گھوڑا شاید بول ہی پڑے

عبدالقادر حسن  جمعـء 31 مئ 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کسی حد تک میرے پڑوس میں شاہی آستانوں کی طرف جانے والے راستے بند ملے ہیں جب کہ میں نے ان راستوں پر ہجوم در ہجوم اور جوق در جوق سیاسی انسانوں کے قافلے رواں دیکھے تو جی للچایا کہ میں بھی اپنے لاکھوں قارئین کے ساتھ مسافروں کی اس صف میں شامل ہو جاؤں اور میاں صاحب سے سیاسی بیعت کر لوں لیکن میاں صاحب کے بے تاب پرستاروں نے مجھے یہ موقع ہی نہیں دیا اور میں بے پیرا ہی گھر میں بیٹھ گیا اگرچہ الیکشن ختم ہو چکے ہیں بساط لپیٹی جا چکی ہے ناکام ہونے والے سوگ کی کیفیت میں ہیں اور کامیاب امیدوں کی کسی نئی دنیا میں گم ہیں لیکن الیکشن کے بعد ہونے والے الیکشن اب شروع ہوئے ہیں۔

الیکشن میں کامیابی کا پھل کھانے والے بڑے لیڈروں کے ایوانوں کے آس پاس اور راہداریوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ مرادیں پانے میں اب چند دن باقی ہیں اس لیے اب ان لوگوں کو حالات کے سپرد کر دیں یا ان لیڈروں کے جو ان کی کوئی مراد پوری کر سکتے ہیں۔ میں تو اس وقت درد کمر میں مبتلا ہوں ٹھیک ہوں مگر ہل جل نہیں سکتا کھانسی تک پریشان کر دیتی ہے جو میری ان دنوں کی ایک بڑی عیاشی ہے اور شکر کرتا ہوں کہ اس ہجوم میں شامل نہ ہو سکا جو رائے ونڈ کے راستوں پر قابض تھا اور ان دیکھی نعمتوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایک بچہ جو میری کمر دبا رہا ہے معلوم ہوا وہ ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہا ہے اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا کہ آپ تو کسی چھوٹی سی اسمبلی کے ممبر بھی نہیں ہیں پھر رائے ونڈ کے راستوں کا کیا ذکر لیکن میں نے اسے ایک لطیفہ سنایا کہ اللہ کے کاموں کا کوئی پتہ نہیں ہوتا وہ کسی کو اور نہیں تو ضمنی انتخاب میں ہی سرخرو کر دے۔ اس لطف میں بھی امید و بیم کی یہی کیفیت ہے۔ ایک بادشاہ کو اپنے بھرے اصطبل میں ایک گھوڑا بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی فرصت پاتا، اس گھوڑے کو پیار کرتا رہتا۔

ایک دن جب وہ اس بے زبان سے پیار کی باتیں کر رہا تھا تو اسے خیال آیا کہ اگر یہ گھوڑا بولنے بھی لگ جائے تو کیا ہو چنانچہ اس نے اپنی سلطنت میں اعلان کرا دیا کہ جو کوئی اس گھوڑے کو بولنا سکھا دے گا اس کو پورا ایک گاؤں انعام میں ابھی دے دیا جائے گا، باقی انعام بعد میں لیکن ایسا نہ ہو سکا تو پھر اس کی سزا اسی گاؤں میں موت ہو گی۔ اس کام کا وقفہ چھ ماہ مقرر کیا گیا۔ ملک بھر میں منادی کی گئی، ڈر کے مارے کوئی سامنے نہ آیا بالآخر ایک شخص جو اپنی زندگی سے بیزار تھا آمادہ ہو گیا۔

اس کے دوستوں عزیزوں نے سمجھایا کہ کیا پاگل پن کر رہے ہو کبھی گھوڑے بھی بولے ہیں لیکن وہ اڑا رہا کہ آپ لوگ دیکھتے جائیں۔ اس نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ بادشاہ سلامت عمر کے آخری حصے میں ہیں اور سخت بیمار بھی ہیں مجھے امید نہیں کہ وہ پانچ چھ ماہ بھی گزار لیں۔ ان کے جانے کے بعد وعدے کے مطابق گاؤں تو مل ہی جائے گا۔ اگر بادشاہ بچ گیا تو اس کے دشمن اس کے زیادہ کمزور ہونے کی تاک میں ہیں اور کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتے ہیں چنانچہ میرا اندازہ ہے کہ وہ جلدی حملہ کر دیں گے اور بادشاہ اپنی حکومت اور ملک سے محروم ہو جائے گا۔ یہ سب سن کر اس کے دوستوں نے کہا کہ یہ تو سب تمہاری خوش فہمیاں ہیں اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ اس نے جواب دیا کہ شاید اللہ تعالیٰ میری فریاد سن لے اور گھوڑا بولنے لگ جائے۔

تو جناب کیا پتہ کہ میں بھی کسی موقع پر اسمبلی جانے کا حقدار بن جاؤں اور کوئی ایسا ان دیکھا واقعہ ہو جائے کہ میں اسمبلی کا ممبر بن جاؤں اور آپ دیکھیں گے کہ ایک بار میں اسمبلی میں گھس گیا تو کالم لکھ لکھ کر اپنے ساتھیوں کو پاگل کر دوں گا اور اپنے وزیر بلکہ وزیر اعظم تک کو بھی پریشان رکھوں گا۔ اس لیے جب میں نے دیکھا کہ جسے دیکھیں وہ رائے ونڈ کی سڑک پر ہاتھوں میں تسبیح لیے رواں دواں ہے تو مجھے بھی امید کی ایک نہیں کئی کرنیں دکھائی دینے لگیں اور وہ تمام دعائیں اور وظائف یاد آ گئے جو مایوسی کو امید میں بدل دیتے ہیں۔

چنانچہ میں نے بھی وہ سب کچھ کرنا شروع کر دیا جو یہ لوگ کر رہے تھے لیکن میں اس ہجوم کو عبور نہ کر سکا جو اس با برکت راستے پر رواں تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں کمر کے درد کے باوجود گھر میں بیٹھا کالم زہر مار کر رہا ہوں اور ان خبروں کو پڑھ رہا ہوں جو نئے حکمرانوں کے بارے میں بڑی بڑی سرخیوں میں دکھائی دے رہی ہیں۔ مجھے ان سب خبروں میں وزیر اعظم کے کسی نئے ٹھکانے والی خبر بہت پسند آئی ہے۔ سنا ہے کوئی موزوں بنگلہ حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد کی انتظامیہ فوری طور پر سرگرم ہو گئی ہے اس کا ایک آسان مطلب یہ ہے کہ نئے وزیر اعظم ہاؤس کی تلاش میں اچھا خاصا مال بن جائے گا۔ دوسرے سابقہ ایوان وزیر اعظم کو کسی اچھے مقصد کے لیے تیار کرنا ایک نہایت ہی مفید کام ہو گا شاید اتنا مفید کہ کوئی سابق وزیر اعظم بھی ٹینڈر بھر دے۔

قوم کو اب بجلی ملے نہ ملے ایک نیا وزیر اعظم ہاؤس ضرور ملنے والا ہے۔ ایسے وزیر اعظم ہاؤسوں کا ذکر ہماری تاریخ میں بھی ملتا ہے لیکن خطرہ ہے کہ میری طرح لوڈشیڈنگ سے تنگ آئے ہوئے پاکستانی آمادۂ فساد نہ ہو جائیں اور میری نیک نیتی کسی گناہ کا سبب نہ بن جائے۔ اس لیے فی الحال آپ ایک نیا وزیر اعظم ہاؤس بننے دیں۔ اس میں آپ کا کیا جاتا ہے کچھ جائے گا تو قومی خزانے کا اور اس قومی خزانے کا قوم سے کیا تعلق۔ یہ تعلق کبھی رہا ہے کہ اب پیدا ہو گا۔ درد کمر اب مزید لکھنے نہیں دے رہا اس لیے آپ کو اس کالم سے نجات کی خوش خبری۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔