دھاندلی کی دھول

طارق محمود میاں  ہفتہ 1 جون 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

یہ ہماری تاریخ کے سب سے رنگین اور پرشور انتخابات تھے۔ انھیں گزرے ہوئے تین ہفتے ہوگئے۔ اب نئے باب رقم کیے جارہے ہیں۔ کچھ صفحے پلٹ دیے گئے کچھ اگلے چند روز میں پلٹ دیے جائیں گے۔ دھاندلی کی جو ہاہاکار تھی اس پر دھول بیٹھ چکی۔ اس دھول پر پھونکیں مارنے والے چند کھسیانے باقی ہیں جو کھمبا نوچ رہے ہیں۔ پھونک مارتے ہیں تو دھول اڑتی ہے اور خاک چہرے پہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں منہ دھونے کو کہوں گا تو آگے سے لڑ پڑیں گے۔

آئیے میں ان دھاندلیوں کو یہاں پیش کرتا ہوں جو اخبارات میں شائع ہوئیں۔

1۔آزادی سے انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی۔ خصوصاً تین سیاسی جماعتوں کو دبادیا گیا۔

2۔پولنگ اسٹیشنوں پر درج ووٹوں سے کئی گنا زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔

3۔ غریب علاقوں میں دھاندلی دل کھول کے ہوئی۔

4۔ ٹھپے پہ ٹھپہ لگایا گیا اور ایک ایک انگوٹھا درجنوں بار استعمال ہوا۔

5۔مخالفین کے ووٹ ضائع کیے گئے اور کوڑے کے ڈھیر سے برآمد ہوئے۔

میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتا ، یہ سب اخباری خبریں ہیں۔

میں نے اس ملک میں ہونے والے تمام عام انتخابات دیکھے ہیں۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ عام طور پر زور آور ہی دھاندلی کرسکتا ہے اور اس سے رزلٹ بدلتا نہیں بس پکا ہوتا ہے۔ عوام کا زور ساتھ ہو تو بندوق بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ ایک عام کارکن بھی بڑے سے بڑے بدمعاش کا مقابلہ کرکے جیت جاتا ہے۔

اب آئیے پہلی ’’دھاندلی ‘‘ کی طرف۔ جو جماعتیں پانچ برس تک کلی طور پر ملک میں سیکیورٹی کی ذمے دار تھیں اور نگراں دور میں بھی بالواسطہ شامل تھیں وہ تحفظ کس سے مانگ رہی تھیں؟ یہ شکایت ہی مضحکہ خیز تھی کہ ہمیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ جو بھی حالات تھے اس کی ذمے دار وہ خود تھیں۔ اس میں دوسری جماعتوں کی دھاندلی کہاں سے آگئی؟ ویسے بھی اس دفعہ جس اسٹائل میں انتخابی مہم چلی ہے اس میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا زیادہ موثر تھا اور اسے سبھی نے ایک ہی طرح استعمال کیا ہے۔ سچ بات پوچھیں تو طالبان کی دھمکی کے پردے میں ان میں سے کچھ کا بھرم رہ گیا ہے۔ جلسے کرنا پڑتے تو بہت سبکی ہوتی۔

جہاں تک پولنگ اسٹیشنوں پر درج ووٹوں سے دو تین گنا زیادہ ووٹ کاسٹ ہونے کا معاملہ ہے تو یہ ’’شفاف الیکشن‘‘ کا نام استعمال کرنے والے ایک نجی ادارے کی شرارت یا نااہلی تھی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا لیکن اس احمقانہ بات پر ٹی وی کے اینکر اور تبدیلی کے ڈسے ہوئے لکھاری کئی روز تک سیاپا کرتے رہے۔ ایک سیدھی سی بات ہے کہ کیا کوئی افسر کسی ایسے کاغذ پر دستخط کرسکتا ہے جہاں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد دو ہزار اور رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ایک ہزار ہو۔ رجسٹرڈ ووٹوں سے ایک ووٹ بھی زیادہ ہوگا تو وہ فوراً رک جائے گا اور اپنا حساب چیک کرے گا۔

دراصل ایسا پورے ملک میں کسی ایک بھی پولنگ اسٹیشن پر نہیں ہوا۔  چند کاغذات پر پولنگ اسٹیشن کا نمبر غلط درج ہوجانے یا غلط پڑھے جانے سے اپنے طور پر یہ دھاندلی تخلیق کرلی گئی تھی۔ کسی ان پڑھ، چمار یا گھسیارے کو بھی اتنی عقل ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو کاغذ ہے اس کے مندرجات کی صحت کا جائزہ لے لے لیکن ان لوگوں نے ٹی وی چینلز پر ایک طوفان کھڑا کردیا۔ مجھے تو حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس بے ہودگی کا اتنا سرسری سا نوٹس کیوں لیا۔ ہمارے ملک کے انتخابی عمل کو جھوٹ بول کے پوری دنیا میں بدنام کرنا ایک جرم ہے جس کی سزا ملنی چاہیے ۔

غریب اور کم پڑھے لکھے لوگوں کے علاقے میں دھاندلی کا الزام اس لیے لگایا جارہا ہے کہ وہاں سے ’’روشن خیالوں‘‘ کو مناسب ووٹ نہیں مل سکے۔ حالانکہ ان علاقوں کے لوگ ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ لینے کا زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں روشن خیال اور تعلیم یافتہ طبقہ تو پہلی بار گھر سے نکلا تھا۔ عجیب الزام ہے۔ اسے کون مانے۔

ٹھپے پہ ٹھپہ لگا کے جعلی ووٹ اب کی بار بھی ضرور ڈالے گئے ہوں گے لیکن گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ان کا تناسب کئی گنا کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مثالی حد تک درست ووٹرز لسٹ کا تیار کیا جانا ہے۔ اس کی تیاری میں تین کروڑ ستر لاکھ ایسے ووٹ حذف کردیے گئے ہیں جو سابقہ ووٹرز لسٹ میں موجود تھے۔ ان میں جعلی ناموں کے علاوہ ڈپلیکیٹ ووٹ بھی نکال دیے گئے ہیں۔ کئی لوگوں نے ایک سے زیادہ جگہوں پر ووٹوں کا اندراج کروایا ہوا تھا۔ ایک آدمی کا اندراج تو 26 بار موجود تھا۔

اب ناموں کے ساتھ تصویر بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے غلط آدمی ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ ہاں جہاں زبردستی اور دھونس سے ووٹ ڈالے جائیں وہاں یہ چیز بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہ دھونس والا جنگل کا قانون بعض مخصوص شہری علاقوں میں جاری ہوتا ہے اور اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ یہ ’’طاقت‘‘ کی آشیرواد سے ہوتا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ’’طاقت‘‘، اقتدار کے کچھ پتے اپنی جیب میں رکھنا چاہتی ہے۔ انگوٹھوں کے نشانات چیک کروانا ایک بے کار کی مشق ہوگی۔ ایک تو اس میں مہینوں لگ جائیں گے اور دوسرے رزلٹ کچھ ایسا آئے گا جس میں آدھے سے زیادہ نشانات کے بارے میں کہا جائے گا کہ خراب کوالٹی کی وجہ سے وہ چیک ہی نہیں ہوسکتے۔

کوڑے کے ڈھیر سے بیلٹ پیپرز کا برآمد ہونا دراصل ووٹوں کی گنتی کے بعد ان کی ہینڈلنگ کا ایشو ہے۔ ایسی ہی بات جیساکہ کئی بار بجلی اور فون کے بل سیکڑوں کی تعداد میں کوڑے کے ڈھیر سے برآمد ہوتے ہیں۔ میرا گمان ہے کہ ایسا بدنیتی نہیں بلکہ بدانتظامی کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان میں کسی ایک امیدوار کے نہیں بلکہ سبھی کے ووٹ شامل ہوتے ہیں۔ کون بے وقوف ہوگا جو دھاندلی بھی کرے اور اس کی سرعام نمائش بھی لگادے۔ ہاں اس سے یہ ضرور فائدہ ہوا کہ بیلٹ پیپرز کچھ اینکرز کے ہاتھ لگے تو انھیں ڈگڈگی بجا کے دو دن تماشا لگانے کا موقع مل گیا۔

میاں نوازشریف کی وکٹری اسپیچ کو بھی ایک بہت بڑی انتخابی دھاندلی کہا جارہا ہے۔ پہلے اس تقریر پر اعتراض ہوا کہ یہ دس بجے کردی گئی۔ پھر نو بجے اور اس کے بعد بحث کے جوش میں کھینچ کے اسے آٹھ بجے تک لے آئے۔ حالانکہ یہ رات گیارہ بجے کے بعد ہوئی تھی یعنی ووٹنگ ختم ہونے کے پانچ گھنٹے بعد۔ اس وقت تک ووٹوں کے رجحان سے یہ صاف واضح ہوچکا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جیت رہی ہے۔ جو بات تمام کے تمام ٹی وی چینلز کہہ رہے تھے وہی میاں نواز شریف نے دہرائی تھی۔ اس سے دھاندلی کہاں ہوگئی؟

میری رائے ہے کہ کچھ خامیوں کے باوجود یہ بڑی حد تک شفاف انتخابات تھے جس کے لیے چیف الیکشن کمشنر اور ان کا تمام عملہ مبارکباد کا مستحق ہے۔ انھوں نے ایک ایسے سسٹم کی بنیاد رکھ دی ہے جس میں قدم بہ قدم بہتری آتی جائے گی۔ ہارنے والوں کا صدمہ ابھی تازہ تازہ ہے لیکن جب دھاندلی کی دھول دھلے گی تو یہ بہتری سبھی کو دکھائی دے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔