بیگم کلثوم نواز: ایک باوقار، بردبار اور ہنس مکھ شخصیت

احتشام بشیر  جمعـء 14 ستمبر 2018
نوازشریف کی بدقسمتی رہی کہ وہ اپنے والد کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے اور اہلیہ کے آخری ایام میں ان کی تیمارداری بھی نہ کرسکے۔ (فوٹو: فائل)

نوازشریف کی بدقسمتی رہی کہ وہ اپنے والد کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے اور اہلیہ کے آخری ایام میں ان کی تیمارداری بھی نہ کرسکے۔ (فوٹو: فائل)

مجھے وہ دن یاد ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں گرفتار کیا گیا تو بیگم کلثوم نواز نے ان کی گرفتاری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کچھ لیگی رہنماؤں سے رابطے کیے اور خیبرپختونخوا میں بھی پارٹی قائدین سے رابطے کرکے تحریک کے حوالے سے مشاورت کی۔ اس وقت پارٹی کے صدر پیر صابر شاہ نے انہیں پشاور کے دورے کی دعوت دی، بیگم کلثوم نواز کے دورے کے حوالے سے معلوم ہوا کہ وہ پشاور پہنچ رہی ہیں تو فوری طور پر اقبال ظفر جھگڑا سے رابطہ کرکے بیگم کلثوم نواز کے دورے سے متعلق معلومات حاصل کیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ کسی وقت بھی پشاور پہنچ سکتی ہیں۔ میں اس وقت پشاور کے ایک اخبار میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کررہا تھا۔ دسمبر کی سرد رات 9 بجے اقبال ظفر جھگڑا کے گھر جاکر بیٹھ گئے۔ قریب رات 12 بجے بیگم کلثوم نواز کی گاڑی جھگڑا ہاؤس میں داخل ہوئی تو ان کے ساتھ مریم نواز بھی گاڑی سے اتریں۔ بیگم کلثوم نواز سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔

اقبال ظفر جھگڑا نے بیگم کلثوم نواز سے میرا تعارف کرایا اور میں نے ان سے مختصر انٹرویو کی بات کی تو انہوں نے انکار نہیں کیا۔ ان سے پہلا سوال میرا یہی تھا کہ رات گئے اچانک پشاور آمد کی وجہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خاوند کی رہائی کی تحریک چلانے کےلیے پشاور آئی ہیں: ’’مجھے امید ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام اس تحریک میں میرا ساتھ دیں گے۔ ایک منتخب وزیراعظم کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف جھوٹے مقدمے چلائے جا رہے ہیں‘‘ اور یہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف بنائے گئے جھوٹے مقدمات کے خلاف عوام کے پاس جائیں۔ کلثوم نواز اپنے شوہر نواز شریف کی رہائی کےلیے چلائی جانے والی تحریک کے بارے میں خاصی پر امید نظر آرہی تھیں۔

اگلے روز کلثوم نواز نے پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور خیبرپختونخوا کی قیادت نے ان کی تحریک میں ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ بیگم کلثوم نواز کو پشاور میں جلسے کرنے کی دعوت بھی دی گئی۔

مدہم لہجے میں بات کرنے والی خاتون بیگم کلثوم نواز چونکہ سیاست زبان سے واقف نہیں تھیں تو انہوں نے سیدھے لفظوں میں سوالوں کے جوابات دیئے اور ان کا رویہ خالصتاً ایک گھریلو کا خاتون کا تھا؛ ایسے حالات بنے کہ وہ سیاسی میدان میں قدم رکھنے پر مجبور ہوئیں۔ اس مشکل دور میں کلثوم نواز نے اپنے خاوند میاں نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا اور پہلی مرتبہ وہ سیاسی میدان میں آئیں۔ انہوں نے خیبرپختونخوا سمیت پنجاب میں بھی اس تحریک کی قیادت کی۔ نواز شریف کی گرفتاری کے بعد عملاً بیگم کلثوم نواز نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ اس وقت کئی لیگی رہنما ن لیگ چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر رہے تھے لیکن کلثوم نواز نے ہمت نہیں ہاری اور تحریک کی قیادت جاری رکھی۔

کلثوم نواز بلاشبہ ایک بہادر خاتون تھیں۔ ان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی تھیں جو ایک خاتون میں گھر کے افراد کو یکجا کرنے کےلیے درکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش ایک عام خاتون بن کر کی۔ کلثوم نواز کے لب و لہجے سے کبھی یہ ظاہر نہیں ہوا کہ وہ ایک بڑے سیاستدان کی بیگم ہیں۔ وہ تین بار خاتون اول رہیں مگر ان میں غرور و تکبر نہیں دیکھا۔ ہمیشہ انہیں ہنس مکھ ہی دیکھا اور اپنی خوشی کا اظہار بھی وہ صرف اپنی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سے کرلیا کرتی تھیں۔

پاکستان میں دو خواتین ایسی گزری ہیں جنہوں نے فوجی حکمران کا مقابلہ کیا، ایک سابق وزیراعظم شہید بے نظیر بھٹو اور دوسری بیگم کلثوم نواز۔ بے نظیر بھٹو نے نہ صرف اپنے والد کو سزا کے بعد جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک چلائی بلکہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی تحریک کا حصہ بنیں۔ کلثوم نواز نے بھی جنرل پرویز مشرف کے فیصلوں کے خلاف تحریک کی قیادت کی اور اپنے خاوند کی رہائی تک نہ صرف تحریک چلائی بلکہ پارٹی کو بھی سنبھالا؛ اور جب نواز شریف کی سیاست میں دوبارہ واپسی ہوئی تو کلثوم نواز اپنی اسی گھریلو زندگی میں واپس آگئیں اور پھر ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان کے سیاسی معاملات یا پارٹی امور پر بیانات آئے ہوں۔

نواز شریف کی اس حوالے سے بدقسمتی رہی کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو وہ جلاوطن تھے اور اپنے ہی ملک میں آنے پر پابندی تھی جس کے باعث وہ اپنے والد کے جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔ اب ان کی بیوی جب بیماری کی حالت میں تھیں تو ان کی وہ تیمارداری بھی نہ کرسکے اور نہ ہی اس موقعے پر ان کی بیٹی مریم نواز ہی ان کے پاس موجود تھیں۔ میاں نواز شریف کو اپنے جیون ساتھی کے ساتھ زندگی آخری لمحات نہ گزارنے کا افسوس رہے گا اور بیٹی مریم نواز کو زندگی کے آخری روز اپنی والدہ کی خدمت نہ کرنے کا ملال رہے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔