سرکشی

عثمان دموہی  اتوار 16 ستمبر 2018
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

تقسیم ہند کے وقت چالاک کانگریسی رہنماؤں نے سکھ رہنماؤں کو اپنے مفاد میں خوب استعمال کیا۔ ان سے خالصتان کے قیام کا جھوٹا وعدہ کرکے اپنے ساتھ ملا لیا اور آدھا پنجاب ہتھیانے میں کامیاب ہوگئے پھر جب آزادی کے بعد سکھوں نے خالصتان کا وعدہ یاد دلایا تو مشرقی پنجاب کے دو ٹکڑے کر ڈالے تاکہ خالصتان کا قصہ ہی ختم کردیا جائے۔

آج ستر برس ہوچکے ہیں سکھ خالصتان سے محروم ہی نہیں ہیں بلکہ اب خالصتان کا اپنی زبان پر نام تک نہیں لاسکتے اور اگر خالصتان کا مطالبہ کرتے ہیں تو بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ تقسیم ہند سے اگر سب سے زیادہ کسی قوم کو نقصان پہنچا ہے تو وہ سکھ ہیں ۔ ہزاروں فسادات میں مارے گئے ، لاکھوں بے گھر ہوگئے اور پھر سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ وہ اپنے مقدس مقامات سے بھی محروم کردیے گئے ۔ ان کے متبرک مقامات پاکستان میں رہ گئے اور صرف امرتسرکا گولڈن ٹیمپل ہی ان کے ہاتھ آسکا۔

کاش کہ انھوں نے گاندھی اور نہروکا کہا ماننے کے بجائے قائد اعظم کا کہا مان لیا ہوتا تو نہ وہ اپنی سرزمین سے بے دخل ہوتے اور نہ ہی اپنے مقدس مقامات سے محروم ہوتے۔ ایک سچے رہنما کا وعدہ وفا ہوکر رہتا اور انھیں خالصتان مل جاتا۔ بہرحال بھارتی قائدین نے انھیں تباہ کر ڈالا اور وہ اپنے بھولے پن اور جذبات کی رو میں اپنے اچھے برے کی تمیز ہی نہ کرپائے۔ اب وہ ایک ایسی چانکیا صفت قوم کے چنگل میں پھنس چکے ہیں کہ جس کے شکنجے سے نکلنا یا آزادی حاصل کرنا آسان نظر نہیں آتا۔

بھارتی رہنماؤں نے کشمیریوں کو بھی آزادی دینے کا وعدہ کیا تھا پھرکیا ہوا؟ ستر برس سے کشمیری بھی بھارتی رہنماؤں کو ان کا وعدہ یاد دلا رہے ہیں مگر وہ وعدہ تو کیا پورا کرتے الٹا بڑی ڈھٹائی سے اب پورے جموں کشمیر کو ہی بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے لگے ہیں۔ اس وقت بھارت کی تقریباً دس ریاستوں میں آزادی کی تحاریک چل رہی ہیں وہاں کے عوام بھارتی سامراج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بھارت پہلے ہی حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، گوا، دمن، پونڈے چری اور چینی علاقے پر قبضہ کرچکا ہے۔ دراصل ہوس ملک گیری بھارتی سامراج کا من پسند مشغلہ ہے۔

بھارتی چنگل سے آزاد ہونے کے لیے سکھ 1980 کی دہائی میں ایک طاقتور تحریک چلا چکے ہیں۔ یہ تحریک اتنی طاقتور تھی کہ اس نے بھارتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پورے مشرقی پنجاب اور ہریانہ میں بھارتی عملداری مفلوج ہوکر رہ گئی تھی مگر افسوس کہ یہ تحریک بعض بھارت نواز سکھوں کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ تاہم بعض سکھ تنظیمیں اب بھی آزادی کی تحاریک چلا رہی ہیں۔

جرنیل سنگھ بھنڈرا والا کی تحریک آزادی بھی بھارتی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر ابھری تھی۔ اس سکھ جاں باز نے سکھوں کو ایک آزاد وطن دلانے کے لیے بھارتی فوج تک سے ٹکر لی تھی۔ پوری سکھ قوم اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی تھی مگر بھارتی حکومت گولڈن ٹیمپل میں مقیم بھنڈرا والا اور اس کے ساتھیوں کو مارنے کے لیے سکھوں کے اس مقدس مقام پر بھی حملہ کرنے سے نہیں ہچکچائی تھی۔ بھارتی فوج جو ٹینک اور توپ سے مسلح ہوکر آئی تھی گولڈن ٹیمپل کو تباہ کرکے بھنڈرا والا اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کر ڈالا تھا۔

یہ ایک قوم اور اس کے مذہب پر کھلا حملہ تھا۔ پھر دو غیرت مند سکھوں نے اندرا گاندھی کو اپنے مقدس مقام کو تباہ کرنے کا مزہ چکھا دیا تھا۔ اندرا کے قتل کے بعد پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا جس میں ہزاروں بے گناہ سکھوں کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل عام ایک ہفتے تک جاری رہا تھا۔ تب سے ہی بھارت اقلیتوں کی مقتل کے طور پر جانا جاتا ہے اور اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک قرار دیا جاتا ہے۔

اس وقت سکھ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان نے سکھوں کے تمام مذہبی مقامات کو نہایت احترام اور سلیقے سے رکھا ہے۔سکھوں کو پاکستانی سفارت خانہ ہمیشہ بڑی فراخ دلی سے ویزے جاری کرتا ہے مگر بھارتی حکومت سکھوں کو پاکستان کا سفر کرنے میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرتی رہتی ہے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ سکھ پاکستان جائیں۔ یہ بھارت کی سکھوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں سکھوں کا سب سے بڑا مقدس مقام گرونانک کی رہائش گاہ موجود ہے۔ یہاں گرونانک نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال گزارے تھے پھر یہیں پر ان کا وصال ہوا تھا یہیں پر ان کی سمادھی بھی موجود ہے۔ سکھ انھیں اپنے مذہب کا بانی مانتے ہیں اور یہ مقام ان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ مقام پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھارتی سرحد سے صرف تین کلو میٹرکی دوری پر واقع ہے۔

بھارتی سکھوں نے اس متبرک مقام کے درشن کے لیے بھارتی سرحد پر اس مقام کی بالکل سیدھ میں ایک کافی اونچی سیڑھی پر ایک طاقتور دور بین لگا رکھی ہے جس سے مرد خواتین اور بچے اس مقام کی ایک جھلک دیکھتے رہتے ہیں مگر جب آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں تو پھر انھیں کچھ نظر نہیں آتا جس سے وہ سخت مایوس ہوتے ہیں، چنانچہ سکھ رہنما بھارتی حکومتوں سے برسوں سے اس مقام تک بھارتی سرحد کھولنے کی درخواست کرتے رہے ہیں مگر بھارتی حکومتوں نے نام نہاد دہشت گردی کا بہانہ بناکر اپنی خار دار تاروں سے سیل کی ہوئی سرحد کو کھولنے سے احتراز کیا ہے۔

پاکستانی حکومت کو سکھوں کی تکلیف کا پورا پورا احساس ہے اس نے آج سے دس سال قبل بھی سکھوں کی اس مقدس زیارت گاہ تک آنے کے لیے بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے اپنا بارڈر کھولنے کی پیشکش کی تھی جس پر سکھوں نے بہت خوشیاں منائی تھیں مگر بھارتی حکومت کے انکار نے ان کی خوشیوں کو مایوسی میں بدل دیا تھا۔ اب نئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کے موقعے پر ایک معروف سکھ رہنما نجوت سنگھ سدھو تشریف لائے تھے۔ وہ اس وقت بھارتی پنجاب کی حکومت میں ایک وزیر بھی ہیں اور ماضی میں ایک مشہور کرکٹر بھی رہ چکے ہیں اسی وقت سے ان کی عمران خان سے گہری دوستی چل رہی ہے۔

اس موقعے پر پاکستانی فوج کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سدھو کو گرو نانک کی 550 ویں برسی کے موقعے پر گرونانک کی آخری آرام گاہ تک سکھوں کی آمد کو ممکن بنانے کے لیے پاکستانی سرحد کو کھولنے کی خوش خبری سنائی تو سدھو نہ صرف بے حد خوش ہوئے بلکہ فرط جذبات سے آرمی چیف سے بغل گیر بھی ہوگئے۔ ان کا آرمی چیف سے بغل گیر ہونا متعصب بھارتیوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انھوں نے سدھو کو غدار قرار دے کر ان کے خلاف مہم چلانا شروع کردی۔ بھارتی میڈیا تو پاکستان دشمنی میں ہمیشہ آگے آگے رہتا ہے اس نے تو آسمان ہی سر پر اٹھالیا۔

بھارتی میڈیا تو سدھو کے پاکستان جانے کے ہی خلاف تھا وہ اس سلسلے میں کافی پروپیگنڈا کرتا رہا تھا مگر کپل دیو اور گواسکر کی طرح وہ نہ بھارتی میڈیا سے متاثر ہوئے اور نہ ہی بی جے پی کے غنڈوں سے ڈرے اور پاکستان آکر انھوں نے خود کو ایک سچا اور بولڈ سکھ ثابت کردیا۔

اب سدھو چاہتے ہیں بھارت سرکار پاکستانی آرمی چیف اور وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش کو قبول کرکے خود بھی اپنا بارڈر کھولنے کا اعلان کرے تاکہ عام سکھ جو ستر برسوں سے اپنی اس متبرک ترین زیارت گاہ کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں ان کی خواہش پوری ہوسکے مگر لگتا ہے بھارت سرکار پھر دہشت گردی کا بہانہ بناکر سکھوں کے اس صائب مطالبے کو رد کردے گی کیونکہ اسے ڈر ہے کہ سکھ اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر کہیں پھر سے خالصتان کے قیام کے مطالبے کو شروع نہ کردیں مگر یہ انکار بھارتی حکومت کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے سکھوں کی مایوسی کہیں پھر سے 80 کی دہائی جیسی سرکشی میں نہ بدل جائے اور جس کو شاید اب دبانا بھارت کے بس میں نہ رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔