وزیر اعظم کی اپیل پر لبیک کہیں!

عابد محمود عزام  جمعـء 14 ستمبر 2018

وزیر اعظم عمران خان نے پانی کی کمی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے تمام پاکستانیوں بالخصوص بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھاشا ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرانے کی اپیل کی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت 80 سے 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں، اگر یہ سب سوچ لیں کہ ان میں سے ہر پاکستانی ایک ہزار ڈالر ڈیمزکی تعمیر کے لیے پاکستان بھجوائے گا تو ہمیں کسی سے قرض نہیں مانگنا پڑے گا اور ہم پانچ سال میں ڈیم کی تعمیر مکمل کرلیں گے۔ وزیر اعظم اور چیف جسٹس نے قوم کے پیسے کی خود حفاظت کرنے کا عہد کیا ہے۔

وزیر اعظم نے 80 سے 90 لاکھ تارکین وطن سے جو اپیل کی ہے، ان کی نصف تعداد بھی مطلوبہ رقم عطیہ کر دے تو دو ڈیمز آسانی سے بن سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے قائم ڈیم فنڈ اور اس کے نتیجے میں بڑے آبی ذخائرکی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کے بجلی اور پانی کے مسائل حل ہوں گے، بلکہ اس کے پاکستانی معیشت پر دور رس اثرات بھی مرتب ہوں گے۔

جس طرح روپے کی قدر میں کمی کے باعث پاکستان پرآئی ایم ایف اورعالمی بینک کے قرضوں کا حجم بڑھ جاتا ہے، اسی طرح بیرون ملک سے ڈالر پاکستان آنے کی صورت میں روپے کی قدر بھی مستحکم ہوجائے گی اور قرضوں میں کمی بھی واقع ہوتی ہے۔ انتہائی خوش آیند بات ہے کہ ملک کے اندر اور باہر مقیم پاکستانیوں نے وزیراعظم کی اپیل کا پرجوش خیرمقدم کیا ہے اور ایک معقول رقم جمع ہونے کے امکانات روشن ہیں ۔

وزیر اعظم کی اس اپیل کو عوامی سطح پر سراہا جا رہا ہے اور اندرون و بیرون ملک پاکستانی بڑھ چڑھ کر ڈیم فنڈ جمع کروا رہے ہیں۔ کچھ مخالفین وزیراعظم کی جانب سے ڈیم کے لیے فنڈ مانگنے پر طنزکر رہے ہیں، حالانکہ انھیں علم ہونا چاہیے کہ اپنے ملک کے لیے اپنے عوام سے فنڈ مانگنا، دوسرے ملکوں سے قرضہ مانگنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ پانی کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور مستقبل میں دنیا میں پانی کے مسئلے پر جنگیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو ہر ایک پاکستانی کے حصے میں قابل استعمال پانی کی مقدار 5600کیوبک میٹر آئی اور اب ہر پاکستانی کے لیے صرف ایک ہزارکیوبک میٹر پانی بچا ہے اور 2025 تک یہ 8 سوکیوبک میٹر رہ جائے گا۔ پاکستانی حکومتوں نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے مجرمانہ چشم پوشی کی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کی رائے میں کسی ملک کے پاس کم از کم 120دن تک اپنی ضروریات کے لیے درکار پانی کا ذخیرہ ہونا ضروری ہے۔

بھارت کے پاس 190دن تک استعمال کے قابل پانی ذخیرہ رکھنے کی گنجائش موجود ہے، مگر پاکستان صرف 30 روزکے استعمال کا پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ پاکستانی معیشت کا ساٹھ فیصد حصہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں فصلوں کی کاشت متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف ہر سال بارش شدید ہونے پر کئی علاقے سیلاب میں گھر جاتے ہیں اور فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، لیکن ڈیمزکی کمی کی وجہ سے اضافی پانی کو ذخیرہ کرکے ہم ضرورت کے وقت استعمال نہیں کرسکتے۔

پانی کی کمی کے پیش نظر پاکستان کی حکومتوں کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے تھے، لیکن پاکستان کی سابقہ حکومتوں نے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنانے کی طرف عملی اقدام کے بجائے صرف نعرے لگائے ۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت نے آزادی کے بعد سو سے زائد ڈیم سمیت سیکڑوں بجلی پیدا کرنے والے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیرکرلیے، جب کہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں۔ تقریباً 14 ڈیم تو صرف پاکستان کے ملکیتی دریاؤں پر بنالیے ہیں، لیکن ہم سیاسی چپقلش اور حکومتوں کی نااہلی کے باعث اپنی ضرورت کے مطابق بھی ڈیم نہیں بنا سکے ہیں ۔

ایوب خان کے دور میں منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے جانے کے بعد پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کسی عملی اقدام کے مکمل فقدان کو مجرمانہ غفلت اور بدترین عاقبت نااندیشی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ۔کالا باغ ڈیم کی تمام تر افادیت کے باوجود ہماری سیاسی قیادت اس پر اختلافات میں الجھی رہیں اور اتفاق رائے کی کوئی ٹھوس اور سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔ تاہم کالا باغ ڈیم پر اختلافات کا خاتمہ محال تھا تو دوسرے ڈیموں پر توجہ دی جانی چاہیے تھی جن میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم نمایاں ہیں، لیکن گزشتہ حکومتوں میں اس سمت میں بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

پاکستان میں پانی اور بجلی کے بحران کی وجہ پچھلے 5 عشروں سے پانی کے وسائل کی خراب مینیجمنٹ ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کی نااہلی پبلک پالیسی اورگورننس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پرویز مشرف دور سے بھاشا ڈیم کا معاملہ لٹکا ہوا ہے، لیکن ابھی تک یہ ڈیم تعمیر نہ ہوسکا ۔ دیامر بھاشا ڈیم کا معاملہ پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کے دور میںایکنک سے بھاشا ڈیم کے لیے منظوری حاصل کی گئی۔

2011ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا اور ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو قرض کے لیے درخواست دی گئی، لیکن بھارت کی درخواست کی وجہ سے 2012 میں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے دی جانے والی رقم روک لی اور پاکستان سے کہا کہ بھارت لکھ کر دے دے کہ اسے اس منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم یہ رقم جاری کر دیں گے۔ سابق حکومت نے چین سے جب بھاشا ڈیم کو سی پیک منصوبوں کی فہرست میں شامل کرنے کی فرمائش کی تو چین نے کشمیر و گلگت بلتستان کی حیثیت کو بین الاقوامی طور پر متنازع کہہ کر فنڈز فراہم کرنے سے معذرت کر لی۔ ایسے میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ ڈیم ہم اپنی مدد آپ کے تحت بنائیں۔

دیامر بھاشا ڈیم منصوبے پر مجموعی لاگت کا تخمینہ14 ارب ڈالر ہے۔ ڈیم کا پانی آبپاشی اور پینے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ ڈیم کی بلندی 272 میٹر اور اس میں 81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی اور اس سے4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔

دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی زندگی 35 سال بڑھ جائے گی اور اس سے سیلاب کے خطرات سے بھی نمٹنے میں مدد ملے گی۔ دنیا میں سب سے ز یادہ بلندی پر بنائے جانے والے اس ڈیم کی عمر 100سال ہوگی۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے مشن کا بیڑا چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے چند ماہ قبل اٹھانے کا اعلان کیا تھا اور اب وزیراعظم عمران خان نے مثبت سوچ کے تحت ڈیمز کی تعمیر کے لیے بیرونی قرضوں پر تکیہ کرنے کے بجائے قوم سے فنڈز دینے کی اپیل کی ہے۔

موجودہ صورتحال میں حب الوطنی کا تو یہی تقاضا ہے کہ تمام پاکستانی قومی جذبے کے ساتھ ڈیمز کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اوورسیز پاکستانیوں ہی نہیں، ملک میں موجود عوام کو بھی سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر وزیراعظم عمران خان کی اپیل پر لبیک کہنا چاہیے اور قومی مفادات کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات پر بہرصورت ترجیح دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔