عوام دوست دانشور

مقتدا منصور  پير 17 ستمبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

حمزہ علوی پاکستان کے وہ نامور دانشور تھے، جنھوں نے ہر ایشو کا مطالعہ عملی طور پر مشاہدہ کرنے کے بعد کیا۔ اس طرح ان کے تجزیے اور جائزے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ چونکہ انھوں نے اپنے مطالعہ اور مشاہدے کو انگریزی زبان میں قلمبند کیا، اس لیے پاکستانیوں کی اکثریت ان کے نام اور کام سے واجبی سی واقفیت رکھتی ہے۔ ان کو عام پاکستانیوں میں متعارف کرانے کا بیڑا معروف ترقی پسند تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے اٹھایا۔ انھوں نے سہ ماہی تاریخ میں ان کے مقالہ جات کا ترجمہ شائع کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد معروف سماجی دانشور ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کو یہ ذمے داری سونپی کہ وہ پروفیسر حمزہ علوی مرحوم کے اہم مضامین کو اردو کے قالب میں ڈھالیں۔ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ، پروفیسر حمزہ علوی کے مضامین تلاش کرکے عرق ریزی کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے کے بعد شائع کروا رہے ہیں۔ یوں اس سلسلے کی اب تک پانچ کتب شائع ہوچکی ہیں۔

زیر نظر کتاب ’’پروفیسر حمزہ علوی۔ عوام دوست مارکسی دانشور‘‘ ایک طرح سے پروفیسر مرحوم کی مختصر سوانح ہے۔ جس میں ان کے خاندانی پس منظر، عملی زندگی کا آغاز، لندن میں سیاسی سرگرمیاں، درس وتدریس سے وابستگی، پاکستان واپسی، علمی اور تحقیقی کاوشیں، خلافت تحریک اور مذہب و سیاست کا امتزاج، تخلیق پاکستان کے اصل محرکات، پاک امریکا تعلقات، کسان اور بدلتی ہوئی زرعی معیشت، نسل پرستی، اسلام اور سیکولرازم کی بحث، پاکستانی عورت بدلتے سماج میں، نوآبادیاتی معاشرے اور ریاستی کنٹرول، پاکستان میں جمہوریت کا المیہ، مشرقی پاکستان کا بحران اور ہندوستان کا پیداواری نظام جیسے موضوعات کے ساتھ ان کا ایک انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے۔

حمزہ علوی قدیم کراچی کے ایک علم دوست بوہری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے پردادا کے قائم کردہ کراچی اکیڈمی اسکول سے میٹرک کیا۔ ڈی جے کالج سے انٹرمیڈیٹ، گوکھلے انسٹیٹیوٹ پونا سے گریجویشن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات میں اول پوزیشن حاصل کی۔ ریزرو بینک آف انڈیا سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان تک انھوں نے کوئی دس برس تک سرکاری نوکری کی۔ لیکن جلدی بددل ہوکر پہلے اپنی سسرال تنزانیہ اور پھر انگلینڈ منتقل ہوکر درس وتدریس اور تحقیق کو اپنی سرگرمیوں کا محور بنایا۔

حمزہ علوی پاکستان کے ان معدودے چند دانشوروں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے سیاست کا زمینی حقائق کی روشنی میں مطالعہ ومشاہدہ کیا اور عام لوگوں کے درمیان رہ کر ان کے مسائل و مصائب کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لینے کی کوشش کی۔ انھوں نے 1968ء سے 1969ء کے دوران ساہیوال (سابقہ منٹگمری) کے ایک دیہات میں کسانوں کے ساتھ ڈیڑھ برس کے قریب وقت گزارا۔ اس طرح انھیں کسانوں کو درپیش مسائل کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حمزہ علوی نے برصغیر کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی ماحول کا عام غریب آدمی کی نظر سے مطالعہ کیا اور ایک حقیقت پسند مارکسی دانشور کے طور پر اسے سینہ قرطاس پر رقم کیا۔

حمزہ علوی اپنے مقالے Ironies of History: Contradictions of Khilafat Movement میں لکھتے ہیں کہ خلافت تحریک دراصل اسلامی نظریہ سازوں اور جذباتی قوم پرستوں کی تحریک تھی، جس میں کمیونسٹوں اور کانگریس نے گھس کر عاقبت نااندیشی کا مظاہرہ کیا۔ جس کے نتیجے میں حقیقی سیکولر جمہوری تحریک کو نقصان پہنچا۔ کیونکہ اس تحریک کے نتیجے میں ان مذہبی عناصر کو دوبارہ سیاست میں فعال ہونے کا موقع مل گیا، جو 1857ء کے بعد کنارہ کش ہوچکے تھے۔ محمد علی جناح ترکی کے سیاسی وسماجی حالات کو بخوبی سمجھتے تھے، اس لیے وہ خود بھی اس تحریک سے دور رہے اور مسلم لیگ کو بھی دور رکھا۔

تخلیق پاکستان کے اصل محرکات کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ تحریک پاکستان کی بنیادیں مغلیہ دور کے تنخواہ دار (Salatiat) مسلمان طبقہ (جو اس وقت کی اشرافیہ تھا) کو درپیش شناخت کے بحران میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پاک امریکا تعلقات کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ عام طور پر تجزیہ نگار اس تعلق کو پاکستان کے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جب کہ اس کے دیگر عوامل بھی قابل غور ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کو برطانیہ کی تربیت یافتہ فوج تو ورثہ میں مل گئی، لیکن اس کے لیے اسلحہ اور دیگر ضروریات کا حصول مشکل ہورہا تھا۔ لہٰذا پاکستان کی دفاعی ضروریات اور سلامتی کے خوف نے اسے امریکا کا دست نگر بننے پر مجبور کیا۔ جب کہ امریکا سوویت یونین کو مشرق وسطیٰ سے دور رکھنے کی خواہش میں پاکستان کے قریب آیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں لسانیت کے بڑھتے ہوئے رجحان کا اسباب تنخواہ دار مڈل کلاس کے مفادات رہے ہیںِ۔ کیونکہ سرکاری ملازمتوں کی تفویض کے نظام میں میرٹ اور شفافیت کی عدم موجودگی کے باعث صوبائی اور لسانی منافرتوں میں اضافہ ہوا۔ دوسرے پنجاب سے تعلق رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کا بنگالی تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے ساتھ معاندانہ رویے نے قیام پاکستان کے چند برسوں کے اندر قومیتی تصور کو ابھارا اور لسانیت (Ethnicity) کو فروغ دیا۔ سندھ میں مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں اور مقامی سندھی آبادی کے درمیان آویزش کا سبب بھی سندھ کے وسائل پر پنجابی اشرافیہ کی مضبوط گرفت رہا ہے۔

حمزہ علوی کے مطابق سندھ میں لسانیت کا مسئلہ دو سطحی ہے۔ پہلی سطح پر صوبے کا مرکز کے ساتھ وسائل کی تقسیم اور کنٹرول کا جھگڑا ہے۔ دوسری سطح پر ابھرتی ہوئی سندھی مڈل کلاس کا ہجرت کرکے آنے والی مڈل کلاس کے ساتھ صوبہ کی سطح پر ملازمتوں اور دیگر سہولیات کی تقسیم پر ٹکراؤ ہے۔ اس ٹکراؤ کو پنجابی اشرافیہ ہوا دیتی ہے۔ کیونکہ اسے خوف ہے کہ کہیں یہ دونوں لسانی اکائیاں باہمی اتحاد کرکے مرکز سے اپنے جائز حقوق کی جدوجہد نہ شروع کردیں۔ اس ایشو پر پنجابی اشرافیہ (اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان، تاجر برادری اور ذرائع ابلاغ) یہ سمجھی ہے کہ سندھ میں لسانی مسئلے کو ہوا دے کر انھیں صوبے کے اندر متصادم رکھا جائے، تاکہ سندھ کے وسائل پر ان کے ناجائز کنٹرول کا سوال اٹھنے نہ پائے۔ ان کے علاوہ بدلتے سماج میں پاکستانی خواتین، پاکستان میں جمہوریت کا المیہ، نوآبادیاتی معاشرے میں ریاستی کنٹرول، مشرقی پاکستان کا بحران اور ہندوستان کا نظام پیداواری وغیرہ پر ان کا اپنا واضح اور مدلل موقف رہا ہے۔

ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے عرق ریزی کے ساتھ کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ حمزہ علوی کے مضامین کا ترجمہ کرکے ان پر مشتمل پانچ کتابیں مرتب کرچکے ہیں۔ ریاض احمد شیخ کی مادری زبان سندھی ہے۔ اس لیے کتاب میں زبان و بیان کی جو غلطیاں ہیں، وہ قابل نظر انداز ہیں۔ البتہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ کتاب کی اشاعت کا معیار انتہائی پست ہے۔ فکشن ہاؤس ایک بڑا پبلی کیشن ادارہ ہے، جو ڈاکٹر مبارک علی کی کتابوں کے علاوہ سہ ماہی تاریخ بھی شائع کرکے تقسیم کرتا ہے۔ اس مد میں انھیں ایک دھیلا بھی نہیں دیتا۔ مگر اس کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سے سہ ماہی تاریخ اور تاریخ سے متعلق کتابوں کی اشاعت میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ تاریخ کا شمارہ نمبر 59 اور زیر مطالعہ کتاب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جن میں کاغذ اور چھپائی کے علاوہ بائنڈنگ کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ پبلشر کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کتاب کی قیمت 5 صد روپے ہے، جو اس کی ضخامت اور پبلی کیشن کے معیار کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔