آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی اسٹوریج سے متعلق رپورٹ طلب

خصوصی رپورٹر  جمعـء 14 ستمبر 2018
پی ایس او کا خسارہ کم کرنے کیلیے وزارت پٹرولیم کو جامع لائحہ عمل طے کر نے کی ہدایت۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پی ایس او کا خسارہ کم کرنے کیلیے وزارت پٹرولیم کو جامع لائحہ عمل طے کر نے کی ہدایت۔ فوٹو: انٹرنیٹ

 اسلام آباد:  سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل نے وزارت پٹرولیم سے دو ماہ کے اندر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی اسٹوریج کی استعداد کار کے حوالے سے رپورٹ مانگ لی ہے جبکہ کمیٹی نے پی ایس او کا خسارہ کم کرنے کیلیے وزارت پٹرولیم کو جامع لائحہ عمل طے کر نے کی ہدایت کر دی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کا اجلاس گزشتہ روز چیئرمین سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدر تی وسائل غلام سرور خان، سینیٹر سردار محمد اعظم خان مو سی خیل، میر کبیر احمد محمد شاہی، عطاالرحمن، تاج محمد آفریدی، جہانزیب جمالد ینی ودیگر کے علا وہ سیکریٹری پٹرولیم اسد حیا الدین، چیئرمین اوگرا عظمی عادل، ایم ڈی پی ایس او دیگر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سوئی سدرن گیس کمپنی کے ایم ڈی کی جانب سے بتایا گیا کہ گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس پر ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے، وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔

ایم ڈی پی ایس او جہانگیر علی شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی طلب 5.1 فیصد بڑھی ہے، 22آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو لائسنس جا ری کیے گئے ہیں جس میں سے 17کمپنیاں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس اسٹوریج کی استعداد کار موجود نہیں ہے، پاکستان اسٹیٹ آئل کا 50 سے 60ہزارمیٹرک ٹن کا جہاز پورٹ قاسم پر آتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے چھوٹے جہاز ہیں جو 20سے 25ہزار میٹرک ٹن تک کی درآمد کر تے ہیں، اس وجہ سے پورٹ پر چھوٹے جہاز کھڑے ہوتے ہیں اور اسٹوریج کی استعداد کار نہ ہونے کے باعث وہ اپنا آئل ٹرانسفر نہیں کر پاتے جس کے باعث پی ایس او کو خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ایس او کے پاس اس وقت 1لاکھ میٹرک ٹن اسٹوریج کی استعداد کار ہے جبکہ ہم 2 لاکھ 70 ہزار میٹرک ٹن کی اضافی اسٹوریج بھی سسٹم میں شامل کرنے جا رہے ہیں تاہم دیگر نئی آنے والی کمپنیوں کی اسٹوریج کم ہے۔

جہانگیر علی شاہ نے کہاکہ یہ اگر جہاز پورٹ پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے تو خسارہ بڑھے گا، وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کوچاہیے کہ وہ اپنا انفرااسٹرکچر ڈیولپ کریں جس پر کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ ڈی جی آئل اور پی ایس او مل کر اس خسارے کو کم کرنے کیلیے دو ماہ کے اندر لائحہ عمل بنائیں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے اسٹوریج کی استعداد کار کے حوالے سے رپورٹ پیش کریں۔

اس موقع پر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ اوگرا کی پالیسیاں نان پروفیشنل لوگ بنا رہے ہیں جو کمپنیاں انہیں بیرون ملک کے ٹورز کراتی ہیں ان کو نوازا جاتا ہے جس پر چیئرمین اوگرا نے اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ ایسا نہیں ہے، آئل ٹینکرز کیلیے اسٹینڈرڈ این ایچ اے بناتا ہے۔ پی ایس او نے کہاکہ ہم نے آئل ٹینکر ز کیلیے کیو (لائن) کا سسٹم رکھا ہے ہم ریگولیٹڈ گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں جس پر کمیٹی نے کہاکہ آئل ٹینکرز ایسو سی ایشن کو کیو سسٹم پر سختی سے پابندی کرنی چاہیے۔

وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہاکہ ٹینکرز کو اپ گریڈ کرنے کیلیے 2سال کا وقت دیا گیا تھا، ایک سال کی مدت باقی رہتی ہے جو ڈیڈ لائن پوری ہونے تک اسٹینڈرز کے مطابق نہیں آئے گا اسے وہ آئل ٹینکر سسٹم میں نہیں رہے گا۔ بعدا زاں مو سی خیل میں ایل پی جی ایئر مکس پلانٹ کی تنصیب پر ایس ایس جی سی نے کہاکہ یہاں پر سرکاری زمین نہیں ہے جہاں پلانٹ لگائیں، دو ہفتوں میں سائٹ کو ری وزٹ کرینگے اور پرائیویٹ زمین کو ڈی سی کے ذریعے لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔