’’دماغ خور‘‘ امیبا

محمد اختر  اتوار 2 جون 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے پیدا ہوتے ہی بیماریاں بھی پیدا ہوگئی تھیں۔

باالفاظ دیگر بیماریاں صدیوں سے انسانوں کے ساتھ چلی آرہی ہیں اور صدیوں سے موجود رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طورپر انسان اب جاکر کہیں ان کو دریافت کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔ ایڈز کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے صرف چند عشروں قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈینگی نے بھی طویل عرصہ بعد وبائی صورت میں مختلف علاقوں کو متاثر کیا ہے۔

تیزی سے ترقی کرتی اور بدلتی ہوئی دنیا میں روز نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں اور خلقت کو حیران کررہی ہیں۔ یہ چیزیں مثبت بھی ہیں اور منفی بھی، یعنی ان میں بعض خوشخبریاں ہیں اور بعض بری خبروں کی زمرے میں آتی ہیں۔ نئی، انوکھی اور ساتھ ہی مہلک بیماریوں کی خبریں ظاہر ہے کہ بری خبروں کے زمرے میں شامل ہوں گی۔اب ایک نئی بیماری کے نسل انسانیت پر حملہ آور ہونے کی خبریں دنیا بھر سے موصول ہورہی ہیں۔اس بیماری کے بارے میں بتانے کا مقصد آپ کو خوفزدہ کرنا نہیں بلکہ اس کا مقصد قارئین کی آگاہی میں اضافہ کرنا ہے۔آئیے آپ کو اس موذی بیماری کے بارے میں بتاتے ہیں:

یہ مہلک اور انوکھی بیماری ’’نائیجلیریا فولیری‘‘ ہے جو دماغ کو کھانے والے یک خلوی جاندار ’’امیبا‘‘ کی ایک قسم کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسے میڈیکل کی اصطلاح میںPAM کہا جاتا ہے ۔جن لوگوں نے میٹرک میں سائنس پڑھی ہے ، انہوں نے امیبا کے بارے میں یقینا ً پڑھا ہوگا۔یہ ایک یک خلوی یعنی ایک خلیے پر مشتمل جاندار ہے۔

پاکستان میں اب نہ صرف اس بیماری نے لوگوں کا شکار شروع کردیا ہے بلکہ اس کی خبریں بھی ذرائع ابلاغ میں آنے لگی ہیں۔ چند ہفتے پہلے کراچی میں ایک چودہ سالہ بچہ اس بیماری کا شکار ہوکر چل بسا ہے۔اس کے دماغ پر صرف ایک ہفتہ پہلے اس جان لیوا دماغ خور امیبا نے حملہ کیا تھا اور محض ایک ہفتے کے اندر اس کی موت واقع ہوگئی۔ سندھ میں صحت کے صوبائی حکام اور ہسپتال کی انتظامیہ نے بھی اس بیماری سے اس کی موت کی تصدیق کردی ہے۔اس طرح گذشتہ سے پیوستہ سال اس بیماری سے کراچی میں دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پام نامی یہ مہلک بیماری مرکزی اعصابی نظام اور دماغ دونوں کو نشانہ بناتی ہے۔اس کا موجب امیبا ناک کے راستے حملہ آور ہوتا ہے۔ابتدا میں امیبا کے حملے کے نتیجے میں ہیمرج جیسی علامات نمودار ہوتی ہیں اور سر کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ اس کے بعد امیبا ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز پر حملہ کرتا ہے اور وہاں سے آگے بڑھتے ہوئے دماغ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔یہ مہلک جاندار دماغ کے اہم خلیات کو کھانا شروع کردیتا ہے ۔ ان خلیات کو کھانے کے لیے اس امیبا کے خلیے کی سطح پر انوکھے قسم کے چوسنے والے آلے لگے ہوتے ہیں۔

اس کے بعد یہ باقاعدہ مرض بن جاتا ہے اور primary amoebic meningoencephalitis PAM کہلاتا ہے۔ پام ایک ایسی بیماری ہے جو مرکزی اعصابی نظام اور دماغ کو متاثر کرتی ہے۔یہ بیماری عام طور پر صحت مند بچوں اور نوعمر افراد کو نشانہ بناتی ہے۔

اس بیماری کی معلوم تاریخ کے مطابق 1909ء میں برطانیہ میں اس بیماری کا پہلا واقعہ سامنے آیا تھا۔ 1965 ء میں سب سے پہلے ڈاکٹر ایم فولر اور آر یف کارٹر نے اسے انسانی بیماری کے طورپر شناخت کیا تھا۔امیبو فلیجلیٹس نامی جاندار پر ان کی تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ کس طرح ایک خوردبینی جاندار آزادانہ طورپر ماحول اور انسان کے اندر زندہ رہ سکتا ہے۔1965 ء سے لے کر اب تک مختلف ملکوں میں اس بیماری کے 144 واقعات پیش آچکے ہیں۔1966 میںڈاکٹر فولر نے اس بیماری کے بارے میں مزید تفصیلات دریافت کیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا بنیادی سبب ’’امویبک مینن جیون سفالیٹیس‘‘ یا انگریزی میںamoebic meningoencephalitis (PAM) نامی یک خلوی جاندار ہے جسے حیاتیاتی زبان میں ’’امیبا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ خور جراثیم یا جاندار پہلے پانی میں داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد ناک کے نتھنے کے ذریعے دماغ پر حملہ کردیتا ہے۔یہ ایک قسم کی انفیکشن ہے اور یوں سمجھیں کہ امیبا دھیرے دھیرے دماغ کے خلیات کو کھانا شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ متاثرہ افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

کراچی میں دماغ خور امیبا کے حملے میں موت سے دوچار ہونے والے بچے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس کا باپ ایک پبلک سرونٹ ہے جو کورنگی ٹاؤن یونین کونسل سات میں بلال مسجد کے قریب کا رہنے والا ہے۔چودہ سالہ لڑکا ہسپتال لایا گیا تو وہ شدید بیمار تھا۔لیاقت نیشنل ہسپتال میں اس کے ٹیسٹ کیے گئے تو اس کے نتیجے میں تشخیص ہوئی کہ وہ نائیجلیریا فولیری کے حملے سے دوچار تھا۔سندھ کے صوبائی محکمہ کے حکام بالا نے بھی اس معاملے کی تصدیق کی ہے۔ان حکام نے تصدیق کی کہ اس سال کراچی میں اس بیماری کا یہ پہلا حملہ تھا اور بظاہر شہر کے کسی اور حصے میں ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔

لڑکے کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے 10 مئی کو ہسپتال داخل کرایا گیا لیکن وہ صرف ایک ہفتے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ طبی لٹریچر میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود اب تک صرف تین لوگ زندہ بچ پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر کسی پر اس بیماری کا حملہ ہو جائے تو موت یقینی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ جو افراد ایسے تالابوں یا سوئمنگ پولز میں نہاتے ہیں جن کو کلوری نیشن کے ذریعے صاف نہیں کیاگیا ہوتا، وہاں پر نہانے والوں کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کاخدشہ زیادہ ہوتا ہے۔تاہم حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کراچی میں دماغ خور امیبا کے حملے میں مرنے والے لڑکے کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ کبھی سوئمنگ پول میں نہیں نہایا تھا۔ محققین کا کہنا ہے کہ بیماری کا جرثومہ ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوکر اسے متاثر کرتا ہے۔

بیماری کیسے لاحق ہوتی ہے؟

’’نائیجلیریا فولیری‘‘ یا پام کی بیماری کس طرح لاحق ہوتی ہے ، اس بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی کے ذریعے جراثیم کے ایک صحت مند فرد کے جسم میں داخل ہونے کے تین سے سات دن بعد بیماری اسے اپنا نشانہ بنانے لگتی ہے اور بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں جن میں سردرد ، ہلکا بخار اور بعض واقعات میں حلق میں خراش اور ناک میں مواد بھر جانے کی صورت ہوتی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بیماری کراچی میں گذشتہ سال مئی میں وارد ہوئی تھی اور اس سے دس افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن اس وقت میڈیا میں اس کے بارے میں خبروں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔

اگرچہ سینئر ڈاکٹر تاحال اس مہلک امیبا کے پھیلنے کی وجوہات اور اسباب سے آگاہ نہیں تاہم صحت کے حکام نے تجویز دی ہے کہ فزیشن اور ڈاکٹر حضرات اس بارے میں بین الاقوامی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں اور اس تحقیق سے آگے بڑھ کر اسباب اور نتائج کا پتہ چلائیں۔ اسی طرح وہ کوئی متفقہ اور صائب رائے قائم کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں گذشتہ سال اس بیماری سے مرنے والے افراد کی عمریں 4سال سے 49سال تک تھیں۔

اس سال کراچی میں اس بیماری سے لڑکے کی ہلاکت کے بعد کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ایک بار بھر بعض اقدامات کا اعلان کیا جو گذشتہ سال کے اقدامات سے مختلف نہیں۔ گذشتہ سال اکتوبر کے بعد اس بیماری سے موت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایمرجنسی بنیادوں پر ایک مانیٹرنگ سیل تشکیل دے دیا ہے جو شہریوں کو پانی کی فراہمی کو مانیٹر کرے گا۔

کراچی واٹر بورڈ کے علاوہ صوبے کے دیگر پانچ اضلاع کے حکام کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں سے پانی کے نمونہ جات اکٹھے کریں ا ور اس بارے میں ذرائع ابلاغ کو روزانہ کی بنیادوں پر رپورٹیں جاری کریں۔بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں ایک ڈپٹی چیف انجینئر مانیٹرنگ سیل کے فوکل پرسن کا کردار اداکرے گا اور شہریوں کو مہیا کیے جانے والے پانی میں شامل کی جانے والی کلورین کی مقدار کی نگرانی کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہی وہ اقدامات ہیں جو واٹر بورڈ نے گذشتہ سال بھی کیے تھے۔

کراچی واٹر بورڈ اس بیماری کی ہلاکت خیزی سے شہریوں کو آگاہ کرنے کے لیے ایک آگاہی مہم چلارہا ہے جس میں انہیں بتایا جارہا ہے کہ وہ کس طرح اس مہلک بیماری کے امیبا سے اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں۔ واٹر بورڈ کے علاوہ اسی قسم کی ایک مہم بلدیہ کراچی کی جانب سے بھی چلائی جارہی ہے۔اس کے علاوہ بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر نے مختلف بلدیاتی محکموں کو کہا ہے کہ وہ جنگی بنیادوں پر صفائی کی مہم چلائیں تاکہ نایئجلیریا یا پام کے علاوہ ملیریا اور ڈینگی کے پھیلاؤ کو بھی روکا جائے ۔رپورٹ کے مطابق بیماری سے بچاؤ کے لیے شہر کی تنگ گلیوں اور خراب علاقوں میں دھونی کا چھڑکاؤ کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملیریا اور ڈینگی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گا۔

نائیجلیریا یا ورم دماغ
neagleria fowleri خوردبینی جراثیم ہے جو مذکورہ بیماری لاحق کرتا ہے۔یہ ایک مخصوص امیبا ہے جو گرمیوں میں جولائی سے ستمبر کے درمیان متحرک ہوتا ہے اور آلودہ پانی کے ذریعے ناک کے راستے انسانی دماغ میں داخل ہوتا ہے۔یہ براہ راست مرکزی اعصابی نظام اور پھر دماغ پر حملہ کرتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت کی وجہ بنتا ہے۔اس یک خلوی جاندار کو ’’دماغ خور امیبا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ عام طورپر بچوں اور نوجوان افراد کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ جراثیم متاثرہ فرد سے صحت مند افراد میں داخل نہیں ہوتا بلکہ آلودہ پانی کے ذریعے ہی اپنا شکار کرتا ہے۔

امیبا کہاں پلتا ہے؟
یہ مہلک امیبا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔یہ خاص طورپر صاف پانی بالخصوص گرم پانی کے چشموں اور سوئمنگ پولز میں پایا جاتا ہے جن کو کلورین سے صاف نہیں کیا گیا ہوتا۔اس کے علاوہ یہ تالابوں ، نہروں، جھیلوں اور گرم پانی کے ذخیروں میں بھی پلتاہے۔ یہ نمکین پانی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔

بیماری کی علامات
1 – بیماری کی ابتدائی علامات ویسی ہی ہوتی ہیں جو گردن توڑ بخار کی ہوتی ہیں۔
2 – متاثرہ فرد کے ذائقے اور سونگھنے کی حسیات متاثر ہوتی ہیں۔
3 – مریض کو بخار ، سردرد ، بھوک کی کمی ، متلی ، قے ، گردن میں اکڑاؤ اور کوما میں جانے کی شکایات ہوسکتی ہیں۔
4 – بالعموم ایک سے دس دن میں موت واقع ہوجاتی ہے ۔

تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

بیماری کی تشخیص کے لیے متاثرہ فرد کی ریڑھ کی ہڈی سے پانی لیا جاتا ہے اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ پی سی آر ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی اس کی تشخیص کی کوششیں جاری ہیں۔

احتیاطی تدابیر
1 -گھر ، مساجد اور دفاتر کی زیرزمین یا زمین کے اوپر موجود پانی کی ٹینکیاں صاف کرتے رہیں۔
– 2 زیراستعمال پانی کی مناسب کلوری نیشن کریں۔ سٹور شدہ پانی کی کلوری نیشن کی تجویز کردہ مقدار 2ppm سے 0.5ppm ہے۔ جبکہ سوئمنگ پولز کے پانی میں یہ مقدار 2.5ppm سے 3.5ppm ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ کلورین کے ساشے پر موجود ہدایات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
3 -کلورین سے محروم جھیلوں اور ندی نالوں کے پانی میں نہانے یا اس سے منہ دھونے سے گریز کیا جائے۔
4 – کلورین سے محروم پانی کے ذخائر جیسے سوئمنگ پولز ، جھیلوں ، چشموں اور دیگر ذخائر میں نہانے سے گریز کیا جائے۔ پائپ لائنز کے لیک ہونے سے جمع ہونے والے پانی میں بھی نہ نہایا جائے۔
5 -نہاتے ہوئے کوشش کریں کہ پانی ناک میں نہ جائے ، اس کے لیے ناک پر لگائے جانے والے کلپس اور دیگر آلات استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
6 – سوئمنگ پول یا جھیل میں نہاتے ہوئے سر کو باہر رکھیں۔
– 7 نہانے ، منہ دھونے یا وضو کے لیے ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی استعمال کریں۔
8 – علامات نمودار ہونے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
اس بیماری سے ہلاکتوں کے بعد کراچی کے بلدیاتی حکام نے پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ ساتھ ہی لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وضو ، غسل اور دیگر ضروریات کے لیے جراثیم کش پانی استعمال کیا جائے۔ کراچی واٹر بورڈ کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اس امیبا کا منبع تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔

امریکی مرکز انسداد امراض کی رپورٹ
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پانی میں اس مہلک امیبا کی موجودگی کے بارے میں پتہ چلانا عملی طور پر ناممکن ہے اور انسانوں کے اندر اس کی موجودگی کے بارے میں صرف ریڑھ کی ہڈی کا پانی لے کر ہی معلوم کیاجا سکتا ہے۔ادھر امریکی مرکز انسداد امراض (سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن ) کے مطابق امریکی ریاست لوزیانا میں گذشتہ سال اس امیبا کی وجہ سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی سائینس ناک کے راستوں کو نیٹی پوٹ سے صاف کیا تھا۔

یاد رہے کہ نیٹی پوٹ ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ناک کے ایک نتھنے میں نیم گرم پانی ڈال کر دوسرے سے نکالا جاتا ہے۔اس طرح تین مزید امریکی بھی اس امیبا کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے جب سوئمنگ کے دوران انہیں اس سے انفیکشن ہوئی تھی۔امریکہ کے علاوہ میکسیکو ، مشرقی یورپ کے بعض ملکوں اور بعض دیگر ایشیائی ملکوں میں بھی اس امیبا کے باعث انفیکشن کے واقعات پیش آچکے ہیں اور زیادہ تر افراد اس کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

امریکا میں اس بیماری سے ہلاک ہونے والے دو افراد میں ایک اکیاون سالہ عورت اور ایک اٹھائیس سالہ مرد تھا اور دونوں نے نیٹی پوٹ کے ذریعے اپنی ناک کے راستے کی صفائی کی تھی۔دونوں کا تعلق ریاست کے مختلف علاقوں سے تھا۔یاد رہے کہ ناک کے اندر بہت زیادہ فاضل مواد کو نکالنے کے لیے نیٹی پوٹ کے ذریعے صفائی کی جاتی ہے تاہم اگر پانی میں امیبا موجود ہو تو یہ فوری طورپر ناک کے ذریعے دماغ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

نیشنل سنٹر فار ایمرجنگ اینڈ زونوٹک انفیکشیس ڈیزیز کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر جوناتھن یوڈر کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا دونوں واقعات میں یہ مماثلت ہے کہ ان میں بیماری کاحملہ ٹیپ واٹر یعنی نلکے کے ذریعے سپلائی کیے گئے پانی سے ہوا۔

ڈاکٹر یوڈر اور رپورٹ کے دیگر مصنفین کے مطابق دماغ پر حملہ آور ہونے والا یہ مہلک امیبا گندے پانی کے بجائے گھروں کے باورچی خانوں ، شاور ، باتھ ٹب ، باتھ روم سنک اور گھروں کے دیگر حصوں کے صاف پانی میں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانی کو پیے جانے کی صورت میں بھی یہ امیبا حملہ آور نہیں ہوتا بلکہ اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب پانی ناک میں داخل ہو یا جلد کے کسی ایسے حصے پر گرے جو کٹی یا پھٹی ہوئی ہو۔

ادارے نے لوگوں پرزور دیا کہ وہ منہ دھوتے ہوئے یا ناک کی صفائی کرتے ہوئے پانی کو ابال کر استعمال کریں یا ایسا پانی لیں جسے کلورین سے مناسب طریقے کے ساتھ صاف کیا گیا ہو۔سنٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس امیبا سے نئی قسم کی انفیکشن کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں2002-2011ء تک اس انفیکشن کے بتیس واقعات سامنے آچکے ہیںجن میں لوزیانا میں ہلاک ہونے والے دو افراد بھی شامل ہیں۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ انفیکشن کے بعد بیماری کی ابتدائی علامات پانچ دن بعد سامنے آتی ہیں لیکن اس میں سات دن بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کی علامات میں سردرد ، بخار ، متلی اور قے شامل ہے۔اس کے بعد جب امیبا دماغ کے ٹشوز میں داخل ہوتا ہے تو متاثرہ افراد جسمانی و دماغی توازن کھونے لگتے ہیں۔ خفتان اور جھٹکے لگتے ہیں اور نناوے فیصد واقعات میں موت واقع ہوجاتی ہے۔سی ڈی سی کے مطابق اس بیماری میں جان بچنے کا تناسب 123میں سے ایک ہے۔

مختلف ملکوں میں اموات کے واقعات
اب تک دنیا کے مختلف ملکوں میں دماغ خور امیبا کی انفیکشن کے نتیجے میں اموات کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ان میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جو کئی عشروں قبل ہوئے جب ابھی اس امیبا کے بارے میں زیادہ معلومات بھی موجود نہ تھیں۔آئیے ذیل میں آپ کو ان کے بارے میں مزید بتاتے ہیں۔

چیکو سلواکیہ
1962ء اور 1965ء کے درمیان چیکوسلواکیہ کے شہر اسٹیناڈلابم میں دماغ خور امیبا کی وجہ سے سولہ افراد کی ہلاکت ہوئی تھی ۔ ان افراد کے بارے میں تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ تمام لوگ ایک انڈور سوئمنگ پول میں نہا چکے تھے۔

نیوزی لینڈ
1968 اور 1978 کے درمیان نیوزی لینڈ کے ویکاٹو نامی خطے کے قصبوں ٹاپو اور ماٹاماٹا کے درمیان علاقے میں یہ بیماری پھیلی تھی۔ اس کے نتیجے میں آٹھ افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ان افراد کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ یہ اس علاقے میں جیوتھرمل پانی میں نہائے تھے۔

پاکستان
پاکستان کے بارے میں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے ، اس امیبا سے موت کا تازہ ترین واقعہ کراچی میں ہوا۔ وکی پیڈیا کی رپورٹ کے مطابق مرنے والا ایک چودہ سالہ لڑکا عدیل ہے جسے 10 مئی کو کراچی کے نیشنل ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اس لڑکے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بیس روز قبل ایک جھیل کے کنارے پکنک مناکر آیا تھا۔

اس سے پہلے پندرہ اکتوبر2010 کو غلام مصطفی خالد نامی ایک 54سالہ شخص کو کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا جس میں گردن توڑ بخار کی عمومی علامات تھیں۔جلد ہی اس بات کی تشخیص ہوگئی کہ وہ دماغ خور امیبا کی انفیکشن کا شکار ہوا تھا۔اس کے بعد اسے ایمفوٹیریسن بی نامی دوا بذریعہ آئی وی اور بذریعہ ریڑھ کی ہڈی دی گئی۔تاہم دوا کا کوئی اثر نہ ہوا۔اس طرح Cranial decompression (کھوپڑی پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ) سے بھی کوئی افاقہ نہ ہوا۔22 اکتوبر کو مریض کی موت واقع ہوگئی۔

مریض کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ بالکل صحت مند تھا اور کبھی نہر یا تالاب میں نہیں نہایا تھا۔تاہم اس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ وضو کرتے وقت ناک کو بہت اندر تک دھوتا تھا جس کی وجہ سے یہ انفیکشن کی ممکنہ وجہ ہوسکتی تھی۔بعدازاں لیبارٹری ٹیسٹ سے بھی تصدیق ہوئی کہ وہ امیبا کی انفیکشن کا شکار ہوا تھا۔

جولائی تا اکتوبر 2012ء میں صرف ایک ہفتے کے دوران پاکستان میں 22افراد اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔صرف کراچی میں 13 افراد کی موت ہوئی جن میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو نہروں تالابوں میں نہاتا ہو اور امکان یہی ہے کہ انہیں نلکے کے پانی سے ہی انفیکشن ہوئی۔پانی میں اس امیبا کی افزائش کی وجہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت ، پانی میں کلورین کی مقدار میں کمی اور فراہمی آب کے معاملے میں خرابی ہوسکتی ہے۔

یوکے (برطانیہ)
1979 میں برطانوی شہر باتھ میں ایک لڑکی رومن حمام میں نہا رہی تھی کہ اس نے کچھ پانی نگل لیا۔ پانچ روز بعد اس کی پام کے باعث موت ہوگئی۔ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ حمام کے پانی میں امیبا موجود تھا جس کے بعد مذکورہ حمام کو مستقل طورپر بند کردیا گیا۔

امریکا
جیسا کہ اوپر امریکہ میں اس کے چند واقعات کا ذکر کیا گیا لیکن درحقیقت امریکا میں اس بیماری کے بہت سے واقعات پیش آ چکے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں 1998ء سے 2007ء کے دوران پام کے حملے میں 33 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ 2001ء سے 2010ء کے 10 سال کے عرصے میں اس کی انفیکشن کے 32واقعات کا پتہ چلا۔ان میں 30 واقعات میں لوگ تفریحی مقامات پر موجود پانیوں میں نہاتے یا کھیلتے ہوئے اس امیبا کا شکار ہوئے جبکہ دو افراد جیوتھرمل واٹر سپلائی کے باعث ہلاک ہوئے۔

متفرق
اس کے علاوہ فرانس ، اٹلی کے علاوہ مشرقی یورپ میں چیکو سلواکیہ، ہنگری ، رومانیہ ،افریقہ میں سوڈان ، صومالیہ ، چاڈ ،کانگو ، مصر، لیبیا ، مراکش، گنی بساؤ اور ایشیا میں انڈونیشیا ، ملائشیا، تھائی لینڈ ، برما، ویت نام اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی اس بیماری کے باعث اموات کے واقعات پیش آچکے ہیں۔

’’پاکستان میں تا حال پام کاریپڈ ٹیسٹ نہیں ‘‘
ماہر امراض کینسر و صحت عامہ ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی سے جب اس بارے میں رائے لی گئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس انفیکشن کے لیے تاحال کوئی ریپڈ ٹیسٹ موجود نہیں۔ بدقسمتی سے پچھتر فیصد مریضوں میں ان کی موت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ انہیں نائیجلیریا فولیری یا پام کی بیماری تھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی اس بیماری کے بارے میں آگاہی زیادہ عام نہیں اور تحقیق بھی بہت کم ہے۔اس مرض میں اموات کی شرح پچانوے سے ستانوے فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ مرض کب ہوا اور کب موت واقع ہوگئی۔انہوں نے بتایا کہ فی الحال اس بیماری کا کوئی حتمی علاج نہیں اور جو بھی علاج ہورہا ہے وہ تجرباتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جب اس بیماری کے امیبا سے آلودہ پانی ناک میں جاتا ہے تو یہ ناک کے اندر موجود olfactory عصبوں کے ذریعے دماغ کے سامنے والے حصے یعنی frontal lobe پر حملہ کرتاہے اور وہاں سے پھیلتے پھیلتے دماغ کے دیگر حصوں میں بھی داخل ہوجاتا ہے اور دماغ کے خلیات کو کھانے لگتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس مہلک جاندار کو ’’دماغ کھانے والا امیبا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی نے مزید کہا کہ یہ بیماری چونکہ پانی سے پھیلتی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ اس کو پھیلنے سے کیسے روکا جائے۔ پانی کو کس طرح محفوظ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں جلدازجلد اس کی تشخیص کا انتظام ہونا چاہیے کیونکہ جتنی جلدی تشخیص ہوگی اتنا جان بچنے کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔اگر ہسپتال میں کوئی ایسا مریض آئے جس میں اس امیبا سے متاثر ہونے کی علامات ہوں تو اس میں سوئمنگ کی ہسٹری کو دیکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک سوئمنگ اوراس مرض کے درمیان تعلق ہے تو حقیقت تو یہ ہے کہ سوئمنگ کرتے ہوئے ہر سال سینکڑوں لوگ مرجاتے ہیں لیکن اس امیبا سے چند لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔انہوں نے تالابوں اور نہروں میں نہانے والے افراد کو مشورہ دیا کہ اگر وہ ایسا کرتے ہوئے اپنی ناک کو کسی کلپ وغیرہ سے بند رکھیں تو بہتر ہے ، اس کے علاوہ وہ پانی کی تہہ میں موجود مٹی کہ نہ ہلائیں کیونکہ یہ مٹی ایک قسم کی فلٹر ہوتی ہے جو مہلک جانداروں کو پانی میں آنے سے روکتی ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ آج کے زمانے میں روز نئی نئی بیماریاں کیسے سامنے آرہی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بیماریاں صدیوں سے موجود تھیں لیکن اب تشخیص کا نظام بہتر ہونے سے ان کا پتہ چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ پرانے زمانے میں لوگوںمیں قوت مدافعت زیادہ ہوتی تھی اور وہ اس انفیکشن کو برداشت کرلیتے تھے لیکن آج کل لوگ اس کو برداشت نہیں کرپا رہے ہیں اور موت سے دوچار ہورہے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہتر تشخیص کی سہولیات ہونے کی وجہ سے بھی اس کا پتہ چل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔