ان پڑھ اور میٹرک پاس نمائندوں سے قانون سازی کی امید؟

یوسف عجب بلوچ  منگل 18 ستمبر 2018
ملک کے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اندر ایسے 51 نمائندے موجود ہیں جو بمشکل میٹرک پاس ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ملک کے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اندر ایسے 51 نمائندے موجود ہیں جو بمشکل میٹرک پاس ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کون نہیں چاہتا کہ تبدیلی نئے پاکستان کا مقدر بنے، ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہو، بیروزگاری، دہشت گردی، انسانی حقوق کی پامالی اور مختلف اقوام کے ساتھ ناانصافی کا خاتمہ ہو۔ کون نہیں چاہے گا کہ نئی حکومت کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو اور لوگ ایک نئے پاکستان میں داخل ہوں۔ مگر نئے پاکستان کا خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ہونے والے قانون ساز تعلیمی، فکری، سیاسی، سماجی اور شعوری فکر سے آراستہ ہو۔

نئے پاکستان میں جہان کچھ حوصلہ افزا فیصلے سننے کو مل رہے ہیں وہاں چند فیصلوں اور تبدیلوں سے مایوسی بھی پھیلتی جارہی ہے؛ جن میں سے ایک فیصلہ سندھ کے نئے گورنر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے نامزد کردہ نئے گور نر کی تعلیمی قابلیت صرف انٹر پاس ہے، اور حیران کن بات یہ ہے کہ کسی صوبے کا گورنر صوبے کے اندر موجود تمام یونیورسٹیوں کا چانسلر ہوتا ہے اور اسے جامعات کے وائس چانسلر تعینات کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے جو کہ عموماً پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اور گورنر بطور چانسلر طلبا و طالبات کو ڈگریا ں بھی دیتا ہے جن میں اعلیٰ تعلیم کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں شامل ہیں۔ نامور ماہرین تعلیم اور عوام کی ایک بڑی تعداد اس فیصلے کے رد عمل میں مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ تعلیم کے ساتھ عجیب مذاق ہوگا جب ایک ایف اے پاس کسی یونیورسٹی کا چانسلر تعینات کرے گا۔

اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گورنر بلوچستان کے منصب کےلیے نامزد ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی بھی نیب زدہ نکلے ہیں۔ ڈاکٹر امیر محمد زئی کے خلاف نیب میں 2015 سے تحقیقات جاری ہیں اور ان پر کڈنی سینٹر کوئٹہ کےلیے مہنگے داموں آلات کی خریداری کا الزام ہے۔ ڈاکٹر امیر محمد جوگیزئی بلوچستان کے جوگیزئی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور بچوں کے معالج کی حیثیت سے چلڈرن اسپتال کوئٹہ کے چیف کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اب اگر نیب زدہ لوگ گورنر بن کر بلوچستان کے فیصلے کرینگے تو ملک کا سب سے غریب صوبہ کہ جو پہلے سے ہی کرپشن کی زد میں ہے، کس طرح کرپشن سے پاک ہوگا۔ کیونکہ نئے پاکستان کے بلوچستان اسمبلی میں تقریباً پرانے چہرے ہی ہیں جن سے کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ ان میں عموماً قانون سازی کم مگر چھوٹی چھوٹی چیزوں پر سیاست خوب جانتے ہیں۔

ملک کے قانون سازوں کے حوالے سے سب سے دلچسپ رپورٹ پاکستان میں انتخابی عمل، پارلیمانی اور سیاسی عمل پر نظر رکھنے والے ادارے فافن کی ہے جس نے الیکشن 2018 کے نتیجے میں بننے والے صوبائی اسمبلیوں میں موجود قانون سازوں اور عوامی نمائندوں کے بارے میں دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ مکمل تصدیقی عمل کے بعد جاری ہونے والے رپورٹ میں فافن نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اندر ایسے 51 نمائندے موجود ہیں جو بمشکل میٹرک پاس ہیں اور اس کے علاوہ 27 ارکان اسمبلی ایسے ہیں جن کی تعلیمی قابلیت میٹرک بھی نہیں ہے۔

پنجاب اسمبلی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 371 ارکان میں سے 25 میٹرک پاس اور 19 کی تعلیم میٹرک بھی نہیں ہے اور دو بلکل ان پڑھ ہیں۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان میں سے چار ارکان میٹرک پاس اور انڈر میٹرک اور بلکل ان پڑھ ہے۔ اسی طرح سندھ اسمبلی کے 168 ارکان میں سے 10 ارکان پاس، اور 5 کی تعلیم میٹرک بھی نہیں۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے 125 ارکان میں سے 12 صرف میٹرک پاس جبکہ دو ارکان اسمبلی اب تک میٹرک بھی نہیں ہیں۔ فافن کے رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 68 ارکان ایسے ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں سول اور کریمنل مقدمات چل رہے ہیں۔

ناخواندگی کا اثر اب ملکی قانوں ساز اداروں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ کیونکہ کئی سالوں کی کوششوں اور وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے کے باوجود پاکستان میں خواندگی کی شرح اب تک 59 فیصد ہی ہے۔ اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ بیس لاکھ بچے اب تک اسکول نہیں جا پا رہے ہیں۔ سنجیدگی کی بات یہ ہے کہ کیا ملک کے چاروں صوبائی اسمبلیوں کے میٹرک پاس 51 نمائندے اور دیگر 27 نمائندے جن میں کچھ ناخواندہ اور کچھ میٹرک پاس بھی نہیں ہیں سے کسی قانون اور خاص طور پر تعلیم کے حوالے سے کسی بہتر قانون لانے اور اس سے متعلق بل پر بحث کرنے کی امید کی جاسکتی ہے؟

گوکہ مایوسی کفر ہے، مگر ان حالات میں میٹرک پاس اور ان پڑھ قانون سازوں سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ قانوں سازی کےلیے اعلیٰ تعلیم سمیت لوگوں کے دکھ، درد، عوامی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل سے آگاہی اور ان کے حل سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ اس حد تک معلومات ہونی چاہیے کہ کسی بھی اسمبلی میں کسی بل یا قانون پیشں ہونے کی صورت میں اس کا مطالعہ اور اس پر بحث کی جاسکے۔ کیونکہ اگر قانون سازوں کی طرف سے کوئی قانون پاس ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات کئی نسلوں تک کےلیے ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یوسف عجب بلوچ

یوسف عجب بلوچ

یوسف عجب بلوچ ایوارڈ یافتہ صحافی اور تربیت کار ہیں۔ وہ 2017 میں آگہی ایوارڈ اور کمالِ صحافت کا اعزاز ’’لب آزاد‘‘ بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ آپ جامعہ بلوچستان میں ایم فل کے طالب علم ہیں جبکہ براہوی اور انگریزی میں تین کتابیں بھی تصنیف کرچکے ہیں۔ آپ آن لائن انگریزی روزنامہ ’’بلوچستان پوائنٹ‘‘ کے بانی بھی ہیں جس کا آغاز 2010 میں کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔