وزیر اعظم عمران خان پر چین کا اظہارِ اعتماد

تنویر قیصر شاہد  پير 17 ستمبر 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

26 جولائی 2018ء کی شام، جب کہ انتخابی نتائج میں پی ٹی آئی کی برتری ثابت ہو چکی تھی، جناب عمران خان میڈیا کے توسط سے پورے ملک سے مخاطب ہُوئے۔ کہنے کو تو یہ مختصر سی پریس ٹاک تھی لیکن معنوی طور پر نہائت پُر اثر، پُر مغز اور بلیغ۔ دیگر باتوں کے عمران خان نے چین کے حوالے سے کہا تھا: ’’ہم چین سے تعلقات مزید بہتر بنائیں گے۔

سی پیک کے منصوبے آگے بڑھیں گے۔ چین سے ہمیں یہ بھی سیکھنا ہے کہ اُس نے اپنے ہاں کروڑوں عوام کو غربت کے گڑھے سے کیسے نکالا؟ ‘‘ ۔ کپتان پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہیں جنھوں نے چین کو خیر سگالی اور محبت کا پیغام براہِ راست چینی زبان میں ارسال کیا ۔ 28 جولائی کو اُنہوں نے چینی زبان میں ٹائپ اپنے ٹویٹ میں چینی حکام کو جو پیغام بھیجا، یہ بھی دراصل اُن کے مذکورہ میڈیائی خطاب میں چین کے بارے کیے گئے شاندار ذکر سے ملتا جلتا تھا۔ اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کی طرف سے کپتان کی طرف سے چینی زبان میں لکھے گئے اِس ٹویٹ کا زبردست الفاظ میں خیر مقدم کیا گیا ۔ یہ بات بھی خوش آئند رہی کہ جونہی پاکستان میںپی ٹی آئی کامیاب ہُوئی، چینی حکومت کی طرف سے عمران خان کو تہنیتی پیغام آ گیا۔

8ستمبر کو چینی وزیر خارجہ، وانگ ژی، تین روزہ دَورے پر پاکستان تشریف لائے۔ چین نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہے گا۔26 جولائی2018ء کو چین کے سب سے بڑے اخبار’’گلوبل ٹائمز‘‘ میں چینی تجزیہ کار  Yu  Ningکالکھا گیا تفصیلی آرٹیکل۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے دَورِ حکومت میں پاک چین تعلقات مضبوطی میں ایک نیا منظر پیدا ہوگا، خصوصاً ’’سی پیک‘‘ تعاون میں مزید گہرائیاں آئیں گی۔ دوسرے روز یعنی 27 جولائی کو مذکورہ چینی اخبار نے پی ٹی آئی کی منتخب حکومت کے بارے اداریہ بھی شائع کیا جس میں ایک بار پھر ’’سی پیک‘‘ منصوبوں کے بارے میں مثبت توقعات کا اظہار کیا گیا۔ اور یہ بات خاص طور پر ادارئیے میں رقم کی گئی: ’’پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کے لیے مغربی میڈیا میں ہمیشہ منفی باتیں شائع کی جاتی ہیں۔ اُمید ہے کہ خان کی حکومت اِن پر کڑی نگاہ رکھے گی۔‘‘

سی پیک کی شکل میں چونکہ چین واضح طور پر پاکستان کے شعبہ توانائی (پاور سیکٹر) میں حصہ دار بن چکا ہے، اسلیے بھی چینیوں سے معاملہ کرتے ہُوئے عمران خان کو بڑی دانشمندی اور باریک بینی سے کام لینا ہو گا۔ ویسے تو پاک چین تعلقات پچھلے 48 برسوں سے بہتر سے بہترین ہوتے چلے آ رہے ہیں لیکن رواں لمحوں میں ان تعلقات کا نقش بہت گہراہو چکا ہے۔ پاکستان کو مالی بدحالیوں سے بھی چین بچا رہا ہے اور اسٹرٹیجک معاملات میں تو چین کی طرف سے ہمیں اساسی اعانتیں فراہم ہیں۔ اب تو راولپنڈی کی مجوزہ رِنگ روڈ (جو تقریباً 59 کلومیٹر طویل ہوگی) بھی چینیوں کے قرضے سے بننے والی ہے۔

مذکورہ رِنگ روڈ کی تعمیر پر 459 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔ اِن میں سے پنجاب حکومت صرف 57 ملین ڈالر فراہم کرے گی، جب کہ بقیہ (402 ملین ڈالر) چینی بینک (ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک) کی طرف سے دیے جارہے ہیں۔ یہ قرضہ رواں برس دسمبر میںمنظور ہو جائے گا۔یہی چینی بینک ’’کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ‘‘(KBRT)کے لیے بھی 100ملین ڈالرکا قرضہ فراہم کرنے والا ہے۔ جب ہم اپنی سڑکیں اور پُل بنانے کے لیے بھی چینیوں کی مالی دستگیری کے محتاج ہو چکے ہیں تو ایسے میں ہمارے وزیر اعظم پر لازم ہے کہ وہ سنبھل کر چینیوں سے مکالمہ کریں گے۔ اِسی میں وطنِ عزیز کی بہتری ہے اور اِسی اسلوب میں شائد کپتان صاحب چینیوں کا اعتبار اور اعتماد بھی حاصل کر سکیں۔

بہت سی عالمی قوتیں ایسی ہیں جن کی یہ شدید خواہش ہے کہ پاک چین تعلقات کو کسی طرح بلڈوز کیا جاسکے؛ چنانچہ عمران خان کو چینیوں سے مکالمہ کرتے ہُوئے ایک ایک قدم پھونک پھونک کررکھنا ہوگا۔ ’’سی پیک‘‘ نے تو پاک چین تعلقات کو بڑا ہی حساس بنا دیا ہے۔ تقریباً چار سال قبل جب عمران خان نے اسلام آباد میں نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنادیا تھا تو چینیوں کو رنج تھا کہ اُن کے صدر صاحب اسلام آباد کے دَورے پر آنے والے ہیں اور اسلام آباد عمرانی دھرنے کے شکنجے میں جکڑا پڑا تھا۔ یوں مجوزہ دَورہ کچھ دن مؤخر ہو گیا تھا۔ یہ پاکستان کے لیے بھی نامناسب تھا اور چین کے لیے بھی۔ بیجنگ میں عمران خان کے لیے کچھ اچھا تاثر نہیں اُبھرا تھا۔

اس سے پہلے خیبر پختونخوا کی صوبائی پی ٹی آئی حکومت نے ابتدا میں ’’سی پیک‘‘ کے منصوبوں کے بارے میں اپنے جن تحفظات کا اظہار کیا تھا، یہ بھی چینیوں کے دل میں گرہ ڈالنے کا باعث بن گیا تھا۔ اب مگر گرہ کشائی ہو چکی ہے۔ عمران خان نے اپنے رویوں میں خاصی تبدیلی پیدا کی ہے۔ ’’سی پیک‘‘ کے بارے اُن کے مسلسل مثبت بیانات نے چینیوں کا نیا اعتماد حاصل کیا ہے۔ ویسے چینیوں نے بھی دنیا میں ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ دنیا میں اگر اُن کی پالیسیوں کی مخالف کوئی سیاسی جماعت برسرِ اقتدار آ جاتی ہے تو وہ مشاقی سے اُن کے ساتھ بھی ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر: سری لنکا میں ’’یونائٹڈ نیشنل فرنٹ‘‘ نامی جماعت جب اقتدار میں نہیں آئی تھی، ہمیشہ سری لنکامیں  چین کے شروع کیے گئے کئی منصوبوں کے بارے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتی رہتی تھی۔

انتخابات کے بعد جونہی یہ جماعت سری لنکا کی حکمران بنی، پچھلے سارے گلے جاتے رہے اور چینیوں کے ساتھ نئے سرے سے اُن کی دوستی اور تعاون شروع ہو گیا(سری لنکا نے حال ہی میںاپنی ایک اہم بندرگاہ99سال کے لیے چینیوں کو لِیز پر دی ہے) بات بنیادی طور پر فریقین کے باہمی اعتماد کی ہے۔ اگر جناب کپتان اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہُوئے چینیوں کا مزید اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو اِس میں زیادہ فائدہ پاکستان ہی کا ہے۔ ماضی قریب میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ بعض ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی منفی سرگرمیوں کے سبب پاک چین تعلقات کو سخت دھچکا پہنچا تھا۔ 12اگست 2018ء کو بلوچستان(دالبندین)میں چینی انجینئروںکی بس پر دہشتگردوں کا حملہ تازہ سانحہ ہے۔ اگر ہم ممتاز امریکی دانشور اور محقق، اینڈریو اسمال، کی تہلکہ خیز تازہ کتاب The  China  Pakistan  Axis : Asia’s New  Geopolitics  کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز پاک چین تعلقات کو کتنا نقصان پہنچا چکے ہیں۔

’’ضربِ عضب‘‘ ملٹری آپریشن میں ان فسادیوں کا بھی تقریباً خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ چین نے بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہوگا۔ جناب عمران خان کو اگر چینیوں کا واقعی معنوں میں اعتماد حاصل کرنا ہے تو اُنہیں فسادی نان اسٹیٹ ایکٹرز پر بھی کڑی نگاہ رکھنا ہو گی۔ اگر ممکن ہو تو اُنہیں اینڈریو اسمال کی مذکورہ کتاب کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ 8ستمبر2018ء کو جب چینی وزیر خارجہ، وانگ ژی، نے پاکستان کا تین روزہ دَورہ کیا تو ہمارے وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور سپہ سالار نے بیک زبان اُنہیں یقین دلایا کہ پاکستان میں چینی کارکنوں کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔

خانصاحب حکومت کی یہ یقین دہانی 57ارب ڈالر کے ’’سی پیک‘‘ منصوبوں کے لیے بھی مفید ثات ہوگی اور ہماری نئی حکومت پر چین کا اعتبار بھی بڑھے گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی شکل میں چینی سرمایہ کاری کی بدولت پاکستان کی معاشی شرحِ نمو میں تقریباً دو فیصد اضافہ ہُوا ہے اور اب تک اِسی منصوبے کی بنیاد پر پاکستان میں 70ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہُوئی ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے بھی اپنے حالیہ دَورئہ پاکستان میں اِن حقائق کی تصدیق کی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر لازم ہے کہ وہ پاک چین تعلقات کو زک پہنچانے کی کوششیں کرنے والوں پر کڑی نگاہ رکھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔