پانی کی کمی۔۔۔۔ ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے!!

ایکسپریس فورم کوئٹہ میں ’’پانی کے مسائل‘‘ کے حوالے سے منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ

ایکسپریس فورم کوئٹہ میں ’’پانی کے مسائل‘‘ کے حوالے سے منعقدہ مذاکرہ کی رپورٹ

پانی کے بغیر انسانی زندگی ممکن نہیں ہے۔ کرہ ارض پر ریاستوں اورشہروں کا وجود پانی کے سبب ہی ممکن ہوا ہے۔ قدیم تہذیبیں جو پانی کے ذخائر کے پاس پروان چڑھتی رہیں، پانی کا رخ بدلنے یا خشک ہونے پر ویران ہوگئیں۔

آج سے 4 دہائیاں قبل پانی حاصل کرنے کے ذرائع بالکل مختلف تھے۔ اُس وقت چشمے اورکنوئیں استعمال کئے جاتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ذرائع ناپید ہوتے چلے گئے اوراب ان کی جگہ ٹیوب ویل نے لے لی ہے۔ پاکستان میں قدرتی آبی وسائل کی بہتات کے باوجود اس کے ذخائر میں دن بدن کمی آرہی ہے گویا ہم تیزی سے قلت آب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ’’پانی کے بحران‘‘ کے پیش نظر کوئٹہ میں ’’ایکسپریس فورم‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں حکومتی رہنماؤں، آبی ماہرین و سول سوسائٹی کو مدعو کیا گیا۔فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ملک نصیر احمد شاہوانی
(رکن صوبائی اسمبلی کوئٹہ)

کوئٹہ شہر میں پانی کی قلت شدید بحران کی صورت اختیار کرچکی ہے جس کے ذمہ دار 70 برسوں سے صوبے پر حکمرانی کرنے والے ہیں کیونکہ ان کی عدم سنجیدگی کے باعث ہم اپنی آئندہ نسلوں کا پانی بھی استعمال کرچکے ہیں۔ ماضی میں شہر کی آبادی کم تھی۔ ان ادوار میں بارشیں معمول سے زیادہ ہواکرتی تھیں شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتوں نے اس جانب توجہ دینے کی زحمت محسوس نہیں کی۔ کوئٹہ میں350کاریز تھیںمگر آج ان کے آثار نہیں ملتے ۔ ان کاریزوں سے پہاڑوں کے دامن میں موجود پانی کا رخ شہری آبادی کی جانب موڑاگیا اوراس پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے نہ صرف باغات کو سیراب کیاجاتا رہا بلکہ لوگ یہاں سے پینے کیلئے پانی لے کر جاتے تھے۔ انہی کاریزوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح برقرار رہتی تھی۔

2000ء میں آنے والی طویل خشک سالی کے دوران500سے زائد ٹیوب ویلز اور 70 لاکھ سے زائد پھل دار درخت خشک ہوئے جس سے زمینداروں کو66 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اندرون بلوچستان سے 45 فیصد لوگ نقل مکانی کرکے سندھ اورپنجاب کے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ خشک سالی کے باعث مال مویشی ہلاک ہونے سے گلہ بانی کے شعبہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ۔آڑنجی سمیت کئی اضلاع میں خشک سالی کی وجہ سے لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں جو افسوسناک ہے۔ خدشہ ہے کہ عوام کو دوبارہ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لہٰذا اس سے نمٹنے کیلئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔ حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق 50 ہزار افراد پر مشتمل شہر کی آبادی اب 25 لاکھ ہوچکی ہے جبکہ لٹل پیرس پر 20 لاکھ افغان مہاجرین کا اضافی بوجھ ہے جو مردم شماری کا حصہ نہیں بنے ۔

آبادی میں اضافہ کی وجہ سے جو پانی30 فٹ گہرائی سے نکالاجاتاتھا آج 1200 فٹ سے نکالاجارہاہے کیونکہ زمین کی تہہ خشک ہوچکی ہے۔2000ء کے دوران کوئٹہ میں 14 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرکے زیر زمین پائپ لائنیں بچھائی گئیں ۔ ان پائپ لائنوں میں کوہ چلتن کے دامن میں نصب کیے گئے ٹیوب ویلز سے نکلنے والے پانی کو کوئٹہ شہر کے نواحی اور دیہی علاقوں میں مقیم لوگوں کو فراہم کرناتھا۔ افسوس ہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کئے گئے ان منصوبوں پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود شہری آج بھی تشنہ لب ہیں۔چلتن کے دامن میں نصب ٹیوب ویلز خشک ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں کوئٹہ شہر کوکیرتھر اورپٹ فیڈر سے پانی فراہم کرنے کا منصوبہ زیر غور تھا جس پر کابینہ کے درجن بھر اجلاس بھی منعقد ہوئے اور اس ضمن میں عملدرآمد کرانے کیلئے باقاعدہ کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں۔ حکومت اورکمیٹیوں کی پھرتیاں اپنی جگہ مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سندھ حکومت بلوچستان کے حصے کا پانی دینے پر آمادہ نہیں۔

ہر سال خریف اور چاول کی کاشت کے موسم میں تنازعات سامنے آتے ہیں۔ ان کینالز سے متصل علاقوں میں لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔کچھی کینال سے5 لاکھ آبادی کو سیراب کرناتھا مگر اس منصوبہ کو بھی ادھورا چھوڑدیاگیا۔ڈیرہ بگٹی تک محدود کئے گئے اس نہری نظام سے اب صرف75 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہونے کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے۔ پنجاب کے جن علاقوں سے کینال گزررہی ہے وہاں بھی اس کے اطراف کی آبادی پانی چوری میں ملوث ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آئندہ چند برسوں میں ہونے والی قحط سالی سے نمٹنے کیلئے کیا منصوبہ بندی کرتی ہے۔ کوئٹہ سے پانی ختم ہونے کے قریب ہے۔ پانی کے بغیر انسانی بقاء کا تصور ہی ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کوئٹہ شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کیلئے تمام اضلاع میں عوام کو تمام تر بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرتے ہوئے لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کیے جائیں تاکہ انہیں کسی بھی وجہ سے کوئٹہ شہر کا رخ نہ کرناپڑے۔

جنگی بنیادوں پر کوئٹہ سمیت بلوچستان میں ڈیمز تعمیر کئے جائیں تاکہ ان ڈیمز میں بارشوں کے دوران ضائع ہونے والے پانی کی ہر بوند کو ذخیرہ کیاجاسکے۔ڈیمزکی تعمیر میں مقامی آبادی کو اعتماد میں لیاجائے اور ان کی تجویز کردہ جگہ پر ڈیمز تعمیر کئے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آبادی سیراب ہوسکے۔ صوبے میں ڈرپ ایری گیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرناچاہیے جہاں ایک ایکڑ میں70 درخت لگتے ہیں وہاں 1200 درخت لگائے گئے ہیں۔ حکومت ایسے پھل کو اگانے کے لئے زمینداروں کو مدد فراہم کرے اور انہیںترغیب دے جوکم پانی میں زیادہ پیداوار دیتے ہیں۔حکومت کوئٹہ میں پانی کے بحران کے خاتمے کیلئے اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے پانی کے کم از کم استعمال کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہے۔

سید علی عباس
(ماہر ارضیات)

پانی کی گرتی ہوئی سطح ماضی کی نسبت گزشتہ 2 برسوں میں کافی گھمبیر ہوگئی جس کی سب سے بڑی وجہ پانی کا غیر ضروری استعمال ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے پانی کا استعمال کافی بڑھ چکا ہے۔ 2000ء سے2001ء تک آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی پانی کی آہستہ آہستہ کمی نے ہر طبقے کو پریشان کرنا شروع کردیا۔

جیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ وفاقی سطح پر اس معاملے کے حوالے سے آن بورڈ رہا ہے مگر ماضی میں آنے والی حکومتوں میں کسی نے اس سنگین نوعیت کے مسئلے پر ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ ہمارے سروے کے مطابق2001ء سے2002ء تک 400 فٹ سے پانی کی سطح آہستہ آہستہ 1200 فٹ تک چلی گئی ہے جس کی بڑی وجہ پانی کی فراہمی اور اس کے استعمال بارے کوئی خاص پلاننگ کا نہ ہونا ہے۔ 2001ء کے سروے کے مطابق 1200فٹ تک نکالا جانے والا پانی کسی المیے سے کم نہیں۔ اس وقت کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ سطح مزید نیچے گرے گی لیکن اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں پانی کی سطح 1500 تک جاسکتی ہے ۔ پانی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکتا ہے۔

کوئٹہ میں پہاڑی مقامات سمیت نچلی سطح سے اوپری سطح پر پانی کے بہاؤ اور رگ ڈرلنگ سمیت غیر قانونی ٹیوب ویلوں کا استعمال سب سے بڑی وجہ ہے لہٰذا پانی کا ضیاع روکنا ضروری ہے۔ ہمیں متحد ہوکر پانی کی گرتی ہوئی سطح اور اس کے غیر ضروری استعمال کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔میں کوئٹہ میں پانی کی روز بروز گرتی ہوئی سطح کا کسی ایک کو ذمہ دار قرار نہیں دیتا کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہم میں احساس ذمہ داری کا نہ ہوناہے۔ اگر8 سے10 سالوں میں بھی یہی صورتحال رہی تو ہم ایک سنگین صورتحال سے دوچار ہوسکتے ہیں جس میں کوئٹہ میں خشک سالی سمیت لوگوں کی ہجرت بھی شامل ہوسکتی ہے۔ ہمیں اس بحرانی صورتحال میں نت نئے تجربات کے بجائے اجتماعی طور پر مل کر سوچنا ہوگا اور ماضی کی کوتاہیوں کو دور کرنا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب12 سو فٹ تک پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کیلئے ہر محکمہ کام کرے جس میں عوام کا بھی بڑا کردار ہے۔ بورنگ ٹیوب ویلوں کے غیر ضروری استعمال ترک کرنے سے ہی کسی حد تک پانی کی گرتی سطح کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ پہاڑی سلسلے میں جہاں جہاں فوسل واٹر ہے وہاں اس کا استعمال چل رہا ہے۔ کچلاک سے بائی پاس اور چلتن ایریاز سمیت اندرون شہر میں 60 کے قریب کنویں ہیں۔ جیالوجیکل سروے کے مطابق پہاڑوں کے دامن میں پانی موجود ہے۔ اس پر ری چارج کی ضرورت ہے اور وہاں طاقتور پمپ لگا کر پانی لایا جاسکتا ہے ۔ہر محکمے کے اعلیٰ افسران سمیت نچلی سطح کے ملازم کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے تاکہ اس بارے میں جو جو تجاویز سامنے آئیں گی اس پر عملدآمد کرکے اس پر توجہ دے کر اس کی کمی کو پورا کرنے میں کسی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک ڈرل ویری فکیشن پر نہیں جاسکے۔

جدید ٹیکنالوجی پہلے مہنگی ہے مگر دور جدید میں دیکھاگیا ہے کہ جہاں پر جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا گیا وہاں لوگوں کے مسائل حل ہوئے لہٰذا ہمیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پانی کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔پانی کی گرتی ہوئی سطح ہی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ بلوچستان ایک معدنی صوبہ ہے خصوصاً منرلز والے علاقے میں ہی انڈسٹریز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ چاغی معدنیات سے بھرا ہوا خطہ ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے اس علاقے کو منرل سٹی بنایا جائے۔ پانی کا غیر ضروری استعمال ، قلت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ معدنی دولت سے مالا مال اس صوبے کے بڑے شہر کوئٹہ میں آج بھی لوگ بالٹیاں اُٹھائے پانی کے حصول کیلئے ٹھوکریں کھارہے ہیں جبکہ دوسری طرف بغیر این او سی کے ٹیوب ویل لگ رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی حق تلفی ہورہی ہے لہٰذا ان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

اس کے لیے قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ پانی کی گرتی ہوئی سطح الارمنگ ہے۔ ڈریپ ویری فکیشن اور اوپر سے نچلی سطح پر پانی کے استعمال اور اس کے بہاؤ کی جانب توجہ دی جائے ورنہ4 سو فٹ تک ملنے والے پانی کی صورتحال کا اب 12 سو فٹ تک جانا قابل تشویش ہے۔ حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو اپنے گھر، دفتر وغیرہ میں پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو 8 سے10 سالوں میں صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔

یونس لہڑی
(ڈپٹی میئر کوئٹہ)

پانی کے حوالے سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اس وقت جو تھوڑا بہت پانی ہمیں مل رہا وہ زہر آلود ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو ہیپاٹائٹس و دیگر امراض لاحق ہورہے ہیں۔ پانی ایسی تہہ سے نکالا جارہا ہے جو1200 فٹ گہرائی میں ہے جس سے گندہ پانی نکل رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری ایمرجنسی نافذ کرے اور حکومتی سطح پر فلٹر لگائے جائیں تاکہ لوگوں کو صاف پانی فراہم کیا جاسکے۔ اگر حکومت نے بروقت نوٹس نہ لیا تو یہ زہریلا پانی لوگوں کو مزید نقصان پہنچائے گا۔ اگر پانی کیلئے موثر حکمت عملی مرتب نہ کی گئی تو آنے والے 5 برسوں میں پانی نایاب اور اس کی قیمت میں 10 گنا اضافہ ہو جائے گا۔

ایک وقت تھا کہ جب سپن کاریز سے6 لاکھ گیلن پانی ملتا تھا، پھر ڈیڑھ لاکھ اور بعدازاں 50 ہزار گیلن پر پہنچ گیا اور شہر میں پانی کی سپلائی بند ہوگئی کیونکہ کینٹ اتنا وسیع ہے کہ وہ پانی کینٹ کو بھی پورا کرنا مشکل ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے پینے کے پانی کیلئے کوئٹہ کو گریٹر واٹر سپلائی منصوبہ دیا مگر بدقسمتی سے وہ کرپشن کی نذر ہوگیا اور صرف چند ٹیوب ویل ہی لگائے گئے۔ کوہ مردار سے کوئٹہ کو 6 بڑے ٹیوب ویلوں سے سپلائی کی جار ہی تھی جس میں سے 2 ٹیوب ویل خشک ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں ایم پی ایز کے فنڈز، میٹروپولیٹن اور واسا کوئٹہ کی طرف سے کوئٹہ میں بعض ٹیوب ویل لگائے گئے مگر یہ سب ناکارہ ہیں اور زیادہ تر کا پانی آلودہ ہے جو قابل استعمال نہیں مگر عوام مجبوری میں استعمال کررہے ہیں۔

پانی کے بحران کی ایک بڑی وجہ واسا کا مفلوج ہونابھی ہے کیونکہ بجٹ میں اس کا کوئی فنکشن نہیں ہے۔ محکمہ واسا کو میٹروپولیٹن میں ضم کیا جائے جس کی نگرانی میئر، ڈپٹی میئر اور کونسلرز کریں۔ ضرورت کے مطابق علاقوں میں پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور غیر ضروری پانی کا استعمال روکا جائے۔ واسا کو ضم کرنے سے محکمے کے اندر موجود مافیا کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ پانی کے مسئلے حل کیلئے میری تجاویز ہیں کہ پانی کی ایمرجنسی نافذ کی جائے، پانی کے اخراج کو زمین میں ری چارج کیا جائے۔ میرے نزدیک ہر گھر میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے کنواں ہونا چاہیے جس میں استعمال کے بعد اضافی پانی ڈال دیا جائے۔ اس کے علاوہ پہاڑوں کے اطراف میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔

اس ضمن میں کم از کم ایک سے ڈیڑھ لاکھ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ بارشوں کے موسم میں کام آسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منگی ڈیم اور سبکزئی ڈیم پر بھی کام تیز کیا جائے۔ غیر قانونی بورنگ اور پانی کے کنٹینرز کے خلاف فی الفور کارروائی کی جائے، ضرورت کے مطابق لوگوں کو پانی دیا جائے اور اس کا بل وصول کیا جائے ۔اس وقت کوئٹہ تباہی کے دہانے ہے۔ ایک عالمی جیولوجیکل سروے کے مطابق ہر سال کوئٹہ کی زمین 5 انچ بیٹھ رہی ہے۔ اس بات کی تصدیق سریاب روڈ پر واقع مسلم ٹاؤن اور ریڈیو پاکستان کے قریب زمین بیٹھنے کے واقعے سے ہوسکتی ہے۔

لوگ غیر قانونی بورنگ کرکے زمین سے پانی نکال رہے ہیں خدشہ ہے کہ کوئٹہ زمین بوس ہی نہ ہوجائے۔ ہم وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا کوئٹہ پر خصوصی توجہ دیں خاص کر کلی عالمو، بروری، بلوچی اسٹریٹ ، میکانگی روڈ اوروحدت کالونی پر توجہ دی جائے کیونکہ یہاںپانی نہ ہونے کے برابر ہے۔پانی زندگی کیلئے انتہائی اہم ہے ، اس کی قلت سے نمٹنے کیلئے ہنگامی اقدامات کیے جائیں اورزیادہ سے زیادہ پانی کو ری سائیکل کیا جائے۔ کوئٹہ کے مختلف اطراف سے بورنگ کرکے پائپ کے ذریعے کوئٹہ شہر میں پانی پہنچایا جائے، اس سے کم از 15 برس گزر جائیں گے لیکن اگر ڈیم نہ بنے تو لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنا پڑے گی۔ٹینکر مافیا نے پہاڑوں کے اطراف میں غیر قانونی بورنگ کی ہے جو وہاں سے زہر آلود پانی نکال کر لوگوں کو بیچ رہے ہیں اس کے علاوہ ہر پلازے میں بورنگ کی جارہی ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔

محمد رمضان
(ڈائریکٹر واٹر سپلائی واسا)

کوئٹہ میں پانی کے شعبے میں10 محکمے کام کررہے ہیں جن میں واسا، پی ایچ ای، بی ڈی اے، ایری گیشن و دیگر شامل ہیں لیکن اس کے باوجود کوئٹہ میں پانی کی فراہمی کا بڑا مسئلہ موجود ہے جس کی سب سے بڑی وجہ محکموں کا آپس میں رابطہ نہ ہوناہے۔ شہر کے ٹیوب ویلوں سے پونے پانچ کروڑ گیلن پانی، این جی ڈی، این جی ایس اور پی ایچ ای لے رہا ہے، ہمیں ان سب کو ایک نقطے پر متحد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت شہر میں کل117 ٹیوب ویل ہیں جن میں سریاب پیکیج بھی شامل ہے۔

لوگ اپنے طور پر بھی ٹیوب ویل چلا رہے ہیں۔ گلی گلی، محلے محلے غیر قانونی ٹیوب ویل لگ رہے ہیں ۔ ہم نے کئی ٹیوب ویل بند بھی کروائے ہیں لیکن پھر کوئی سفارش آجاتی ہے ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں مجسٹریٹ و سکیورٹی عملہ دیا جائے تاکہ ہم ان ٹیوب ویلوں کے خلاف سخت کارروائی کرسکیں۔ گزشتہ برس ایک ارب 80 کروڑ روپے ملے جن میں سے 77 کروڑ روپے1900 ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں چلے گئے، 32 کروڑ روپے واپڈا کو ادا کردیئے گئے اور 117 ٹیوب ویل لگائے گئے۔ واسا کے ٹیوب ویل24 گھنٹے چلتے ہیں۔

ٹیوب ویلوں کی تنصیب کیلئے ڈسٹرکٹ واٹر کمیونٹی این او سی جاری کرتی ہے۔ ہم نے مجموعی طور پر 30 غیر قانونی ٹیوب ویل بند کیے اوراس حوالے سے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کا غلط استعمال ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پہلے کوئٹہ شہر کے دیال باغ کے ٹیوب ویل سے سریاب کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ ہمارے30 کے قریب ٹیوب ویل خشک ہوچکے ہیں جن کی مرمت اور اگلی جگہ تنصیب کیلئے فنڈز کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو اس کیلئے فنڈز فراہم کرنے چاہئیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے۔ پہلے مری آباد سے پانی آتا تھا ۔

پی اینڈ ڈی نے پائپ لائنیں بچھائیں، نیسپاک نے بھی اس حوالے سے کام کیا لیکن14 مقامات پر اسے کاشت کاری میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ واسا شہر کو 2.5 ملین گیلن جبکہ 0.5 ملین گیلن پانی پی ایچ ای دے رہا ہے۔ ہائی کورٹ، بلوچستان اسمبلی و دیگر سرکاری اداروں کے اپنے ٹیوب ویلز ہیں جن کے لیے پی ایچ ای نے مختلف مقامات پر ڈرلنگ کی ہے۔ شہر میں واسا کے87 ہزار کنکشن ہیں اور اکثریت آبادی بلوں کی ادائیگی کرتی ہے۔ مری آباد، سٹی اور پشتون آباد کے لوگ باقاعدگی کے ساتھ بل ادا کرتے ہیں۔ ہم77 کروڑ روپے سالانہ تنخواہیں دے رہے ہیں ، 32 کروڑ بجلی کی مد میں دے رہے ہیں جبکہ 8 کروڑ روپے بچتے ہیں۔ ہمارا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ4 سال سے کنٹینر میں کھڑا ہے، اسے فعال بنانے کی ضرورت ہے۔

فیصل بلوچ
(سول سوسائٹی)

کوئٹہ شہر کامجموعی جائزہ لیا جائے تو شہر کے تمام علاقوں میں پانی کی قلت ہے ۔ حیرت ہے کہ شہر میں واسا کے ٹیوب ویلوں میں پانی نہیں لیکن ٹینکر مافیا کے پاس پانی موجود ہے۔ شہر کے مرکزی علاقوں طوغی روڈ، مشن روڈ، لیاقت بازار، شارع اقبال، جان محمد روڈ، فقیر محمد روڈ، سرکی کلاں، سیٹلائٹ ٹاؤن، سرکی روڈ، گوالمنڈی چوک، پشتون آباد، نواحی علاقوں ، سریاب ، بروری، مری آباد ، خروٹ آباد ، نواں کلی میں کہیں بھی پانی نہیں ہے جبکہ شہری مہنگے داموں پانی کے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں مگر حکومت کو پانی کا بل بھی ادا کرتے ہیں۔

ٹینکر والوں کو پانی کیلئے دو دن قبل اطلاع دینی پڑتی ہے، اگر نمبر مل جائے تو شام کو باری آتی ہے جو ازیت ہے۔ سوال یہ ہے کہ عوام کا قصور کیا ہے؟ پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے شہر کی آبادی پر قابو پایا جائے، صوبے بھر سے کوئٹہ آکر رہائش اختیار کرنے والوں کو روکا جائے، غیر قانونی ٹیوب ویلوں کو بند کیا جائے اور واسا کے عملے کا رویہ درست کیا جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔