شرمناک

اکرام سہگل  اتوار 16 ستمبر 2018

اس میں حیرانی نہیں کہ مخالف بھوکے درندوں کی طرح جھپٹ پڑے ہیں ، حیرت تو اس بات پر ہے کہ عمران خان کے ساتھی مقابلے کے لیے پوری طرح تیار نہیں۔ شکست کھانے والوں نے واویلا تو بہت کیا کہ 25جولائی کے مبینہ طور پر غیر شفاف انتخابات کو عوام نے مسترد کردیا ہے، لیکن وہ اس عوام کو سڑکوں پر نہیں لاسکے۔

فضل الرحمن نے للکارا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے دیا جائے ، جو(ان کے بغیر) ہوگیا۔ دورُخی کا کمال دیکھیے کہ وہ اسی پلیٹ فارم سے صدر منتخب ہونے کی کوشش کرتے پائے گئے جس کی مذمت کرتے نہیں تھکتے تھے، کیا کہنے؟اسی طرح جب وزیر اعظم کے ہیلی کاپٹر کا معاملہ نہ چل سکا تو عثمان بزدار کی نامزدگی پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ مشکل سے حکومت نے 12دن پورے کیے ہوں گے کہ ناقص تیاری اور عملے کی نااہلی کی وجہ سے ’’ڈاکٹر عاطف میاں‘‘ والی مصیبت گلے پڑ گئی۔ اپوزیشن کے لیے تو بلّی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا۔

ملک پر تسلط جمانے کے خواب دیکھنے والے شدت پسند مذہبی عناصر افواج پاکستان کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں۔ اپنی پناہ گاہوں سے محروم ہونے کے بعد یہ شدت پسند انتخابات میں بھی بُری طرح ناکام ہوئے ، تاہم یہ متشدد عناصر بہت قلیل تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی قدرے ماڈرن مذہبی جماعت کو ملنے والے ووٹ بھی شامل کرلیے جائیں تو مجموعی طور پر مذہبی جماعتیں محض 12فی صد ووٹ ہی حاصل کرسکیں، لیکن ان کی مشکلات کھڑی کرنے کی صلاحیت کہیں زیادہ ہے۔ اسلام آباد جیسے شہروں میں اپنی اس صلاحیت کے بھرپور استعمال کرنے کے لیے یہ موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں اور مذہبی موضوعات میں قادیانی مسئلے سے بڑھ کر موقعہ کیا ہوگا۔

اقلیتوں سے امتیازی سلوک آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے عام طور پر شکایات خود ساختہ ہوتی ہیں اور ایسے مواقع عوام کو بھڑکانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ 3دسمبر 2015کو انہی صفحات میں لکھا تھا’’ 20نومبر کو جہلم میں سیکیورٹی افسر پر قرآن مجید کے صفحات نذر آتش کرنے کا الزام لگا کر نواحی دیہات کے مکینوں نے ایک فیکٹری پر حملہ کردیا۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے معاملے کی تحقیقات کے لیے صوبائی رکن اسمبلی کو بھیجا جن کے مطابق’’اگرچہ اس تنازعے کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، لیکن توہین کا الزام لگا کر فیکٹری پر دھاوا بول دیا گیا۔‘‘ڈاکٹر عاطف میاں کے معاملے میں حکومت نے اپنے لیے جو بحران پیدا کیا اور پھر پسپائی اختیار کرلی۔ اقتصادی مشاورتی کونسل سے علیحدہ ہونے والے دو دیگر ماہرین کی علیحدگی بھی اسی کا تسلسل تھا۔ اس معاملے نے بہت بدمزہ کیا اور مستقبل میں خصوصاً حساس مذہبی امور سے متعلق بلیک میلنگ کے دروازے کھول دیے۔

فرقے، برادری، رنگ ونسل ، مذہب وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک ناقابل قبول ہے۔ عمران خان کی ، چند ہفتوں قبل ہی بننے والی، حکومت ایسے تنازعات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جو فضا پیدا ہوچکی اس میں عملیت پسندانہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ عاطف میاں کی اہلیت اپنی جگہ، پاکستان کے کاز کی زیادہ خدمت یہ ہوتی کہ ڈاکٹر عاطف میاں کے معاملے کو ’’تنازعہ‘‘ کی شکل نہ دی جاتی۔ حکومت کی جانب سے افرادِ کار کے انتخاب کو باقاعدہ طریقہ کار وضع ہونا چاہیے اور عملی بنیادوں پر ان فیصلوں کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا چاہیے۔

مجھے 12دسمبر 1971کی رات یاد آتی ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل(بعد ازاں بریگیڈیئر) محمد تاج، جو 44پنجاب(جو اب 4سندھ ہوچکی) کے کمانڈنگ افسر تھے اور چھور میں سنوہی گاؤں کے قریب تعینات تھے۔ 33ڈویژن سے 60بریگیڈ کو رحیم یار خان سے چھور، عمر کوٹ سیکٹر روانہ کردیا گیا تھا کیوں کہ اس علاقے میں بھارتی دباؤ بڑھ رہا تھا اور 55بریگیڈ کے مقابلے میں بھارتیوں کو عددی برتری حاصل چکی تھی ، ساتھ ہی مسلسل فضائی حملوں کا بھی سامنا تھا۔ 44پنجاب کو دو کمپنیوں کی مدد سے حملہ کرکے 13دسمبر کے طلوع آفتاب سے قبل سنوہی گاؤں کی نگرانی کے لیے پہاڑی پر قبضہ جمانے کا مشن دیا گیا۔

اس فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیوں کہ بھارت کو چھور میں پیش قدمی اور نواحی علاقوں میں آگ برسانے سے روکنے کے لیے یہی ایک راستہ بچا تھا۔ اس مشن سے بازی پلٹ سکتی تھی، لیکن بھارت کی گرین بیلٹ تک رسائی روکنے کے لیے کرو یا مرو کی صورت حال درپیش تھی۔ مارچ 2013میں ’’دوبارہ مارچ کا خیال‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا ’’کیپٹن نصیر طارق اور سیکنڈ لیفٹیننٹ حنیف بٹ( جسے پیار سے ہم سنگاوالا کہتے تھے) بخوشی نامعلوم منزل کی جانب ہمارے ساتھ چلنے اور ملک کی خاطر لڑ کر جان دینے کے لیے آمادہ ہوگئے۔

یہ دونوں قادیانی تھے ، کچھ برسوں بعد یہ غیر معمولی سپاہی میجر کے عہدے پر پہنچ کر فوج چھوڑ گئے۔ مجھے فخر ہے کہ دھرتی کے یہ بیٹھے 42برس گزرنے کے بعد بھی میرے دوست ہیں، بھلے ان کا کریئر بہت مختصر تھا لیکن انھوں نے وردی سے وفا کی اور بے جگری سے ملک کا دفاع کیا۔ ’’ایمان کے محافظ‘‘ اس وقت کہاں تھے جب یہ دونوں جان ہتھیلی پر رکھے کھڑے تھے؟ اور میں ان بے غرض اور غیر معمولی سپاہیوں کو کیا جواب دوں؟ کہ آج ہم انھیں شہری ماننے کو بھی تیار نہیں؟

ڈاکٹر عاطف کا تنازعہ کھڑا ہوا تو حیدر مہدی نے اپنے بلاگ میں لکھا ’’ دائیں بازو کے دباؤ میں آنا پی ٹی آئی یا عمران کی ناکامی سے زیادہ فیصلہ سازی میں پیشہ ورانہ طرز عمل، واضح اہداف اور بے باکی کے فقدان کا اظہار ہے۔‘‘ ہمہ وقت معلومات حاصل کرکے پہلے فیصلوں کے لیے جامع طریقہ کار بنایا جائے جس میں فیصلہ کرنے سے قبل تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح نکسن نے کہا تھا’’فیصلے پر موت تک مباحثہ‘‘ کیا جائے، عمران خان کو درست و نادرست مشوروں میں تمیز کرنا ہوگی۔ وہ اپنے فیصلہ ساز حلقے میں نااہلی، بدعنوانی یا طرف داری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

حیدر مہدی نے لکھا کہ بھلے سے ابتدائی طور پر عمران خان کا ابتدائی فیصلے سے کوئی تعلق نہ بھی ہوتو، اپنی ٹیم کی ہر دانستہ و نادانستہ حماقت، ناکامی، غیر پیشہ ورانہ طرز عمل، نالائقی کا بوجھ انہی کو اٹھانا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں پاک فوج نے عظیم قربانیاں دے کر میدانِ جنگ میں مذہبی شدت پسندوں کے خلاف فتح حاصل کی اور عوام نے انھیں انتخابات میں مسترد کردیا، ہمیں عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں قدم جمانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔

قومی قیادت کو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے انھیں حوصلے کے ساتھ اس جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ ڈیوڈ سیبری نے کہا تھا’’عزم و حوصلہ ایسے دشمن کے خلاف طاقتور ترین ہتھیار ہوتے ہیں جو صرف زورِ بازو اور بندوق پر انحصار کیے بیٹھا ہو۔‘‘ کمزورں اور بے آسروں پر ہاتھ اٹھانا جانوروں اور بزدلوں کی نشانی ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔