حکومت یہ دو کام ہی کر لے

ظہیر اختر بیدری  منگل 18 ستمبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

نئی حکومت ملک کے نچلے طبقات کے مسائل ہی حل نہیں کرنا چاہتی بلکہ انھیں نیچے سے اٹھاکر اوپر لانا چاہتی ہے جو ایک انقلابی اقدام ہوگا۔ نچلے طبقات میں مزدور اور کسان تعداد میں سب سے بڑے طبقات ہیں۔

ہم نے اپنے ایک کالم میں نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کے عمران خان کے ارادے کا جائزہ لیا ہے، اس حوالے سے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ نچلے طبقات کو اوپر اٹھانے کا کام بہت اہم اور مشکل ہے، اس لیے اگر نئی حکومت نچلے طبقات کے وہ مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دے ، جو اس کے اختیار میں ہے تو اسے ہم ایک مثبت پیش رفت کہہ سکتے ہیں۔ مزدور طبقے کا تعلق نچلے ترین طبقے سے ہے اور اس طبقے کی سماجی حیثیت پست ترین سمجھی جاتی ہے۔

مزدور طبقات ویسے تو ان قانونی حقوق سے محروم ہیں جو حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ ہیں ، مزدور طبقے کو نہ صرف ان قانونی حقوق سے محروم کردیاگیا ہے بلکہ ایک ایسے فرسودہ اور ظالمانہ قانون کی رسی میں باندھا گیا ہے جو اس کی اکیسویں صدی میں قابل مذمت ہی نہیں بلکہ قابل شرم ہے، اس قانون کو پاکستان کی جدید زبان میں ٹھیکیداری نظام کہاجاتاہے۔ اس نظام میں ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ملوں اور کارخانوں کے ملازم نہیں رہتے بلکہ ٹھیکیدار کے ملازم بن جاتے ہیں جن کوئی حقوق ہوتے ہیں نہ کوئی پرسان حال ہوتا ہے۔

یہ ظالم نظام  دھڑلے سے کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں عشروں سے چل رہا ہے۔ ہم اپنے دور میں ملک کی ایک مقبول ٹریڈ یونین فیڈریشن میں سیکریٹری جنرل کے طور پر کام کرتے رہے، اصل میں اس دور یعنی بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دھائی میں انقلاب ہمارے سروں پر سوار تھے، سو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ٹیم نے ٹریڈ یونینز میں کام کرنا شروع کیا۔ اس زمانے کی مزدور فضا بڑی جارحانہ تھی، ایوب خان کے جبرکے گھائل مزدوروں کا رویہ بہت جارحانہ تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ایوب خان نے مزدوروں پر جبر کی انتہا کردی تھی۔ یہ اسی کا رد عمل تھا۔

جس نے مزدوروں کو جارح بنادیا تھا۔ مزدوروں کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ مالکان نے ملوں،کارخانوں میں آنا چھوڑدیا تھا، اگر کسی مل مالک کو کسی ضروری کام سے ملز میں آنا ضروری ہوتا تو اسے متعلقہ ٹریڈ یونین کے عہدیداروں سے اجازت لینا پڑتی۔ ملز کے جن افسروں نے ماضی میں مزدوروں پر ظلم کیے تھے انھیں مزدور گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے تھے۔

یہ مزدوروں کا ظلم نہیں تھا بلکہ اس ظلم کا رد عمل تھا جو مالکان نے ایوب خان کے دور میں ان پر ڈھایا تھا۔ اس ظالمانہ دور میں بھی ٹریڈ یونین بحال تھی اور مزدور متحرک تھے لیکن ٹھیکیداری نظام اس دور میں بھی رائج نہ تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں ٹھیکیداری نظام نہ صرف رائج ہے بلکہ انتہائی مستحکم بھی ہے اور اس ظالمانہ نظام کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی اور مزدوروں کی نمایندہ ٹریڈ یونینزکو ختم کردیا گیا ہے اور پاکٹ یونینز کے ذریعے مزدوروں کا استحصال کیا جارہا ہے جس میں لیبر ڈپارٹمنٹ بھی حصے دار ہے۔

مزدوروں نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد کچھ حقوق حاصل کیے تھے جن میں یونین سازی کا حق، سودا کاری کا حق اور حق ہڑتال شامل تھے۔ آج حال یہ ہے کہ ہر طرف پاکٹ یونینزکا راج ہے، مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں اگر کوئی مزدور ٹریڈ یونین بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کان پکڑ کر ملز سے باہر کردیا جاتا ہے۔ ملوں، کارخانوں میں صنعت کاروں کی آمریت ہے کیونکہ مالکان نے لیبر ڈپارٹمنٹ سے مل کر مزدوروں کے حقوق غصب کرلیے ہیں اور ملک کی ضرورتیں اپنے خون پسینے سے پوری کرنے والا یہ طبقہ عملاً پابند سلاسل ہوکر رہ گیا ہے۔

اس حوالے سے دلچسپ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ مزدور، کسان راج کا نعرہ لگانے والوں کے دور میں مزدور یونینوں کو ختم کردیا گیا اس دور کے بعد ٹریڈ یونین آج تک زندہ نہ ہوسکی، ٹھیکیداری نظام میں مزدور ملز کا نہیں ٹھیکیدار کا ملازم ہوتا ہے اور تقرر نامہ اجرت وغیرہ کا تعین ٹھیکیدار کی مرضی کا محتاج ہوتا ہے۔ اصل اس نظام میں مزدوروں کا حال صنعتی غلاموں جیسا ہوتا ہے۔ کوئی اس طبقے کا پرسان حال نہیں، مزدوروں کی نمایندگی کرنے والی ٹریڈ یونینز عموماً مالکان کی دلالی کررہی ہیں۔

ملک کی صنعتی پیداوار مزدوروں کی محنت کی مرہون منت اور زرعی پیداوار کسانوں کی محنت کی مرہون منت ہے لیکن یہ کیسا المیہ، کیسا ظلم ہے کہ یہ دو طبقات معاشرے کے پست ترین طبقات بنائے گئے ہیں۔ صنعتوں کے مالکان کرپشن، بینکوں کے قرضوں سے ملز اور کارخانے قائم کرتے ہیں اور ملوں اور کارخانوں کے مالک بن کر مزدوروں کے ساتھ غلاموں کا سلوک کرتے ہیں، خود عیش عشرت کی زندگی گزارتے ہیں اور مزدوروں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ کسان زمین کا سینہ چیر کر دھوپ سردی بارش میں محنت کرتا ہے اس کی محنت کی پیداوار سے جاگیردار اور وڈیرے شاہانہ زندگی گزارتے ہیں اور کسانوں کو زرعی غلام بناکر رکھتے ہیں۔

عمران حکومت نچلے طبقات کو اوپر لانا چاہتی ہے، یہ ایک اچھی خواہش ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے طبقاتی تقسیم کو اس طرح مستحکم کردیا ہے کہ اس میں کوئی معنوی تبدیلی آسان ہے، اس کے لیے 1789 کا انقلاب فرانس لانا ہوگا۔ عمران خان جس نظام میں پھنسے ہوئے ہیں اس میں مخلص لوگوں کو بھی جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے ایسی صورت میں عمران خان مزدوروں میں ٹھیکیداری نظام  ختم کرسکتے ہیں اور کسانوں کو اوپر اٹھانے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کرسکتے ہیں۔ یہ دونوں کام عمران حکومت کے بس میں ہیں اگر یہ دونوں کام کردیے گئے تو نچلے طبقات کو اوپر لانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔کیا عمران خان یہ ابتدائی کام کرسکتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔