پاک ترک تجارتی بلاک… وقت کی ضرورت

ایڈیٹوریل  اتوار 16 ستمبر 2018
تینوں ملک وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی منڈی سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ فوٹو: دفتر خارجہ

تینوں ملک وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی منڈی سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ فوٹو: دفتر خارجہ

پاکستان کے برادر اسلامی ملک ترکی کے وزیر خارجہ میلوت چاوش اوگلو نے پاکستان کے سرکاری دورے پر پہنچ کر تجارتی، اقتصادی ، سرمایہ کاری اور دفاعی تعلقات کو مزید فروغ دینے سمیت آزادانہ تجارتی معاہدے یعنی فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستانی نوجوانوں میں بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ان کی پیش کش تھی کہ پاکستان کے عوام خصوصاً متحرک نوجوانوں کے لیے بہت سے مواقع پیدا کرنے میں بھی معاونت کی جائے گی۔

گزشتہ روز دفتر خارجہ میں دونوں ملکوں کے مابین وفود کی سطح پر مذاکرات کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستانی وفد جب کہ ان کے ترک ہم منصب نے ترک وفد کی قیادت کی۔ دونوں فریقوں نے اسلاموفوبیا کا اجتماعی کوششوں سے مقابلہ کرنے کے عزم کا آعادہ کیا اور آزادانہ تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) پر پیشرفت پر تبادلہ خیال ہوا اور اسے جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بات چیت سے حل کرنے کا خواہاں ہے۔ انھوں نے کہا حکومتیں آتی رہتی ہیں تاہم اصل دوستی عوام کے درمیان ہوتی ہے اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستی قائم و دائم رہنی چاہیے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں ترکی اور پاکستان کے درمیان قریبی اسٹرٹیجک اور تجارتی تعلقات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ترک وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے تنازع کشمیر پر پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔ ترکی اور پاکستان کے درمیان تجارت کے بے شمار مواقع ہیں بلکہ وقت آ گیا ہے کہ ترکی، ایران اور پاکستان مشترکہ منڈی کی شکل اختیار کریں۔ ماضی میں اس سلسلے میں آر سی ڈی موجود تھی، اب اسے مزید فعال کیا جانا چاہیے۔

عالمی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ امریکا کی پالیسی میں ایران، ترکی اور پاکستان سابقہ حیثیت کھو چکے ہیں لہٰذا تینوں ملکوں کو متحد ہو کر ایک تجارتی بلاک کی شکل اختیار کر لینی چاہیے۔ اس طریقے سے وسط ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ تک سیاسی استحکام آ جائے گا اور تینوں ملک وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی منڈی سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔

آر سی ڈی ایک اہم پیش رفت تھی مگر ایران میں آنے والے انقلاب نے حالات کا رخ تبدیل کر دیا، تنظیم کا اصل مقصد بیچ میں ہی رہ گیابلکہ یہ غیر فعال ہوگئی۔ اب اسی سلسلے کو وہیںسے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ تینوں ملک ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے سفر کا آغاز کرسکیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔