جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ... یہ بھی تو سوچیے!

خرم شہزاد  پير 17 ستمبر 2018
تخت لاہور سے نفرت کا پرچار کرنے والے یہ سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب کےلیے کچھ بھی نہیں کرتے۔ (فوٹو: فائل)

تخت لاہور سے نفرت کا پرچار کرنے والے یہ سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب کےلیے کچھ بھی نہیں کرتے۔ (فوٹو: فائل)

تحریک انصاف کے بہت سے انتخابی نعروں میں سے ایک نعرہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبے بنانے کا بھی شامل تھا اور اب عمران خان کے حلف اٹھانے کے بعد جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ بنانے کی آوازیں بہت زور و شور سے سنائی دی جانے لگی ہیں۔ ان آوازوں کو اگر بہت توجہ سے سنا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں بہت احساس محرومی ہے اور وہاں کے لوگ ترقی اور سہولیات سے ماورا کسی اور دیس میں بستے ہیں۔ اگر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو لوگوں کے مسائل حل ہوجائیں گے اور ان میں موجود احساس محرومی ختم ہو جائے گا، ان کی زندگیوں میں بہت سی آسانیاں آجائیں گی اور وہاں کے لوگ ترقی کے سفر میں پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح اپنا حصہ ڈال بھی سکیں گے اور وصول بھی کرسکیں گے۔

ذاتی رائے میں پاکستان میں مزید کسی بھی صوبے کی ضرورت کو میں محسوس نہیں کرتا، خصوصاً اُن وجوہ کی بناء پر جو آج کل بیان کی جا رہی ہیں۔ میری رائے کی مخالفت کرنے والے بھارت میں مزید صوبے بنانے اور صوبوں کی حد بندیوں میں تبدیلیوں کے بارے بتانے لگتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھارت کی بات کر رہے ہیں جہاں معاشرے میں لاکھ خرابیاں ہوں لیکن نئے صوبوں کے کمیشن کے سامنے احساس محرومی اور کمتری کے مارے صوبوں کی کوئی درخواست نہیں تھی، وہاں کسی غاصب اور ڈاکو صوبے کا بھی کوئی ذکر نہیں تھا۔ زبان اور قوم کی بنیاد پر بھی صوبوں کی تشکیل نو نہیں کی گئی تھی اور سیاسی یتیموں کےلیے دوبارہ سے سیاست کا دروازہ کھولنے کےلیے بھی صوبوں کو تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ وہاں پر تمام صوبے مکمل طور پر انتظامی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بنائے گئے اور تب سے اب تک ہمارا میڈیا ایسی کوئی بھی خبر چلانے میں ناکام رہا ہے جس میں کسی صوبے نے احساس کمتری اور بڑے صوبے کے وجود سے نفرت کی وجہ سے تقسیم کو ماننے سے انکار کیا ہو۔

اسمبلی میں کاغذ لہرا لہرا کر وسائل کی تقسیم پر سوال اٹھانے کا کوئی منظر بھارت دیس سے ہمارے ہر دم آزاد اور باخبر چینلز کی اسکرینوں کی زینت بھی نہیں بن سکا، اس لیے بھارت کے ساتھ صرف اس ایک بات کےلیے موازنہ کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہوگا۔ بھارت نے اپنی صوبوں کی ضرورت کو تقسیم کے فوراً بعد ہی محسوس کرلیا تھا اور اسی لیے وہاں فوراً کمیشن تشکیل دے دیا گیا جس کی حد بندیوں اور تبدیلیوں پر آج تک عمل درآمد ہورہا ہے۔

پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو نئے صوبوں کی ضرورت کےلیے دو طرح کی آوازیں اٹھائی جاتی ہیں: ایک آواز سیاست دانوں کی طرف سے ہوتی ہے اور دوسری آواز تھڑوں پر بیٹھے ہوئے سیاست کے سادے افلاطونوں لیکن گھروں میں بقراط بنے لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ آئیے دونوں آوازوں کا الگ الگ تجزیہ کرتے ہیں۔

انتخابات قریب آتے ہی سارے ملک میں نئے نئے آئیڈیاز جنم لینے لگتے ہیں۔ سیاست دانوں کے پاس کارکردگی کے نام پر دکھانے اور بتانے کےلیے کچھ نہیں ہوتا اس لیے وہ اگلے پانچ سال کےلیے کوئی پر کشش نعرہ اور وعدہ لے کے ساتھ عوام میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام، جو تھڑوں اور چوپالوں میں سقراط و بقراط بنے ہوتے ہیں، بے وقوفوں کی طرح ان وعدوں اور نعروں کے فریب میں آتے ہوئے پانچ سال کےلیے پھر انہی کو منتخب کرلیتے ہیں۔ پاکستان میں نئے صوبوں خاص کر پنجاب میں جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی بحث دو دہائیوں سے چل رہی ہے لیکن یہ ساری ہلچل صرف اور صرف الیکشن کا اعلان ہونے سے شروع ہو کر نتائج آنے تک ہی کیوں ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب کھوجنا کوئی ضروری نہیں سمجھتا۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ جنوبی پنجاب کے عام لوگوں کی طرح وہاں کے سیاست دان بھی اپنی کم تعلیم اور صرف خاندانی پس منظر کی وجہ سے آگے آجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس نہ کوئی ایجنڈا ہوتا ہے اور نہ ان کا وژن اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ یہ ملکی سیاست میں کسی طور حصہ لے سکیں۔

دو دہائیوں سے جنوبی پنجاب کا نام لے کر اور تخت لاہور سے نفرت کے نعرے لگاتے ہوئے یہ سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد نہ تو جنوبی پنجاب کےلیے کچھ کرتے ہیں نہ ہی ملکی سیاست میں ان کا کوئی حصہ ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو 80 فیصد سے زائد سیاست دان فصلی بٹیروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موجودہ الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب کے نام پر جو اتحاد قائم ہوا تھا اور سیاست دانوں نے بلند بانگ دعوے تھے، ان کی اکثریت آج پی ٹی آئی میں شامل ہوکر صوبائی اور قومی حکومت کا حصہ بن چکی ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت میں بھی یہی سب لوگ شامل تھے اور تب بھی ان لوگوں کا منشور جنوبی پنجاب ہی تھا۔ مسلم لیگ سے پہلے پی پی اور ق لیگ کی حکومتوں میں بھی یہی لوگ شامل تھے یعنی گزشتہ دو دہائیوں سے یہ لوگ الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب کے نام سے ایک پریشر گروپ بناتے ہیں، نئی متوقع حکومت کے ساتھ مل جاتے ہیں اور اسمبلی کا حصہ ہوکر حکومت سے سہولیات حاصل کرتے ہیں۔

یہ سبھی سیاست دان آزاد اور پارٹی ٹکٹ سے اسمبلی میں آتے ہیں اور مدت پوری ہوتے ہی دوبارہ جنوبی پنجاب کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسمبلی کا حصہ رہتے ہوئے ان کی کوئی کوشش اس امر کی گواہی نہیں دیتی کہ واقعی یہ جنوبی پنجاب کے حقوق کےلیے پریشان ہیں اور جنوبی پنجاب صوبے کےلیے ایک فیصد ہی کوشاں ہیں۔ یہ سادے اور کم پڑھے لکھے سیاست دان اتنے بھی سادے نہیں کہ اقتدار میں رہنے کا گر نہ جانتے ہوں، اسی لیے ہر الیکشن میں اپنے حلقے کے لوگوں میں تخت لاہور کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے جذباتی بلیک میلنگ سے یہ ووٹ حاصل کرتے ہیں۔

جنوبی پنجاب صوبے کا نعرہ لگانے والوں میں ایسے سیاست دان بھی شامل ہیں جن کی سیاست اب محدود ہو کر رہ گئی ہے اور انہیں کسی بڑی تبدیلی کی تلاش ہے جو ان کی سیاست کے مرتے وجود کو آکسیجن فراہم کر سکے۔ گیلانی خاندان اس کی ایک اہم مثال ہے کہ اس الیکشن میں گیلانی صاحب اپنے دو صاحبزادوں کے ساتھ ہار گئے اور صرف ایک بیٹا اسمبلی کا رکن بن سکا۔ جنوبی پنجاب کی بات کرنے والے یوسف رضا گیلانی کوایک مضبوط آواز قرار دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی گیلانی صاحب ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ان کے دور اقتدار میں جنوبی پنجاب کا کہیں ذکرنہیں تھا۔ اب گیلانی صاحب کی خواہش ہے کہ قومی اور صوبائی سیاست میں کیونکہ ان کی کوئی جگہ نہیں بن رہی تو نئے صوبے کے بننے سے ہی شاید وہ اور ان کا خاندان ایک بار پھر سیاست میں کوئی جگہ پانے میں کامیاب ہوسکیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاست دانوں کو دیکھتے ہوئے بھٹو صاحب کی یاد آ جاتی ہے جنہوں نے صرف اپنے اقتدار کےلیے شیخ مجیب کی اکثریت کو ماننے سے انکار کر دیا اور ملک ایک بحران سے دوچار ہو گیا۔ آج بھی جنوبی پنجاب کے نام سے ملک میں ایک ایسا ہی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کچھ لوگ پھر سے اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔

جنوبی پنجاب سے اٹھنے والی دوسری آواز وہاں کے عوام کی ہے۔ آپ لوگوں سے بات کریں تو وسائل کے نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے، سہولیات کا فقدان گنوایا جاتاہے اور ساتھ ہی تخت لاہور سے نفرت ان کے لہجوں میں صاف نظر آتی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ الگ صوبہ بننے سے ملنے والے فنڈز جنوبی پنجاب میں ہی استعمال ہوں گے اور خوشحالی آئے گی۔ ہمیں ہر کام کےلیے لاہور جانا پڑتا ہے، وہ سلسلہ بھی ختم ہوگا اور ہمارے سارے کام یہیں ہوں گے۔ بہت معذرت کے ساتھ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی یعنی دیہاڑی دار مزدور سے لے کر سبزی فروش تک، دکاندار سے لے کر نجی و سرکاری دفتر میں کام کرنے والے ملازم تک کا ایسا کون سا کام ہے جس کےلیے اسے لاہور کی طرف دیکھنا پڑتاہے؟ تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔

بالکل اسی طرح دوسرا سوال جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ کون سا طریقہ کار ہوگا جس کے بعد فنڈز لاہور میں نہیں لگیں گے بلکہ آپ کے علاقے میں لگیں گے، تب بھی عام آدمی آپ کا منہ دیکھنے لگ جاتا ہے۔

اگر پانچ وزیراعلیٰ اور ایک وزیراعظم اس علاقے سے منتخب ہونے کے بعد بھی اس علاقے کی حالت نہیں بدل سکے اور فنڈز یہاں استعمال نہیں ہوسکے تو اب ایسا کونسا معجزہ ہوجائے گا جس کے بعد فنڈز یہاں استعمال ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں ایک عام آدمی کے لہجے میں چھپی نفرت سامنے آجاتی ہے اور وہ اپنے سیاست دانوں کی معصومیت کی گواہی دیتے ہوئے بتانے لگتا ہے کہ ان لوگوں کو کام ہی نہیں کرنے دیا گیا، تخت لاہور نے ان کو فنڈز ہی جاری نہیں کیے اور ان کے ہاتھ باندھ کر رکھے تھے۔ یقیناً اس معصومیت پر قربان جانے کو دل کرتا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم ہی بے بس ہوں تو الگ صوبہ ملتے ہی یہ لوگ ٹارزن کیسے بن جائیں گے؟ جن قوتوں نے پہلے ہاتھ باندھ رکھے تھے کیا وہ اب بھی ان کے ہاتھ باندھنے کے قابل نہیں رہیں؟ تخت لاہور کے بعد جب تخت ملتان، جھنگ یا مظفر گڑھ قائم ہوگا تو پھر باقی صوبے کو اس نئے تخت کے تختہ کرنے کےلیے جدوجہد کیونکر نہیں کرنی پڑے گی جبکہ سیاست دان تو یہی ہوں گے؟

جنوبی پنجاب کےلیے سیاست دانوں کی طرف سے کیے جانے والے عملی اقدامات کی اگر کسی عام آدمی سے تفصیل مانگ لی جائے اور پوچھا جائے کہ جب تک الگ صوبہ نہیں ملتا تب تک اپنے لوگوں کی خوشحالی کےلیے سیاست دانوں نے کیا خدمات سرانجام دی ہیں تو اوپر دیئے جانے والے جواب کو دہرایا جاتا ہے کہ انہیں کچھ کرنے نہیں دیا گیا۔ ایسوں سے اگر کہا جائے کہ پچھلی دو دہائیوں سے پھر آپ لوگ انہی مخصوص سیاست دانوں ہی کو کیوں منتخب کرتے چلے آرہے ہو جنہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیا جاتا، آپ کسی اور کو منتخب کیوں نہیں کرتے، شاید وہ کچھ کرلے؟ اس سوال پر بھی ایک عام آدمی آپ کو تخت لاہور کا زرخرید سمجھنے لگ جاتا ہے۔

جنوبی پنجاب کے لوگوں سے نہایت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کی ساری باتیں وہ سیاسی بیانات ہیں جو سیاست دانوں نے آپ کو یاد کروائے ہوئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں کو اور سندھ میں رہنے والوں کو ان کے سیاست دانوں نے اپنی تقریروں سے یہ باور کروائے رکھا ہے کہ تخت لاہور اور اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہیں؛ اور ہمیں کچھ کرنے نہیں دیا جارہا۔ بالکل جیسے مذہبی جماعتوں کے رہنما یہ باور کرواتے ہیں کہ صرف اور صرف ہم اسلام کے ٹھیکیدار ہیں اور اگر ہمیں منتخب کرکے اسمبلی میں نہ بھیجا گیا تو اس ملک میں اسلام کو سخت خطرہ لاحق ہو جائے گا؛ اور یہ کہ دوسرے لوگ سڑکوں پر ننگے ناچ گانے تک کی اجازت دے دیں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے نفرت پھیلانے والے اور ہر وقت تقسیم کی خواہش رکھنے والوں سے ان کے پیروکار بھی یہ نہیں پوچھتے کہ آخر یہ اسٹیبلشمنٹ ہے کیا اور کیوں ہمارے خلاف ہے؟ مزید یہ کہ آپ ایسا کیا کرنا چاہتے تھے جو آپ کو کرنے نہیں دیا جا رہا؟ اور جو آپ کرنا چاہتے ہیں اس پر آپ کا ورک آؤٹ کیا ہے؟ کسی بھی مسئلے کے حل سے پہلے مسئلے کی اصل جڑ تک پہنچنا نہایت اہم ہے اور جنوبی پنجاب ہو، سندھ ہو یا بلوچستان، ہر خطے کے مسائل کی بنیادی وجہ وہاں کے سیاست دان ہیں جو خود ہر اسمبلی کا حصہ ہوتے ہیں اور عوام کو پانچ سال بعد آکر بتاتے ہیں کہ ہمیں اس عرصے میں کچھ کرنے نہیں دیا گیا۔ اس کی ایک عملی مثال اس طرح سے ہے کہ جس علاقے میں کالج بھی کوئی نہ ہو وہاں یہ سیاست دان آکر بتاتے ہیں کہ ہم یہاں یونیورسٹی بنادینا چاہتے تھے لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔

سامنے بیٹھے ہوئے لوگ فوراً اپنے اندر نفرت کو جگہ دے دیتے ہیں، بجائے یہ سوال کرنے کے کہ جناب یونیورسٹی کا مطلب ایک بلڈنگ کھڑی کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس یونیورسٹی کے ماتحت مخصوص تعداد میں کالجز کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جن کے طلبہ کو یونیورسٹی میں جانا ہوتا ہے۔ وہ کالجز کہاں ہیں؟ آپ خود تو قبیلے کی سرداری یا خانقاہ کی سجادہ نشینی کی وجہ سے آگے آ گئے ہیں لیکن یونیورسٹی میں ایک مخصوص قابلیت کی فیکلٹی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے لائیں گے؟ اور جناب یہ کہ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اساتذہ پانچ سات ہزار کی تنخواہ پر پڑھانے نہیں آتے، تو ان کی تنخواہوں اور باقی یونیورسٹی فنڈز کےلیے آپ کے پاس کیا ورک آؤٹ ہے؟ آپ نے اس کےلیے کس کس سے کیا کیا بات کی ہے؟ مجال ہے کہ تقریر سننے والا ایسا کوئی سوال سوچ لے اور پوچھ لے، وہ تو بس اپنے مسیحا کے بیان پر ایمان لے آتا ہے کہ تخت لاہور انہیں ان پڑھ رکھ کر ان پر اقتدار قائم رکھنا چاہتا ہے اور ان کے فنڈزسے لاہور کو پیرس بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ہمارے ہاں ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اگر آپ کسی سے مسائل پر بحث کرتے ہیں تو وہ آپ کو اپنا دشمن سمجھ لیتا ہے اور اس کی پہلی سوچ کے مطابق آپ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر اندھیروں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی مسئلے پر بحث اس لیے بھی ضروری ہوتی ہے کہ جس چیز کو آپ مسئلہ سمجھ رہے ہیں، شاید وہ اصل مسئلہ نہ ہو۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے الگ صوبے کی تحریک سے پہلے اپنے سیاست دانوں سے سوال کریں اور جواب مانگیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں اور آپ کے سامنے بے بسی کی تصویر بننے والوں سے اگر آپ نے نجات حاصل نہ کی تو نئے صوبے میں آپ آج سے زیادہ مسائل کا شکار ہوں گے کیونکہ آج تو نئے صوبے کی صورت ایک امید کی کرن قائم ہے لیکن تب یہ بھی نہیں رہے گی۔

اگر آپ نے اپنے آقاؤں سے سوال نہ کیے تو ہمیں آپ سے سوال کرتے ہوئے ایک ’’جواب دو تحریک‘‘ شروع کرنا پڑے گی کہ انہی سیاست دانوں اور انہی جھوٹے وعدوں کے ساتھ آپ کس مقصد کے حصول کےلیے کوشاں ہیں؟ اگر دس کروڑ آبادی کا صوبہ ایک وزیراعلیٰ نہیں چلا سکتا تو بائیس کروڑ آبادی کا ملک ایک وزیراعظم کیسے چلالیتا ہے؟

تخت لاہور کے بعد تخت ملتان قائم نہیں ہوگا، اس بات کی کیا ضمانت ہے؟ سوچیے اور خود سے سوال کیجیے، اس سے پہلے کہ آپ سے الگ صوبے کے مطالبے پر ہم جوابات کا مطالبہ کردیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔