردی جاتی ہیں، تین تین اور چار چار لائنوں میں گاڑی کھڑی کرکے ٹریفک معطل یا ڈائیورٹ کردیا جاتا ہے جب کہ عام اسکول کے بچوں کی وین رش میں پھنسی انتظار کرتی رہتی ہیں، یہیں سے اس ذہنیت کی ابتدا کی جاتی ہے کہ عوام محض بھیڑ بکریاں ہیں۔ جینے اور آسائش کا حق تو صرف رؤسا کی اولاد کو ہے۔ جب تک یہ رویہ اور ذہنیت ختم نہیں ہوجاتی سانحات رونما ہوتے رہیں گے اور افسانوی حیثیت اختیار کرتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔