باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی

رئیس فاطمہ  ہفتہ 1 جون 2013

چینی وزیراعظم کی آمد پر صدر زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی تو آصف زرداری نے بڑے پیار سے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ان سے کہا کہ وہ ابھی سے انھیں وزیراعظم مانتے ہیں۔ میاں صاحب بھلا کیوں پیچھے رہتے انھوں نے فوراً یہ کہہ کر بڑے پن کا ثبوت دیا کہ وہ بھی انھیں منتخب صدر مانتے ہیں۔۔۔!! ایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو۔ لیکن کہیں قریب ہی یقیناً میاں شہباز شریف بھی ہوں گے اور انھوں نے یہ مکالمہ ضرور سنا ہوگا۔ تب انھوں نے آہستہ سے کہا ہوگا۔۔۔۔ ’’من خوب می شناسم پیران پارسا را‘‘ ہمیں ان کی یہی بات اچھی لگتی ہے کہ وہ  برملا اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ زرداری کو صدر نہیں مانتے۔۔۔۔ لیکن جس طرح آخر وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اسی طرح کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی خفیہ ہاتھ آصف زرداری کو آیندہ بھی صدر دیکھنا چاہے۔

میاں نواز شریف کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج اندھیروں سے لڑنا ہے۔ لوڈشیڈنگ اچانک اس طرح بڑھ گئی ہے جیسے پرویز مشرف کے جاتے ہی ڈالر 60 روپے سے چھلانگ لگاکر 100 تک جا پہنچا تھا۔ کراچی کے ان علاقوں میں گزشتہ دو ماہ میں لوڈ شیڈنگ کم کردی گئی تھی جہاں کنڈا سسٹم نہیں تھا اور جہاں بلوں کی ریکوری مقررہ تاریخ تک ہر صورت میں ہوجاتی تھی۔ ہمارا علاقہ بھی خوش قسمتی سے اسی میں آتا تھا لیکن 12 مئی سے اچانک اب ہم بھی آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب میں کالم لکھ رہی ہوں سات گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوچکی ہے۔ اور ایک گھنٹہ پہلے پھر بجلی اپنی جھلک دکھلا کر تین گھنٹے کے لیے داغ مفارقت دے گئی ہے۔ نہ کچھ پڑھ سکتے ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں نہ ہی کوئی اور کام کیا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ آرام بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو مئی کا مہینہ جس کے لیے مولوی اسمٰعیل میرٹھی پہلے ہی کہہ گئے ہیں کہ:

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ

بہا ایڑی سے چوٹی تک پسینہ

اور پھر اس پر قیامت طویل لوڈشیڈنگ۔۔۔۔ مجھے اور میرے جیسے بہت سے حقیقت پسند لوگوں کو کوئی امید نہیں کہ نئی حکومت بجلی کے بحران پر قابو پاسکے گی۔ اول تو یہ کہہ کر بات ختم کردی جائے گی کہ ۔۔۔۔ یہ عذاب پچھلی حکومت کا ہے۔ ہمارے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں جسے جلاکر اندھیرے ختم کردیں۔۔۔۔ عام آدمی قطار میں لگ کر یوٹیلٹی بل جمع کراتا ہے۔ پھر بھی اندھیرے اس کا مقدر ہیں اور بڑے بڑے سیاستدان، جاگیردار، سرمایہ دار اور صنعت کار کروڑوں روپے کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ ان کے ٹیوب ویل، کھیت کھلیان، محلات، بنگلے، وسیع و عریض لان میں بے دردی اور دھڑلے سے پانی استعمال ہوتا ہے۔ پانی کی موٹروں اور ٹیوب ویلوں کے لیے جو بجلی درکار ہوتی ہے وہ سب چوری کی ہوتی ہے۔ لیکن کوئی مائی کا لال ان سے بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ یہاں رشتے داریاں، دوستیاں اور سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر یہ لوگ ملک کی بجلی چرا کر استعمال کر رہے ہیں۔

گویا چوری اور سینہ زوری والی صورت حال ہے۔ پچھلی حکومت کے کئی وفاقی وزیروں کی بجلی چوری کی تفصیلات ٹیلی ویژن پر تفصیل سے آچکی ہیں لیکن جس طرح تمام حکومتیں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے بینکوں سے قرضے لیتی ہیں اور بعد میں معاف کروا کر اپنی پگڑی کا شملہ اور اونچا کرلیتی ہیں اسی طرح یہ بجلی چور بڑی ڈھٹائی سے صرف اپنے گھروں کو روشن کرکے پورے ملک کو اندھیروں میں ڈبو رہے ہیں۔ بڑے بڑے سرکاری ادارے بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں لیکن کیا ڈھٹائی ہے کہ حکومت خود بجلی کے بل نہیں دے رہی۔اور کراچی کے صارفین کو ہزاروں روپے کے بل ظالمانہ طریقے سے مل رہے ہیں ۔جو گھر بند پڑے ہیں جن کے مکین بدامنی کے باعث نقل مکانی کرچکے ہیں ان کے نام اوسط بلنگ مسلسل جاری ہے۔

ایسی اندھیر نگری والی صورت میں جب ہر طرف نیلام گھر سجا ہو، ہر شخص اپنی بولی لگا رہا ہو وہاں نئی حکومت جو خود رشتے داریوں اور دوست نوازیوں کے علاوہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہرین کے رحم و کرم پر ہو۔ وہاں کسی بھی وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ کی یہ ہمت کیونکر ہوگی کہ وہ اربوں روپوں کے نادہندگان سے بجلی کے بل وصول کرے۔۔۔۔یا صارفین کی مدد کرے۔ اصلاح ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ نئی حکومت کے لیے کوئی پھولوں کے ہار نہیں لیے کھڑا۔ کٹھن مرحلوں سے گزرنا ہے۔ لیکن کیا کرپائیں گے۔۔۔؟ کوئی بھائی ہے کوئی داماد، کوئی چچا، خالو، ماموں، تایا، دوست احباب الگ اور وہ بکاؤ گھوڑے الگ جو کبھی قرضے معاف کراتے ہیں تو کبھی بجلی کے بل ادا نہیں کرتے اور دن دہاڑے سرعام بجلی چوری کرتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔۔۔۔ کیونکہ شرمندگی ہمیشہ باضمیر اور باکردار لوگوں کو ہوتی ہے۔

جو سرعام خود بھکاری بھی بن جاتے ہیں اور اپنے کشکول میں ہر طرح کا مال ڈالنے کو تیار رہتے ہیں۔۔۔۔ ایسی عبرت ناک صورت حال میں میاں برادران کس طرح ان چوروں سے رقوم وصول کرپائیں گے؟ کہیں تعلقات کی وجہ سے آنکھیں بند کرنی پڑیں گی، کہیں دوستوں کی دوستی آڑے آئے گی، کہیں رشتہ داری پاؤں میں زنجیر ڈال دے گی اور کہیں اسٹیبلشمنٹ کا حکم مان کر بڑے بڑے مگرمچھوں کو چھوڑنا پڑے گا۔۔۔۔ کیسی احمقانہ اور مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے، لیکن عوام بجلی سے محروم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایٹم بنانے کے بجائے یہ رقم تعلیم کے شعبے پر خرچ ہوتی، نئے اسپتال بنائے جاتے۔۔۔۔ اور پھر اب جو رقم اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر خرچ ہورہی ہے وہی ان اندھیروں کو دور کرنے پر خرچ ہوجاتی۔۔۔۔!!

کیا تماشا ہے کہ ایک دفعہ (ن) لیگ کا مکمل صفایا ہوجاتا ہے اور پی پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرتی ہے اور دوسری بار (ن) لیگ میدان مار لیتی ہے اور پی پی گدھے کے سر پر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتی ہے۔۔۔۔لیکن اس دفعہ شطرنج کے اس کھیل میں ماہر دماغوں نے نئی چال چلی ہے۔ یعنی

باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی

جنھوں نے پانچ سال مرکز میں ہر طرح کی من مانی کی وہ اس بار ایک صوبے تک محدود کر دیے گئے اور جو اپنے صوبے کے راجہ اندر بنے بیٹھے تھے وہ مرکز کے مہاراجہ بن کر ابھرے۔۔۔۔ کچھ نئے پیادے بھی صوبائی حکومتوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں شہ اور مات میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ پیادہ کس کا آگے بڑھتا ہے، گھوڑے کون دوڑاتا ہے اور دانا وزیر کیسی چالیں چلتا ہے۔۔۔۔؟ شطرنج کی بساط بچھ چکی ہے۔ تمام کھلاڑی تیار ہیں۔۔۔۔ لیکن وہ اصل دماغ جو ان کھلاڑیوں کی تربیت کرتے ہیں وہ فی الحال خاموش ہیں کہ انھیں شاید نیلے برقعوں کی تیاری کا ٹھیکہ کسی کو دینا ہے۔ انتظار کیجیے ٹھیکہ اور ٹھیکیدار دونوں جلد ہی سامنے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔