عمران خان سی پیک کو ’’پبلک ‘‘ کریں!

علی احمد ڈھلوں  منگل 18 ستمبر 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اس میں ایک بڑی خبر آئی۔ ترجمان نے بریفنگ میں اس کا ذکر ایک جملے میں کیا۔ کسی نے سنا کسی نے نہیں سنا۔وزیر اطلاعات نے بتایا کہ سی پیک کے ’’پراجیکٹس‘‘ پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی آ چکی ہے کہ پشاور تا کراچی ریلوے لائن کو دہرا اور اپ گریڈ کرنے کا کام بھی ٹھپ کر دیا گیا ہے۔

پھر کسی نے کہا کہ پاک چین دوستی محض ایک دکھاوا یا ’’سیاسی بیان‘‘ ہو سکتا ہے اس سے آگے کچھ نہیں اور اسی تناظر میں سی پیک دو طرفہ فائدے کا منصوبہ ہے ورنہ چین تو کسی کو مونگ پھلی کا چھلکا بھی مفت نہیں دیتا۔ خیر اسے مبالغے والا تبصرہ سمجھئے۔ لیکن حقیقت اتنی ہے کہ یہ سقے اور پیاسے کا بندوست ہے۔ سقے کو دھیلہ چاہیے، پیاسے کو پانی کی کٹوری۔ دھیلہ دے کر پیاسا سقے پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ سقہ پانی پلا کر پیاسے سے نیکی نہیں کرتا، دونوں ضرورت مند ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ سی پیک سے چین کو سستی راہداری ملے گی۔

ہمیں کرایہ اور دوسرے باقی پراڈکٹ ملیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ زیادہ فائدہ چین کو ہو گا لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ سستے میں اپنا سودا کرنا ہماری پرانی عادت ہے۔ ایسی عادت جواب مجبوری بن گئی ہے۔ ویسے سی پیک کی آدھی ٹانگ تو نواز حکومت نے اس کا رخ موڑ کر توڑ دی تھی۔ شارٹ کٹ تو گلگت، پختونخواہ اور بلوچستان تھا لیکن اسے پہلے لاہور پھر کراچی اور وہاں سے گوادر لے جانے کا نقشہ بنایا گیا۔ کہتے ہیں حکومت کو ’’یقین‘‘ تھا کہ بلوچستان کے حالات تو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ادھر سے گزار کر اس کی ’’معطلی‘‘ کا خطرہ کیوں مول لیا جائے چنانچہ روٹ بدل دیا گیا۔ خدشہ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ بلوچستان ہی نہیں خیبر پختونخواہ کے سرحدی حالات بھی جیسے تھے،ویسے ہیں۔ تبدیلی کی خوشخبریاں افواہیں تھیں، افواہیں ہی رہیں۔

سی پیک کا مکمل بجٹ 56 ارب ڈالر ہے، یہ 56 ارب ڈالر قرضہ ہے جو پاکستان ادا کرے گا اور آنے والے 45 سالوں تک CPEC کا 95 فیصد فائدہ بھی چین اٹھائے گا،مزے اور حیرانگی کا پہلو ملاحظہ کریں چین یہ 56 ارب ڈالر پاکستان کو دے گا بھی نہیں۔ خود سے اپنی لیبر، اپنی ٹیکنالوجی کے ساتھ CPEC پر خرچ کرے گا۔ اگلے 45 سالوں تک CPEC روٹس کے ساتھ فینس لگے گی جو سیکیورٹی کے ہیڈ میں پاکستان لگائے گا لیکن پاکستان اور پاکستانی اس فینس سے باہر رہیں گے۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے یہ معاہدے ہوئے مگر انھیں پبلک نہیں کیا گیا۔اس CPEC پر ہوٹلز، گودام اور ریسٹ ہاوسز چین کے ہوں گے،جہاں 90فیصد چینی چائینہ ورکرز ہوں گے۔یہ آج کی بات نہیں ہے عمران خان پر الزام لگا کہ دھرنوں کی وجہ سے سی پیک ایک سال تاخیر کا شکار ہوا مگر قارئین کی اطلاع کے لیے بتاتا چلوں کہ عمران خان نے اُس وقت بھی یہی کہا تھا کہ ان معاہدوں کو پبلک کیا جائے تا کہ حقائق عوام تک پہنچ سکیں۔ عمران خان اپوزیشن میں تھا یا آج حکومت میں شروع سے یہی دہائی دے رہا ہے۔ CPEC میں ہوا کیا ہے ۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آیا سی پیک ’’نئے پاکستان‘‘ میں رواں دواں رہے گا۔ یہ تو لازم ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا سی پیک پر پیش رفت سے وزیرِ اعظم خان کی عوامیت پسندی کے محض بیان بازی ہونے کا پردہ تو نہیں کھل جائے گا؟ وزیرِ اعظم عمران خان کی عوامیت پسند سیاست لازمی طور پر انھیں بیجنگ کے دروازے تک کی پتھریلی سڑک پر لے جائے گی۔ ؟ وزیرِ خزانہ اسد عمر نے پہلے ہی سی پیک معاہدوں کو عوام میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر کیا عوام ان شرائط کو ہضم کر پائیں گے؟کبھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان سی پیک منصوبوں کی جانچ پڑتال کروائے بغیر کس طرح نواز شریف، مسلم لیگ (ن) کی کرپشن اور اقتصادی بدانتظامی کے خلاف مہم جاری رکھ پائیں گے؟

قارئین کو یاد ہوگا کہ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان کے لیے سی پیک کی طرح کا ایک بڑا معاہدہ ہوا تھا جو حقیقت میں گیم چینجر تھا۔ جس کے تحت منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہزاروں کلو میٹر طوالت کی نہریں بھی بنائی گئیں۔ اس کے نتیجے میں اب وہاں سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں جہاں پہلے گھاس کا تنکا بھی نہ اگتا تھا اور جہاں1970کے عشرے تک ویرانے تھے وہاں اب ہنستے بستے شہر ہیں۔انڈس واٹر ورکس منصوبے کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ دو مشرقی صوبے (پنجاب اور سندھ) تیزی سے پروان چڑھے اوراُن میں شہری علاقوں کا رقبہ بھی وسعت اختیار کرگیا۔

اس کے بعد 1960 کی دہائی میں ہم نے امریکا اور چین کے درمیان صلح کے لیے پُل کا کردار ادا کیا تھا، جب کہ امریکی صدر کسنجر اُس وقت پریشان تھے کہ اس کے بدلے میں پاکستان نہ جانے امریکا سے کیا ڈیمانڈ کرے گا، مگر ہم نے ذاتی مفادات کے سوا کچھ نہ لیا۔ 9اگست 1990کو عراقی صدر صدام حسین نے طاقت کے نشے میں کویت پر حملہ کر کے اسے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ سعودی عرب اور عرب امارات پر بھی عراق نے چڑھائی کا عندیہ دے دیا تھا۔ ترکی اور مصر عراق کی زد میں تھے۔

ایران سے عراق کی پہلے ہی طویل جنگ ہو چکی تھی ،الغرض عراق پوری اسلامی دنیا کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا۔اس صورتحال میں سعودی عرب اور عرب امارات نے اپنے تحفظ کے لیے پاکستان سے فوجی مدد مانگی۔ حکومت اس بات کا فیصلہ ہی نہ کر سکی کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ سعودی عرب کی اس پیشکش کا فائدہ مصر حکومت نے اٹھاتے ہوئے 50ہزار فوج سعودی عرب بھیج کر اپنے تمام  قرضے معاف کروا لیے۔

البتہ سی پیک کے بارے میں بہت سے دعوے کیے جارہے ہیں اور تبصروں کی بھی بھرمار ہے۔ سی پیک کے تمام نہ سہی تب بھی اچھے خاصے اجزا تجربے کے بنیاد پر تیار کیے ہوئے معلوم نہیں ہوتے کیونکہ متعلقہ اعداد و شمار اور حقائق اب تک عوام کے سامنے نہیں رکھے گئے۔چند سوالات اس وقت میرے ذہن میں اُبھر رہے ہیں کہ پاکستان نے سی پیک کی جامع فزیبلیٹی تیار کی ہے؟کیا پاکستان نے سی پیک کی تکمیل کی صورت میں ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کے حوالے سے کوئی تخمینہ تیار کیا ہے؟

گوادر کی بندر گاہ سے ہونے والی مجموعی آمدن میں پاکستان کا حصہ کس حد تک ہوگا؟گوادر کی بندر گاہ سے ہونے والی مجموعی آمدن میں بلوچستان کا حصہ کس قدر ہوگا؟کیا گوادر سے خنجراب تک کی ہائی وے محض ٹول روڈ ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اس آمدن سے ان صوبوں کو کس قدر ملے گا جن سے یہ ہائی وے گزرے گی؟(کیا اس کا حال بھی توموٹروے والا نہیں ہوگا؟)چین کی ٹرانزٹ ٹریڈ کا پاکستان کے مینوفیکچرنگ (اشیا سازی) سیکٹر پر کیا منفی یا مثبت اثر مرتب ہوگا؟سی پیک سے متعلق درآمدات پر ٹیکس کی چھوٹ دینے سے پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟سی پیک سے مالیاتی وسائل کی آمد (بیرونی قرضے اور بلا واسطہ بیرونی سرمایہ کاری) اور وسائل کے اخراج (قرضوں اور ان پر سود نیز منافع کی ادائیگی) سے متعلق توازن ادائیگی پر کیا قلیل المیعاد اور طویل المیعاد اثرات مرتب ہوں گے؟

خشکی پر اور سمندر میں ملکی تجارتی قافلوں کو زیادہ سے زیادہ یا جامع ترین تحفظ فراہم کرنے کا پاکستان کے بجٹ پر کیا اثر مرتب ہوگا؟گوادر تا خنجراب سی پیک سے متعلق تجارتی قافلوں کو تحفظ فراہم کرنے والے سیکیورٹی یونٹس میں متعلقہ اضلاع کا حصہ کتنا ہوگا یعنی وہاں سے کتنوں کو بھرتی کیا جائے گا؟اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں کہ گوادر ایسا شہر نہ بن جائے جس میں بلوچ اقلیت میں ہوں؟آج بھی ان سوالوں کے جوابات عوام کو درکار ہیں۔ CPEC کا ایک معاہدہ بھی  قوم کے سامنے نہیں آنے دیا گیا، اس لیے عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ ان معاہدوں کو لازمی عوام کے سامنے لائیں، حقیقت بتائیں اور انھیں ختم تو شاید نہیں کر سکتے مگر ریویو کی گنجائش موجود ہے۔ اسے استعمال کرکے خالصتاََ پاکستان کے مفادات کے لیے سامنے لائیں ، تاکہ بہترین فیصلے کیے جاسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔