جین مندر تھانہ سبزی منڈی، شہر کے وسط میں ’اچھوت‘ عمارت

ذیشان یعقوب  اتوار 16 ستمبر 2018
کمروں کی حالت بہت ہی خستہ تھی، اینٹیں بھربھری ہوچکی تھیں، مکڑے کے جالے ہر جگہ تھے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

کمروں کی حالت بہت ہی خستہ تھی، اینٹیں بھربھری ہوچکی تھیں، مکڑے کے جالے ہر جگہ تھے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہر روز اس راستے سے گزرتے ہوئے من میں ایک بے چینی سی جاگتی، دل کرتا کہ ابھی اس سواری سے چھلانگ لگا دوں اور دیوار پھلانگ کر اس کے اندر چلا جاؤں۔ لیکن روزمرہ کے کاموں میں ایسے الجھ چکا ہوں کہ اپنے لیے بھی وقت نہیں نکلتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تھا تو میں ایک جلوس میں شامل تھا جو نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس وقت میری عمر شاید 12 برس کی ہوگی۔

اس وقت سے لے کر اب تک اسے دیکھنا میری خواہشات میں شامل تھا۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ خواہشات بدلتیں گئیں اور خدا کے کرم سے پوری بھی ہوتی گئیں۔ ہر روز میں اس کی بیرونی دیوار کو دیکھتا جس کے ساتھ ایک کباڑی اپنی دکان سجائے بیٹھا ہوتا۔ اس کی دیوار پر آوارہ کتے سپاہیوں کی طرح گشت پر ہوتے، کبھی کبھار بیٹھے ہوئے تلوار جیسے دانت نکال کر ہر گزرنے والے کا مشاہدہ کرتے جیسے کلاشنکوف تانے کھڑے ہوں۔ میں ہر روز اندر جانے کہ نت نئے طریقے سوچتا اور پھر سارا دن تخیل میں اس راستے پر چل کر اپنی چشمِ تصور سے اس جگہ کا نظارہ کرتا اور معاشرے کی ننگی ترقی کو تار تار کرنے کےلیے لفظ تلاش کرتا۔ اس کا ایک کونا بھربھری اینٹوں کی وجہ سے کچھ ٹوٹا ہوا تھا جس سے اس میں سوراخ ہوگیا تھا۔ وہ سوراخ اس قدر کشادہ تھا کہ اس میں سے صرف کتا ہی گزر سکتا تھا، میرے جثے والا اس میں بس اپنا سر داخل کرکے اندر کا نظارہ ہی کرسکتا تھا، مگر میں اس پر بھی خوش تھا اور کبھی کبھی سوچتا کہ اس کا دیدار اسی سوراخ کی آڑ میں کرلوں مگر ایسا کرنے کا موقع کبھی نہ ملا اور ہر روز میری بنی بنائی اسکیمیں دم توڑ جاتیں۔

ایک دن میں اور میری آوارگی کا ساتھی عدنان، کئی گھنٹوں سے کسی جگہ جانے کی سوچ رہے تھے مگر فیصلہ نہ ہو پارہا تھا کہ کس جگہ جایا جائے۔ شام ڈھلنے والی تھی، سورج کی تپش کم ہو چکی تھی۔ اتفاقاً ہم اسی رستے پر تھے جہاں سے میں اس محبوبہ عمارت کا نظارہ کرتا۔ بس پھر مجھے کچھ میں سمجھ نہ آیا اور موٹرسائیکل کا رخ اس ٹوٹے ہوئے کونے کی طرف موڑ دیا۔

اسی کونے کے ساتھ ایک لوہار اپنا کاروبار سجائے بیٹھا تھا جو گھوڑوں کو نعل لگانے کا کام کرتا تھا، جس کی وجہ سے اس جگہ لید کا ایک انبار لگا ہواتھا۔ یہاں کھڑے ہونا محال تھا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس لوہار سے تھوڑا آگے ایک عارضی سا ڈمپنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا جو اب مستقل وجود پاچکا تھا۔

موٹرسائیکل کا رخ اس طرف کرنا تھا کہ عدنان میرے ذہن میں آتے ہوئے خیالات کو بھانپ گیا اور چیخ اُٹھا ’’اوئے چل اوئے! نئیں جانڑا اوتھے!‘‘ مگر میں نے ایک نہ سنی اور موٹرسا ئیکل کھڑی کرکے اس سوراخ کی جانب چل دیا۔ بدبو اس قدر زیادہ تھی کہ عدنان نے رومال اپنی ناک پر رکھ لیا اور غصے سے میری جانب دیکھنے لگا۔ میں مکمل طور پر اس کے اس عمل کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ مشاہدہ کرنے لگا کہ کس طرح اندر جایا جائے۔

جس سوراخ اور ٹوٹی ہوئی جگہ کا میں نے خیال کیا تھا، وہ راستہ آسان نہیں تھا اور نہ اتنی ہمت کہ اس پر چڑھ کر میں اکیلا اس کا معائنہ کرلوں لہذا میں نے اس کے دونوں اطراف ایک چکر لگایا اور کوئی دوسرا آسان اور سہل راستہ تلاش کرنا شروع کردیا مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں کسی جنونی عاشق کی طرح اسے دیکھنے کےلیے تگ و دو کررہا تھا اور میرے اس جنون کو دیکھ کر عدنان کو مسلسل غصہ آرہا تھا۔ اسی کوشش میں مجھے ایک راستہ ملا جو قدر آسان تھا مگر اس کےلیے محنت درکار تھی؛ جو میں نے شروع کردی۔

اس کی سامنے والی دیوار پر ایک کھڑکی تھی جس کے اوپر ایک سوراخ تھا۔ اگر میں بھاگ کر آتا اور چھلانگ لگا کر اس کھڑکی پر پہلا قدم رکھتا اور پھر ٹانگ کے زور پر اُچھلتا تو عین ممکن تھا کہ میں اس کی چھت کو پکڑ کر اوپر چڑھ سکتا تھا، سو میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کوشش شروع کردی۔ مسلسل تین ناکام کوششوں کے بعد عدنان کی تیز آواز آئی جو اب تک دور سے مجھے بھاگ بھاگ کر اُچھلتا دیکھ رہا تھا: ’’توں لازمی باندراں دی طرح چھالاں مار کے اُتے چڑنا اے؟ آجا واپس فیر کسی دن آواں گے۔‘‘ اتنے میں میری کوشش کامیاب ہوگئی، میرا ہاتھ چھت کی دیوار پر تھا اور میں اپنے ہاتھوں کے بل پر ہوا میں جھول رہا تھا۔ اس کی آواز سننا تھی کہ میری ہنسی نکل گئی۔ ہاتھ کی پکڑ ڈھیلی ہوئی اور میں دھڑام سے نیچے آن گرا۔

اس کی دیوار کے ساتھ ساتھ مینڈکوں نے ایک بستی بسائی ہوئی تھی جو اتنی تعداد میں تھے کہ بھاگتے وقت میں نے اپنے پاؤں تلے کچلے جانے کی آواز محسوس کی۔

میں مسکراتا ہوا واپس آگیا۔ واپسی پر ایک بزرگ مجھے اس دیوار کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ ان سے دریافت کیا کہ یہ کیا چیز ہے؟ کس وقت کی ہے؟ اس کہ اندر رہا ئش تو نہیں؟ ہم اسے اندر سے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ بزرگ نے حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھا اور بولے یہ ایک جین مندر ہے، ہندؤں کے زمانے کا ہے، اب یہ تھانہ سبزی منڈی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چونکہ اب یہاں تھانہ نہیں رہا، وہ یہاں سے منتقل ہوکر کہیں اور چلا گیا ہے، تو بیٹا تم اس کے دروازے سے اندر جاسکتے ہو۔

یہ سب سننا تھا کہ میں حیران ہو گیا اس کا ایک دروازہ بھی ہوسکتا ہے، کبھی میں نے سوچا کیوں نہیں؟

دوسری بات مجھے یہ تنگ کر رہی تھی کہ یہ جین مندر کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا طرزِ تعمیر بھی اب تک کے مشاہدہ کردہ تمام مندروں سے مختلف تھا اور جین مت کو ماننے والے اس قسم کے مندر نہیں بناتے۔ اس سے پہلے جو میں نے رسول نگر میں جین مندر کا دورہ کیا تھا، اُس کی اور اِس مندر کی تعمیر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس کی بناوٹ کسی گوردوارے کی سی لگ رہی تھی۔ میں اس سے پہلے اسے گوردوارا ہی سمجھتا تھا اور مجھے اس وجہ سے یقین ہو جاتا تھا کیونکہ اس مندر سے تھوڑا آگے ایک اسکول ہے جسے پنجاب کا پہلا اسکول کہا جاتا ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے خالصہ حکومت میں بنوایا تھا۔

اب چونکہ مغرب کا وقت ہو چکا تھا اور عدنان بھی خاصا بے چین تھا، تو دروازے سے اندر جانے کا منصوبہ کسی اور دن پر ڈال دیا گیا۔

میرے لیے اب مزید انتظار کرنا بہت مشکل کام تھا۔ جیسے تیسے رات کاٹی، اگلی شام کو ہمیں پھر ملنا تھا لہذا میں نے عدنان کو اس مندر کے دروازے پر بلا لیا جس کے ساتھ ہی گوجرانوالہ کے ایک ایم پی اے کا مرکزی دفتر بھی ہے۔ اسے آنے میں ذرا دیر تھی کیوں کہ میں نے اس سے وہاں پہنچ کر رابطہ کیا، اگر میں ایسا نہ کرتا تو موصوف پھر سے کوئی بہانہ بناکر مجھے اندر نہیں جانے دیتے۔ سو میں نے مندر کی راہ لی، اس خطرے سے بے نیاز ہوکر کہ اندر کیا ہوگا؟ کون ہوگا؟ جو آوارہ کتے مندر کی چھت پر منڈلاتے رہتے تھے، کہیں وہ مجھے کاٹ ہی نہ لیں؟ دروازے کو ہاتھ سے بُنی ہوئی رسی کی مدد سے بند کیا گیا تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے رسی کھولی اور دروازے سے اندر چلا گیا۔ مندر کے فرش کی چکاچوند دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں دروازے سے تھوڑا آگے موجود تھا جس سے آگے جانے کی مجھ میں ہمت نہ ہوئی۔ اسی جگہ سے مندر کا جائزہ لیا۔ اتنے میں عدنان دفتر کے باہر آ گیا۔ میں اسے لینے کےلیے نکل پڑا۔

اسے لے کر جب میں مندر کی طرف بڑھا تو عدنان نے میری طرف دیکھا جس کی نظروں میں غصہ اور جنون ساتھ ساتھ تھے۔ میں نے اسے مکمل طور پر نظرانداز کیا اور ہم اندر داخل ہوگئے۔

مندر بہت ہی خوبصورت اور کشادہ تھا۔ اس کا فرش بہت ہی عمدہ، شطرنج کے خانوں کی طرح بنا ہوا تھا جو مندر سے صاف اور درست حالت میں تھا۔ دروازے کے بالکل سامنے مندر کی مرکزی عمارت تھی۔ مرکزی عمارت کسی قلعے کی مانند تھی جسے چاروں طرف سے پانی نے گھیر رکھا ہو، بس اس جگہ پانی نہیں فرش تھا۔ اس عمارت کے پانچ گنبد اور چار دروازے ہیں (جو سبھی بند تھے)۔ وسط میں ایک بڑا گنبد تھا اور باقی چار گنبد اس کے چاروں کونوں میں تھے۔ وہ اپنی ساخت میں بڑے یعنی مرکزی گنبد سے مشابہ تھے البتہ جسامت میں اس سے چھوٹے تھے۔ پچھلے دروازے سے تھوڑے فاصلے پر ایک درخت تھا جس کا سایہ مندر کو اور چند بوسیدہ گاڑیوں اور رکشوں کو تپتی دھوپ سے بچاتا تھا۔ اسی سائے میں ڈیوٹی سے فارغ کتے آرام بھی کرتے تھے۔ چند کتے ایک جھنڈ کی شکل میں ہماری ہر حرکت کو نوٹ کررہے تھے مگر قریب نہیں آرہے تھے۔ بائیں جانب کچھ کمرے تھے جن میں کوڑا کرکٹ کا انبار لگا ہوا تھا۔ کچھ کمروں کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے تھے جو زنگ آلود تھے۔

کمروں کی حالت بہت ہی خستہ تھی، اینٹیں بھربھری ہوچکی تھیں، مکڑے کے جالے ہر جگہ تھے۔ جب میں کمروں کے اندر جاتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میں کسی کی رہائش گاہ کے بنے حفاظتی بند کو توڑ کر اندر جا رہا ہوں۔ جالے کا ایک باریک سا دھاگہ میرے ساتھ لگتا اور حفاظت کرتے کرتے اپنی جان دے دیتا۔ مندر میں اتنی خاموشی تھی کہ میں بہ اآسانی مکڑی کے جالے ٹوٹنے کی آواز سن سکتا تھا۔

کمرے کے اندر جو نظارہ تھا وہ بڑا خوفناک اور تکلیف دہ تھا۔ کمروں کی دیواریں اپنی کہانی چیخ چیخ کر بیان کررہی تھیں مگر افسوس کہ اس معاشرے میں ایسا کوئی نہیں جو ان کی درد بھری آہ سن سکے اور اس بے جان جسم میں روح پھونک سکے۔

ہر دیوار اپنی کہانی سینے پر سجائے ایک ناقبل شکست سپاہی کی طرح اس معاشرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی محسوس ہوتی تھی مگر یہ نہیں جانتی کہ اس کا سامنا ایسے معاشرے سے ہے جو ہرے بھرے درخت کو بھی چاٹ کر سوکھا کردے اور پھر کاٹ کر جلا ڈالے۔ اس معاشرے نے بھی اس ناقابل شکست عمارت کو کیا خوب سزا سنائی ہے، تنہائی کی سزا!

پچاس لاکھ آبادی کے اس شہر کے وسط میں ایک ایسی عمارت ہے جسے چھوت کی بیماری لگادی گئی۔ اس کے اطراف میں زندگی کی چہل پہل ہے مگر اس عمارت کا حال کوئی نہیں پوچھتا، کوئی اس کا خیال نہیں رکھتا، ہر کوئی اسے نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہجوم کے طعنوں اور وقت کے تھپیڑوں نے اس عمارت کی اینٹوں میں گھن لگا دیا ہے جو اسے اس کے وقت سے پہلے دبوچ لے گا اور اس کی آخری چیخ بھی کسی کو سنائی نہ دے گی۔

ٹہلتے ٹہلتے میں اس کمرے میں جاپہنچا جس کی دیوار کے ذریعے میں نے گزشتہ رات مندر کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی چھت دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ زندگی میں پہلی بار آج عدنان کو چومنے کا دل کیا، اتنا پیار شاید ہی مجھے کبھی اس پر آیا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی دوستی مجھے ہمیشہ سنبھالے رکھتی ہے، کبھی میری بیساکھی بن جاتی ہے تو کبھی میرے پاؤں کی زنجیر۔ آج محسوس ہوا کہ اگر کل وہ مجھے نہ روکتا تو میں اس چھت کے ساتھ ہی نیچے آگرتا۔ چھت کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ ستونوں سے زیادہ خدا کے سہارے پر کھڑی تھی۔ جگہ جگہ سوراخ تھے اور مٹی مٹھی میں بند ریت کے ذرّوں کی طرح نیچے گررہی تھی۔ یہ چھت کتوں کا وزن تو برداشت کر سکتی تھی مگر مجھ جیسے بھاری بھرکم بندے کو نہیں۔ شاید گھر کے بعد یہ وہ جگہ تھی جہاں میری کتوں جیسی بھی عزت نہیں تھی۔

میں مسکراتا ہوا کمرے سے نکلا۔ میری مسکراہٹ دیکھ کر عدنان پتا نہیں کیوں سہم گیا اور فوراً مجھے ایک کمرے کی طرف لے گیا جس کی دہلیز پر انگریزی میں کچھ لکھا تھا ’’PIARALAL‘‘ جسے گرد نے لپیٹ رکھا تھا۔ وہ کمرہ مرکزی عمارت کے بعد مجھے سب سے خوبصورت لگا۔ اس کی ایک دیوار پر چار گنبد بنے ہوئے تھے جو آج بھی اپنے اچھوتے پن کو لیے ہوئے تھے۔ گنبد گرد سے اٹے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود دودھ جیسے سفید اور تاروں جیسی چمک اپنے اندر سموئے ہوئے تھے۔ یہ گنبد ایک چبوترے پر بنائے گئے تھے جنہیں مضبوطی کےلیے ستون کے سہارے سے کھڑا کیا گیا تھا جن میں سے اب صرف ایک ستون ہی موجود ہے۔

کمروں کی بیرونی دیواروں اور مندر کے صحن میں مختلف قسم کی تختیاں چسپاں تھیں جن پر ہندی اور اردو میں الفاظ کندہ تھے جو مندر کی مختلف ادوار میں تعمیر و تزئین کا ثبوت تھے۔ صحن کے فرش پر ایک سے زائد ٹائلوں پر مختلف نام کندہ کیے گئے تھے۔ یہ ان لوگوں کے نام تھے جنہوں نے مندر کی تعمیر میں مالی معاونت کی تھی۔ زیادہ تر ٹائلیں تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں مگر صرف ایک ٹائل ایسی ضرور مل گئی جس پر موجود عبارت کو بہ مشکل تمام پڑھا جاسکتا تھا۔ اس پر کندہ کیے گئے الفاظ کچھ ایسے تھے: ’’لالہ ہنجو شاہ نند شاہ ناہروی والوں نے عزیز راجکمار کی شادی پر مبلغ ایک ہزار روپیہ دان دیا جس کا فرش لگوایا گیا۔‘‘

اس کے ساتھ ساتھ دیواروں پر بھی ایسی تختیاں چسپاں تھیں جن پر اس سے ملتے جلتے الفاظ کندہ تھے۔ اس مندر کی تعمیر میں بھابڑہ گوت ذات نے بڑھ چڑ کر حصہ لیا جس کے نقوش آج بھی ان دیواروں پر موجود ہیں۔ بھابڑہ گوت ذات کے لوگ اس علاقے میں اتنی زیادہ تعداد میں آباد رہے تھے کہ انہوں نے یہاں جو مندر تعمیر کروایا، اس کا نام ہی ’’بھابڑہ والی مندر‘‘ پڑگیا اور جس کا آج صرف ایک مینار اور چند سیڑھیاں ہی بچی ہیں، باقی توڑ دیا گیا۔ البتہ اس کی اینٹوں سے بنی دیواریں آج بھی اس علاقے کے بہت سے گھروں میں موجود ہیں۔

اگر آپ اُن سیڑھیوں پر چڑھیں تو آپ کو اس مندر کی شان و شوکت کا اندازہ ہو جائے گا کہ اس کھنڈر کی اپنے وقتوں میں کیا وقعت رہی ہوگی۔

مندر کی دیواروں پر رنگ سے اور بھی بہت کچھ ہندی میں لکھا گیا تھا جسے سفید پینٹ کرکے چھپا دیا گیا ہے مگر کچھ جگہوں سے ان الفاظ نے اپنے گھونگھٹ کو ہٹا کر ہمیں اپنا جلوہ دکھا ہی دیا۔

مندر کے مرکزی دروازے کے دونوں طرف سیڑھیاں تھیں، ایک جنوب کی سمت تھی جو دروازے کے اُوپر بنے ہوئے چبوترے کی طرف رہنمائی کرتی تھی۔ چبوترے کے دروازے کو بھی ایسے مردہ تالے سے بند کیا گیا تھا جنہیں ہاتھ سے کھول کر اندر جایا جاسکتا تھا مگر ایسا کرنے سے ایک بار پھر مجھے عدنان نے روک دیا۔ میرا دل بہت چاہ رہا تھا کہ اس کے اندر دیکھا جائے مگر ایک انجانے خوف نے مجھے ایسا کرنے نہ دیا۔ مندر کے اندر چھائی خاموشی میں اب ایک سرسراہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی اور مغرب کا وقت بھی قریب تھا۔ دوسری سیڑھی شمال و مشرق کا رخ کرتی ایک کمرے سے ہوتے ہوئے چھت پر جاتی تھی۔ اس سے اوپر جانے پر میں اس جگہ تھا جس جگہ کتے اپنے دانت نکالے راہ گیروں کا معائنہ کرتے مجھے دکھائی دیتے تھے۔ چھت پر پڑے ہوئے گھڑے اوپر سے اور بھی بھیانک محسوس ہوتے تھے۔ اس جگہ سے مجھے اس چبوترے کی ایک کھڑکی کھلی نظر آئی جس کے اندر میں دیکھنا چاہ رہا تھا۔

میں دل بڑا کرکے اس کی طرف بڑھا تو عدنان نے ایک بار پھر صدا لگائی ’’اوئے آجا واپس! چھت دے نال ای تھلے جایں گا! میں نی بچانا فیر۔‘‘ میں اس بار بھی اس کی آوازوں کو نظرانداز کرکے دیوار پر چلتا ہوا اس کھڑکی کی طرف چل دیا۔ مگر ایک بار پھر کسی خوف کی بنا پر میں اس کے اندر جھانک نہ سکا۔

اب اس سرسراہٹ میں سسکیوں اور چیخوں کی آواز مجھے محسوس ہونے لگی تھی۔ میں ایک ویران مندر کی عمارت میں کھڑا تھا جس میں بتوں کی پوجا ہوا کرتی تھی، اس لیے اس عمارت میں آسیب کے خدشات ہم دونوں کے ذہنوں میں موجود تھے اور اس سے بھی زیادہ یہ ایک پولیس اسٹیشن تھاجس میں نہ جانے کتنے بے قصوروں کو قصوروار بنایا گیا ہوگا، جن پر ہونے والے ظلم و ستم کی گواہ اس مندر کے در و دیوار تھے۔ نجانے ان دیواروں نے کتنی سسکیاں، آہیں اور چیخیں سنی ہوں گی جن کی بازگشت آج بھی ان دیواروں سے آرہی ہے۔

میرے لیے اس عمارت میں مزید رہنا بہت ہی دشوار ہوگیا تھا۔ ہاتھ پاؤں ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ ٹانگیں لرزنا شروع ہوچکی تھیں، جسم بوجھل اور بھاری بھاری ہونے لگا تھا۔ شاید عدنان کا بھی یہی حال تھا۔ اس نے ایک بار کہا کہ اب چلتے ہیں، سب کچھ دیکھ لیا ہے۔ میرے منہ سے کچھ نہ نکلا اور ہم سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آگئے۔ اب کوئی کتا ہمیں نظر نہیں آرہا تھا جو اس سے پہلے جھرمٹ میں ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے۔

مرکزی دروازے کی طرف جاتے ہوئے عدنان میرے آگے چل رہا تھا اور میں اس کے پیچھے۔ ہر بڑھتے ہوئے قدم کے ساتھ چیخوں کی آوازیں تیز ہورہی تھیں اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ افراد کا ہجوم صحن میں کھڑا ہمیں جاتا ہوا دیکھ رہا ہے اور میرے کپڑے کھینچے جارہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذیشان یعقوب

ذیشان یعقوب

بلاگر نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے ابلاغِ عامّہ میں ماسٹرز کررہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے افسانے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں جبکہ آپ ذاتی بلاگ بھی چلاتے ہیں۔ عمومی معاشرتی مسائل کو جداگانہ انداز سے قارئین کے سامنے پیش کرنا آپ کو پسند ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔