آج نئے پارلیمانی سال کا آغاز مگر وی آئی پی کلچر برقرار

مظہر عباس  ہفتہ 1 جون 2013
بعض ارکان اسمبلی حکومت کویہ مشورہ دیں گے کہ ارکان اسمبلیوں اورسینیٹرزکیلیے کوئی الگ ڈیسک نہیں ہوگا فوٹو: فائل

بعض ارکان اسمبلی حکومت کویہ مشورہ دیں گے کہ ارکان اسمبلیوں اورسینیٹرزکیلیے کوئی الگ ڈیسک نہیں ہوگا فوٹو: فائل

کراچی: پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آج ایک تاریخی دن ہے جب ایک نئی پارلیمنٹ بغیرکسی رکاوٹ اور مداخلت کے نیا پارلیمانی سال کا آغازکر رہی ہے۔

لیکن لگتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود وی آئی پی کلچر برقرار رہے گا، نوکرشاہی جانتی ہے کہ پارلیمنٹیرینزاور حکومتی کارندوں کوکیسے خوش کیاجاتا ہے ، اس کی ایک جھلک اس وقت نظرآئی جب نئے اور پرانے ارکان قومی اسمبلی کولیکر پرواز پی کے308 بینظیرایئرپورٹ پراتری توانہیں وی آئی پی لائونج تک لانے کیلیے خصوصی بس طیارے کے پاس پہنچ گئی، ایک آدمی کتبہ اٹھائے کھڑا تھا جس پرلکھا تھا نئے منتخب ارکان قومی اسمبلی کوخوش آمدید جبکہ ایک پروٹوکول آفیسرارکان اسمبلی کاخیرمقدم کر رہا تھا،اس میں ارکان قومی اسمبلی کا توکوئی قصور نہیں البتہ یہ عمل ایسے وقت اچھا نہیں ہے جب ہم ایک نئے جمہوری دور میں داخل ہورہے ہیں۔

امید ہے کہ بعض ارکان اسمبلی حکومت کویہ مشورہ دیں گے کہ ارکان اسمبلیوں اورسینیٹرزکیلیے کوئی الگ ڈیسک نہیں ہوگاکیونکہ آخرکار وہ عوامی نمائندے ہیں، کراچی سے آنیوالے ارکان اسمبلی میں پیپلزپارٹی، متحدہ، فکنشنل لیگ اور ن لیگ کے ارکان شامل تھے، شاید اتنے زیادہ ارکان اسمبلی ہونے کی وجہ سے پرواز اپنے ٹھیک وقت 4 بجے بعد دوپہر اتر گئی، بعض معروف ارکان اسمبلی جن میں فریال تالپور، یوسف تالپور، گل محمد جکھرانی، شازیہ مری، ماروی میمن، ڈاکٹر فاروق ستار شامل تھے کا وی آئی پی لائونج میں دیگر اہلکاروں نے بھی خیرمقدم کیا ، بعض ارکان اپنے طورپر بعض ارکان سخت سیکیورٹی میں ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے، قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس کئی حوالوں سے تاریخی ہوگا ، یہ پہلی مرتبہ مسلسل چھٹا پالیمانی سال اور11 مئی کے الیکشن کے بعد پہلااجلاس ہوگا، ن لیگ کے نامزد وزیراعظم میاں محمد نوازشریف 12اکتوبر1999 کے بعد جب جنرل (ر) مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا تھا پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے۔

وہ 2008 میںقائم ہونیوالی اسمبلی کا حصہ نہیں تھے، انھوں نے اپوزیشن کی قیادت اسمبلی سے باہر بیٹھ کرکی اور اب وہ قائد ایوان کا کام وہیں سے سنبھالیں گے جہاں سے انھوں نے چھوڑا تھا، اگلے چند دنوں میں جمہوری عمل مکمل ہوجائے گا اور نواز شریف، صدر زرداری سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے، تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ صدر زرداری ستمبر میں اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے سے پہلے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں کہ نہیں؟ عام طور پر نیا پارلیمانی سال صدرکے خطاب سے شروع ہوتا ہے ، یہ سوال جب صدرکے ترجمان فرحت اللہ بابر کے سامنے رکھا گیا تو ان کاکہنا تھاکہ صدر5 مرتبہ پارلیمنٹ کو خطاب کرچکے ہیں، تاہم قانون دان سلمان راجاکاکہنا ہے کہ اگر صدر چاہیں تو خطاب کرسکتے ہیں، لیکن اس کا انحصار وزیرا عظم کی حلف برداری کے بعد نوازشریف اور صدر زرداری کی ملاقات پر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔