چراغ جو جل کر بجھ گئے…

شیریں حیدر  ہفتہ 1 جون 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

SGG9076کے ڈرائیور عرفان نے گھر گھر کے سامنے ہارن بجا کر اطلاع کی ہو گی اور ماؤں نے حسب معمول اپنے بچوں کو ان کے بستے، ٹفن باکس اور الوداعی بوسہ دے کر رخصت کیا ہو گا،  بیرونی دروازے پر کھڑے ہو کر اس کی دور جاتی وین کو دیکھتے ہوئے سوچا ہو گا کہ جانے اس کا ہوم ورک مکمل تھا کہ نہیں؟ کہیں استاد سے ڈانٹ نہ پڑ جائے… خراب موڈ کے ساتھ گھر لوٹے تو اس کے لیے کیا پکاؤں کہ ا س کا بگڑا ہوا مزاج ٹھیک ہو جائے؟ جب تک وین نظر آتی رہی ہو گی اس کی نظر اس کا تعاقب کرتی رہی ہو گی، اس نے وین کے مڑنے سے پہلے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اس پر میلوں کے فاصلے سے پھونکا ہو گا، اسے اللہ کی امان میں دیا ہو گا، اسے کیا علم تھا کہ وہ اللہ کی امان میں… اللہ کے پاس جانے والا تھا۔

ان معصوم بچوں کو لیے ہوئے… وہ وین اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، جس کا شکم تھوڑی دیر میں ان بچوں کے لیے قبر میں تبدیل ہونے والا تھا۔ ایک لخت میں دھماکا ہوا … آگ لگی اوردرجن سے زائد چراغ  جل کر بجھ گئے، جو بچ گئے ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر اتنی بری طرح جلے ہیں کہ ان کے زندہ رہ جانے کی امید ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ جائے حادثہ کے عینی شاہدوں کیمطابق، ڈرائیور نے جائے حادثہ سے فرار ہو کر ثابت کر دیا کہ دنیا میں اس کی جان سے بڑھ کر قیمتی کوئی چیز نہیں۔کیا قیامت کی گھڑی ہو گی جب تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے ہنستے کھیلتے بچوں کو گھروں سے اسکول کے لیے روانہ کرنیوالی ماؤں کو اطلاع ملی ہو گی کہ ان کے وہ بچے جو تھوڑی دیر قبل پھولوں کی طرح تازہ اور شگفتہ تھے، زندگی سے بھر پور تھے،  اب وہ جل کر سوختہ ہو چکے ہیں…  ان کے وجود موت کی آغوش میں جا چکے اور وہ غنچے بن کھلے مرجھا چکے تھے ۔

کس کے ہاتھ پر وہ مائیں اپنے ان ننھے شہیدوں کے لہو تلاش کریں؟ کہنے کو ایک بچے کی موت… چند بچوں کی موت یا حادثہ ہے مگر بنظر غور دیکھا جائے تو یہ حادثہ ہم سب کی بے حسی کا ایک اور ثبوت ہے، نہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ ہے اور کوئی لاکھ دعوے کرے اسے ہم آخری حادثہ بھی نہیں کہہ سکتے۔کسی گھر کا اکلوتا چشم و چراغ تو کسی گھر میں چار بہنوں کا اکلوتا بھائی… کسی گھر سے دو بہن بھائی اور ایک گھر کے دو بھائی، تیسرے کو اللہ کی طرف سے بچانا منظور تھا کہ وہ اس روز اسکول ہی نہیں گیا۔ زیادہ منافع کی خاطر بچوں کو جانوروں کی طرح ٹھونس کر گھروں سے اسکول اور اسکول سے گھروں کو لانیوالے یہ وین ڈرائیور بے حسی کی حد تک اخلاقیات سے نابلد ہوتے ہیں۔ اس کی ذمے داری صرف ڈرائیوروں کی نہیں بلکہ ان وین مالکان پر بھی ہے، اس کے بعد ہم والدین بھی اس بات کے لیے احتجاج کر سکتے ہیں … مگر اس طرح کی غفلت کو ہم سب نظر انداز کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایسا قیامت صغری جیسا حادثہ ہو جو کئی گھروں کے چراغ بجھا دے۔

حیرت ہوتی ہے ان باپوں کا حوصلہ دیکھ کر جنھوں نے اپنے معصوم بچوں کے مردہ بدن دیکھ لیے اور ان کی پرواہ چھوڑ کر ان کی فکر میں لگ گئے کہ جن میں ان کو زندگی کی رمق نظر آ رہی تھی… حادثات ہم میں انجانے میں ایک عجیب فطری ہمدردی کا جذبہ ابھار دیتے ہیں… کون داد نہ دے گا اس عظیم عورت کو کہ جو ان بچوں کی روحانی ماں تھی، اس نے اپنے جلتے ہوئے آنچل کی پرواہ نہ کی اس موت کی طرف بڑھتے ہوئے ہر قدم کو ان بچوں کی زندگی بچانے کے جہاد میں صرف کر دیا، یہاں تک کہ وہ خود زندگی کی بازی ہار گئی اور اس حادثے میں اس کے تین بھتیجے اوربھتیجیاں بھی شہید ہو گئے… کیا ایسی عظیم استاد کو ہم کوئی خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی اعزاز بہادری کے اس مظاہرے کے طور پر اس شہید کو دیا جا سکتا ہے، جس کی کاوش نے کئی چراغ گل ہونے سے بچا لیے؟ کیا گجرات شہر کا کوئی چوک اس کے نام سے منسوب ہو سکتا ہے، کیا کوئی یادگار بن سکتی ہے جہاں اس علاقے کے لوگ اس کی عظمت کو سلام کر سکیں اور رہتی نسلوں تک اس کے نام کو زندہ رکھ سکیں ؟

گجرات کے ایک نواحی گاؤں منگووال کے قریب پیش آنیوالا یہ حادثہ کئی دن تک ملک اور بالخصوص اہل گجرات کے دلوں میں ایک کسک بن کر رہا اور پھر ہر خبر کی طرح یہ بھی پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حکام بالا تک اس خبر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ایسے گاڑی مالکان اورڈرائیوروں کے خلاف شدید کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا گیا جو اپنے معمولی فوائد کی خاطر لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ خود تو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا ڈرائیور اور گاڑی کے دروازے سے ہمہ وقت لٹکتا ہوا کنڈکٹر ہر جائے حادثہ سے فرار ہو جاتے ہیں اور اگر بعد ازاں پکڑے بھی جاتے ہیں تو جانے کس طرح چھوٹ جاتے ہیں… پیسے کی ہمارے ملک میں بہت طاقت ہے!!!

کس طرح ممکن ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہو نیوالی گاڑیوں میں ایک سے زائد سلنڈرز ہوں اور وہ بھی ناقص معیار کے… قطاروں میںلگنے کی زحمت سے بچنے کے لیے عام گیلنوں میں ڈال کر سیٹوں کے درمیان میں رکھا ہوا اضافی پٹرول… موت کا سامان تو ہمہ وقت ساتھ لے کر چلتے ہیں،اور انھیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے، پولیس بھی چیکنگ کرتی ہو گی مگر جانے کتنے میں ان اٹھارہ بیس لوگوں کی زندگیوں کا سودا طے ہو جاتا ہے اور موت کے یہ متحرک ڈبے اپنے پیٹ میں ان بدنصیبوں کو لیے جا بجا پھرتے ہیں۔ہر حادثے کے بعد چند دن تک میڈیا کی ساری توجہ اس حادثے کی وجوہات کی طرف مبذول رہتی ہے اور ہم بھی انہی کے ذریعے ان کوتاہیوں اور غفلتوں سے آگاہ ہوتے ہیں مگر یہ توجہ ایک نئے حادثے کے رونما ہونے تک ہوتی ہے، نیا حادثہ پرانے زخموں پر کھرنڈ باندھ دیتا ہے ۔ صرف ہمارے اور آپ کے، ان کے نہیں جن کا سب کچھ لٹ جاتا ہے، جن کی کائنات اندھیر ہو جاتی ہے۔

گجرات شہر کے ایک نواحی گاؤں میںتو اس طرح کی غفلت شاید کسی کی نظر میںنہ آتی کہ عموما دیہات وغیرہ میں پولیس اور خصوصا ٹریفک پولیس کا اور گاڑیوں کی چیکنگ کا کوئی تصور نہیں ہے مگر یہ سب کچھ آپ ہر روز ہر بڑے شہر میں دیکھ سکتے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں دیکھ سکتے ہیں… اسلام آباد ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، جہاں بسوں اور ویگنوں میں مسافروں کو بھیڑبکریوں کی طرح لاد رکھا ہوتا ہے، بسوں کے اندر اور باہر لٹکتے ہوئے اور چھتوں پر چڑھ کر بیٹھے ہوئے مسافر… جن میں طالب علم سب سے زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں کہ غالباً  وہ کرایہ ادا نہیں کرتے سو وہ بس کی اس قیمتی سیٹ کے حق دار نہیں ہوتے جو بس مالک اور ڈرائیور کی دانست میں ان کی جان سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے ۔

ایک کے بعد دوسرا حادثہ رونما ہوتا رہتا ہے، کبھی ملک کے کسی حصے میں کبھی کہیں، ہر حادثہ ہمیں دو، چار، دس یا بیس کے نقصان کی وعید دے جاتا ہے مگر ہوتا کیا ہے؟۔صدر مملکت، چیف جسٹس،وزیر اعظم اور صوبائی حکومت کے علاوہ پولیس کے اعلی حکام کی طرف سے بھی اس حادثے کی مذمت کی گئی ہے اور ایسے وین مالکان کو چیک کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں، مگر کیا اس سے پہلے اس ملک میں کوئی قانون موجود نہیں تھا یا اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ کیا ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی نقصان ہو اور ہم اپنی پالیسیوں میں ردوبدل کریں یا موجود قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں؟

چند روز اور… یہ نقصان ہمیں یاد دلاتا رہے گا اپنی غفلتوں پر دل ہی دل میں پچھتاتے رہیں گے، پھر ہمیں صبر آ جاتا ہے… ساتھ ہی ایسا ایک اور حادثہ نئے مقام، نئے چہروں اور نئے نقصانات کے ساتھ آن پہنچتا ہے اور ہم پھر ’’ جاگ ‘‘ اٹھتے ہیں۔ کیا ممکن ہے کہ ہم میں سے ہر شہری اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دے اور اس وین میں بیٹھنے سے انکار کر دے جس میں ایک سے زائد سلنڈر لگے ہوں یا گیلن میں بھر کر پٹرول رکھا ہوا ہو؟ کیا پولیس اہل کار ذرا سے مالی فائدے کی خاطر موت کے ان سوداگروں کی سرپرستی کرنے سے انکار کر سکتے ہیں کہ حادثات کے نتیجے میں مارے جانے والے بے گناہ لوگوں کے خون کا کچھ جواب انھیں بھی اللہ کے روبرو دینا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔