ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

زاہدہ حنا  اتوار 16 ستمبر 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

شہید حسن ناصر اور ان کی والدہ بیگم علمبردار حسین کے خطوط کا میں نے گزشتہ کالم میں ذکرکیا تھا اور اس سیاہ تابوت کا بھی جو وہ حیدرآباد دکن سے ساتھ لائی تھیں کہ اس میں اپنے چہیتے بیٹے کا خستہ لاشہ لے کر واپس جائیں لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا ، قبرکشائی کے بعد جو لاش انھیں دکھائی گئی، اسے انھوں نے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکارکر دیا ۔

اس مرتبہ مجھے حسن ناصر کے حوالے سے ہی لکھنا تھا ، لیکن درمیان میں بیگم کلثوم نواز اس جہان سے رخصت ہوئیں ۔ ان کا جنم لاہور میں ہوا تھا اور بیماریوں سے ان کا خستہ بدن لاہورکی مٹی میں سلا دیا گیا ۔ میاں صاحب اور مریم خوش نصیب تھے کہ انھیں کلثوم کا آخری دیدار نصیب ہوا ۔ بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو ، اپنے شوہر اور باپ کے آخری دیدار سے بھی محروم رہیں اور یہ سب کچھ صوم وصلوۃ کے پابند اس شخص کے حکم پر ہوا جو خانۂ کعبہ کے سائے میں جھوٹی قسمیں کھاتا تھا ۔

ٹیلی وژن چینلوں اور اخباروں میں یہ بات بار بار کہی جارہی ہے کہ وہ تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول رہیں ۔ اس بات پر کم لوگوں کا اصرار ہے کہ وہ ایک ایسی شریف و نجیب خاتون تھیں جنھوں نے آمریت کے بدترین دنوں میں سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے اس وقت کے آمر مطلق کے خلاف کوئی گری ہوئی بات نہیں کہی اور میاں صاحب کے ان قریبی ساتھیوں پر بھی طنز کے تیر نہیں چلائے، جن پر غالب کا یہ شعر صادق آتا تھا کہ

ہیں کوا کب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

وہ 21 برس کی عمر تھیں ، جب میاں نواز شریف ان کے اسیر ہوئے اور پھرکبھی انھیں اس اسیری سے رہائی نہیں ملی ۔ کلثوم نے اپنی تعلیم شادی کے بعد مکمل کی۔ جاوید ہاشمی ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب یہ لوگ ساتھ پڑھتے تھے ۔ ایف سی کالج میں کلثوم کو ڈاکٹر آغا سہیل کی شاگردی میسر آئی ۔ کلثوم کو ابتداء سے شعر و شاعری اور ادب سے شغف تھا ۔ اس شیفتگی نے انھیں ایم اے کے دوران ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر آغا سہیل کی رہنمائی میں ایک ایسے موضوع پر کھوج لگانے اور قلم اٹھانے پر اُکسایا جس طرف کم توجہ دی جاتی ہے ۔ وہ اردو کی ایک بے مثال داستان ،فسانۂ عجائب ، پر لکھنے بیٹھیں اور تہذیبی حوالوں سے تعصبات کے کئی بتوں کو توڑ کر اُٹھیں ۔

کلثوم نواز ایک شگفتہ مزاج اور خلیق انسان تھیں ۔ آج شائستگی اور اقدار پرستی کو عیوب میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کے نزدیک ادب نوازی ، انسانیت دوستی اور تہذیب پروری کسی انسان کا بنیادی وصف تھی ۔ وہ صرف دو ڈھائی برس عملی سیاست میں رہیں اور اس مختصر مدت میں انھوں نے آمریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کا ایسا رنگ جمایا کہ لوگ ان کے فدائی ہوگئے ۔ گزشتہ چند دنوں میں ان کے احترام اور ان کی محبت میں عام لوگوں نے جس طرح آنسو بہائے، وہ آمریت کے خلاف ان کی استقامت اور مزاحمت کو خراج ہے ۔

ان سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ایک معزول اور معتوب قیدی کی شریک حیات تھیں ۔ سندھ ہائی کورٹ کی عمارت تھی ، انسداد دہشتگردی کی عدالت میں شریف برادران کے خلاف غداری کا مقدمہ چل رہا تھا ۔ وہ کراچی آئیں تو میاں صاحب کے بچپن کے دوست ماجد سلطان کے گھر ٹہریں ۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ماجد سلطان کے گھر ہوئیں ۔ ان پر سابق خاتون اول ہونے کا گمان نہیں گزرتا تھا اور یہی ان کی بڑی خوبی تھی ۔ ان ملاقاتوں میں ہم نے سیاست پر کم اور شعر و ادب پر زیادہ گفتگو کی ۔ میں نے انھیں رجب علی بیگ سرور کے تہذیبی شعور کوگہرائی میں جاکر مطالعہ کرنے پر داد دی تو ان کے چہرے پر حیا کا ایک رنگ آکر گزر گیا ۔ میں نے انھیں اس بات پر بھی داد دی کہ انھوں نے سرور کی ایک کم مشہور داستان ’’فسانۂ عبرت‘‘ کا بھی تفصیل سے ذکرکیا ہے ۔ اس پرکلثوم نے کہا کہ ڈاکٹر نیر مسعود کہتے تھے کہ معلوماتی نکتۂ نظر سے ’’فسانۂ عبرت‘‘ سرورکی سب سے زیادہ قابل قدرکتاب ہے اور اسی حوالے سے وہ سرورکو اردو زبان کا پہلا رپورتاژ نگار مانتے ہیں ۔

کلثوم کی کتاب کو پڑھ جائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں عوام اور ان کی زندگی سے کس قدر دلچسپی تھی ۔ وہ داستان کے مرکزی کرداروں شہزادہ جان عالم ، انجمن آراء اور مہر نگار کے ساتھ ہی لکھنو کے چڑی ماروں ، بھٹیارنوں اور خواجہ سراؤں کا ذکر بہت دردمندری سے کرتی ہیں ۔ انھیں ہندو مسلم اتحاد سے بھی دلچسپی تھی ، اسی لیے وہ فسانہ عجائب کے کردار کوہ مطلب برار کے جوگی کا تفصیل سے ذکرکرتی ہیں جو ہندو بھی ہے اور مسلمان بھی ۔ اور جو دونوں فرقوں میں مردود سمجھا جاتا ہے ۔

’’آگ کا دریا ‘‘ ان کا محبوب ناول تھا اور قرۃ العین حیدر کی تحریروں کی شیدائی تھیں۔ اس بارے میں وہ تفصیل سے باتیں کرتی رہیں ۔اسلام آباد اور لاہور کی ان محفلوں کا تذکرہ جب قرۃ العین حیدر وہاں آئیں اورکلثوم بھی ان میں سے چند محفلوں میں شریک ہوئیں ۔ 1998ء کی ایک ایسی ہی محفل میری نگاہوں میں گھوم جاتی ہے، جس میں مشاہد حسین سید ، دشکا مشاہد حسین اور حمیرا سید کے ساتھ قرۃ العین حیدر ہیں ۔ عینی آپا گہرے زرد رنگ کی ساڑی میں ہیں اور کلثو م ہلکے آسمانی رنگ کی شلوار قمیص میں ان سے محو گفتگو ہیں ۔ یہ لندن تھا جہاں ہم نے ’’گردش رنگ چمن ‘‘اور ’’کار جہاں دراز ہے‘‘کے بارے میں باتیں کیں ۔ قرۃ العین کی کہانیاں اور ان کے رپورتاژ ، حجاب امتیازعلی، الطاف فاطمہ اور نثار عزیز بٹ ۔ کلثوم سب کی تحریروں کو پڑھ چکی تھیں ۔ شاید یہی تحریریں تھیں جنھوں نے انھیں برصغیرکا ایک ایسا شہری بنادیا جو نفرتوں کے بجائے محبتوں کے رنگ میں رنگا ہوا تھا ۔

یہ وہی تھیں جنھوں نے ہانگ کانگ سے واپسی پر میاں صاحب سے چند گھنٹوں کے لیے رنگون رکنے کی فرمائش کی ۔ یہ فرمائش پاکستانی وزارت خارجہ کے افسروں کی سمجھ میں نہ آئی لیکن وہاں جاکر انھوں نے اس غریب الدیار کے مزار پر حاضری دی جسے ہم بہادر شاہ ظفر کے نام سے جانتے ہیں ۔ میاں صاحب اور کلثوم جب سرد آب میں پہنچے تو دونوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔ مہمانوں کی کتاب میں تاثرات لکھنے کا مرحلہ آیا توکلثوم کے اشارے پر میاں صاحب نے اسی غریب الدیار کا شعر لکھا :

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

اس وقت مجھے اکتوبر 2000ء کے وہ دن یاد آرہے ہیں جب وہ پاکستان میں مزاحمت کی ایک شاندار تاریخ رقم کررہی تھیں اور اٹک گئی ہوئی تھیں۔ وہاں انھوں نے صحافیوں سے ایک ایسی بات کہی جو سب ہی کو حیران کرگئی ۔ میاں صاحب 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرچکے تھے ۔ میں ان چند پاکستانیوں میں سے ایک تھی جو ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے سخت مخالف تھے۔ میرے لیے بھی کلثوم نواز کی یہ بات حیران کن تھی جب انھوں نے کہا کہ ایٹمی جنگ کی باتیں کرنے والے 1945ء میں ایٹمی حملوں کا شکار ہونے والے جاپانیوں سے پوچھیں اور اگر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہوں تو فلم Day After ضرور دیکھیں ۔ یہ فلم میری دیکھی ہوئی تھی ۔ کراچی میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کی ہمت کی داد دی ۔ وہ سابق وزیراعظم جو مبینہ دہشت گردی کا مقدمہ جھیل رہا تھا اور جس نے 2برس پہلے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنادیا تھا ، اس کی شریک حیات کا صحافیوں کو یہ مشورہ بھی شاید غداری کے ہی زمرے میں آتا تھا ۔

وہ چلی گئی ہیں اور ہم جیسے لوگوں کو ملول اور محزوں چھوڑ گئی ہیں۔ ان سے لوگ ہمیشہ پوچھتے رہے کہ آپ نے سیاست کیوں ترک کردی ۔ ہمارے یہاں آپ جیسے مزاحمتی لوگوں کی بہت ضرورت ہے لیکن وہ مسکر ا کر بات ٹالتی رہیں ۔ شاید ان کا فیصلہ درست تھا ۔ اب فاطمہ جناح ، رعنا لیاقت ، نسیم ولی خان ، نصرت بھٹو ، بینظیر بھٹو اور کلثوم نواز جیسے شریف اور انسان دوست لوگوں کی ضرورت نہیں رہی۔کلثوم بھلا کیسے ان بڑے بڑے رہنماؤں اور دانشوروں کی زبان کا مقابلہ کر سکتی تھیں جنھوں نے ان کی بیماری کو بھی سیاسی رنگ دیا اور بدکلامی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ وہ لوگ اب معذرت کر رہے ہیں جب انھیں کسی معذرت کی ضرورت نہیں رہی ۔ وہ اپنی متانت اور شرافت سے سب کو شکست دے گئیں ۔ ہم نے اور میاں صاحب نے ایک گوہر نایاب کھودیا ۔ میاں صاحب اب آپ کیا کریں گے ؟ وہ ساتھی کہاں سے لائیں گے جس نے آپ کے دل میں وہ گداز پیدا کردیا تھا کہ آپ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے ۔ اب کون آپ کو رنگون لے جائے گا اور میرؔ و غالبؔ کے اور میاں محمد بخش کے شعر سنائے گا؟ ایک آواز آپ سے چپکے چپکے کہتی رہے گی :

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ، اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔