ہمارے گھر کے چور

عبدالقادر حسن  منگل 18 ستمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سخت جان وطن عزیز میں ایسے لاتعداد سیاستدان موجود ہیںجو حکومتوں میں رہے ہیں یا اب بھی حکومت میں موجود ہیں جن کو سیاسی عہدوں پر نہیں عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑا ہونا چاہیے تھا لیکن اس صورتحال کو اگر یوں دیکھا جائے کہ ایک بار پھر احتساب نامی شے کی بسم اللہ ہوئی ہے ۔حکومت نے اپنے پہلے سو دنوں کی کار کردگی میں احتساب کے لیے ایک کام یہ کیاہے کہ بیرون ملک جمع پاکستان کی لوٹی گئی رقم واپس لانے کے لیے ایک یونٹ بنا دیا ہے جو پہلے سے اس سلسلے میں بنائی گئی ٹاسک فورس کی معاونت کرے گا۔

ملک میں اس سے پہلے بھی احتساب کے نام پر انتقام کا بول بالا رہا ہے اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، اس لیے موجودہ احتساب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتا ہے کیونکہ جب تک احتساب کے نتائج سامنے نہیں آتے موجودہ احتساب کے نعرے کو بھی ایک اور سیاسی نعرہ ہی سمجھا جائے گا۔

جہاں تک بیرون ملک سے لوٹی گئی رقم کی واپسی کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں پہلے بھی کئی مرتبہ بھاگ دوڑ کی جا چکی ہے اور اس بھاگ دوڑ میں ملک کا مزید سرمایہ خرچ کیا جا چکا ہے جس کا حساب کتاب بھی متعلقہ اداروں کے پاس ہو گا لیکن ابھی تک ہم ایک دھیلہ بھی واپس لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور امید یہی کی جا سکتی ہے کہ آیندہ بھی اس مشق سے حاصل وصول کچھ نہیں ہو گاالبتہ ملک کا مزید خرچہ ہو گا ۔

پاکستان سے لوٹ مار کر کے غیر ممالک میں جمع کی گئی پاکستانیوں کی دولت کا حساب کتاب لگا کر کوئی ایسی قانون سازی کی جائے کہ قوم کے ان لٹیروں سزا بھی دی جا سکے اور ان کو تا حیات نااہل کر دیا جائے تا کہ وہ ملک کی سیاست میں حصہ نہ لے سکیں بلکہ ان کو خاندان سمیت یہ سزادی جائے تا کہ ستر برس سے پاکستان کے عوام کو جن لٹیروں نے جکڑ رکھا ہے ان سے جان چھوٹ جائے۔

مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی قابل ذکر سیاستدان اس سے بچ نہیں پائے گا مگر بات پھر وہیں پر آکر رکتی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کیونکہ سارے کے سارے بلے تو اقتدار کے ایوانوں میںموجود ہیں، اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی خلاف قانون سازی کا حصہ بن جائیں اور جس شاخ پر بیٹھ کر موجیں جاری ہیں اس شاخ کو ہی کاٹ دیں۔ ہماری قسمت اتنی اچھی نہیں، بس دعا یہ کرنی چاہیے کہ یہ لٹیرے کم سے کم لوٹیں تا کہ ملک چلتا رہے۔

احتساب کی بات تو مدتوں سے ہو رہی ہے، سرکاری سطح پر ہر حکومت نے باقاعدہ طور پر اپنے مخالفین کے خلاف چھان بین بھی کی لیکن اس باقاعدہ اور طویل کارروائی کے بعد بھی کچھ برآمد نہ ہوا ۔ عالمی سطح پر بدعنوانی کے ثبوت تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ مغرب کے کئی ملک تیسری دنیا کے بااثر لوگوں کی لوٹ مار سے جمع کرائے گئے سرمائے سے ہی چل رہے ہیں۔

اس لیے وہ ان کے متعلق کوئی بھی معلومات دینے سے گریز کرتے ہیں۔آج سے پہلے تک جو بھی احتساب ہوتا رہا وہ کسی ایک فریق یا سیاسی مخالفین کا ہوتا رہا لیکن اب جو احتساب شروع ہونے جا رہاہے اس میں کوئی جدی پشتی سیاسی مخالفت شامل نہیں ہے بلکہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ملک کی بقاء کا مسئلہ کھڑا ہو چکا ہے اور اگر اب بھی لیپا پوتی سے ہی کام لیا گیا تو خدانخواستہ پھر یہ لٹیرے تو ملک میں یا ملک سے باہر عیش کر رہے ہوں گے لیکن عام پاکستانیوں کی شناخت نہیں رہے گی، وہ وقت اب زیادہ دور نہیں رہا اور عالمی طاقتیں تو پہلے سے اس انتظار میں ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ قرار دے کر اس کے ایٹم بم  پر قبضہ کر لیا جائے ۔ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہمارا یٹم بم  عالمی طاقتوں کو منظور نہیں اس لیے وہ ہر قیمت پر پاکستان سے یہ صلاحیت چھین لینا چاہتی ہیں۔ ایک عام پاکستانی کو یہ حقیقت کوئی حکمران بھی نہیں بتاتا ، وہ اپنی عیاشیوں میں مگن رہتے ہیں۔

اصل حقیقت یہی ہے لیکن ہماری خوش قسمتی یہ ملک اسلام کے نام پرحاصل کیاگیا ہے اور کوئی ایسی غیرمرئی طاقت ہے جو اس کی حفاظت کررہی ہے اور جب بھی ملک پر کڑا وقت آتا ہے،کوئی نہ کوئی ایسی صورت بن جاتی ہے کہ ملک اس میں سے نکل آتا ہے۔

یہ دیکھا جائے کہ آج کن کا احتساب شروع ہو ا ہے تو احتساب کرنے والوں کی تعریف کرنی پڑے گی ۔ آج اگر دشمنوں کا احتساب ہو رہاہے تو کل آج کے دوستوں کا بھی ہوگا۔آج کے حکمران یا تو ملک سے وفاداری کے اور دیانت و امانت کے کسی اونچے مقام پر فائز ہیں یا پھر وہ اس قدر سادہ لوح ہیں کہ انھیں اس کا اندازہ ہی نہیں کہ وہ پاکستان کے چوک میں جو دارورسن ایستادہ کرنے جا رہے ہیں۔

اس کا پھندہ کسی کے گلے میں بھی پڑ سکتا ہے ۔ اصل بات جو بھی ہے اب جب یہ کام شروع ہو چکا ہے اور اس کا دائرہ مزید پھیلایا جا رہا ہے تو اس میں ایسے پردہ نشینوں کے نام بھی آئیں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے ۔ ایک مشورہ ہے کہ احتساب تو زود یا بدیر اب ہونا ہی ہے اگر آج ہو گا توذرا نرم ہو گا لیکن کسی انقلابی کے ہاتھ میں آگیا تو پھر کشتوں کے پشتے لگیں گے۔ اس لیے حکمران اپنے دائیں بائیں ذرا غور سے دیکھیں اور وہ فہرست ملاحظہ کریں جو گزشتہ حکومتیں چھوڑ گئی ہیں، اس فہرست میں بہت سے ایسے نام مل جائیں گے جن کی لوٹی گئی دولت کا ایک بڑا حصہ اندرون ملک ہی ہو گا جس کی وصولی نسبتاً آسان معاملہ ہے ۔ ان سے آغاز کرنا چاہیے ۔

احتساب ہوتا دیکھنا یہ اس ملک کے عوام کی تمنا ہے۔ موجودہ حکومت سے بڑی عوامی توقعات ہیں۔ پاکستان کے عوام ان لٹیروں کا حساب مانگتے ہیں جو ان کا مال چرا کر کھا گئے ہیں ۔ یہاں اتنا عرض کر دوں کہ اب عوام کی کوئی جماعت نہیں رہی، ایک جماعت لٹیروں کی ہے اور ایک لٹ جانے والوں کی ۔ عمران خان اگر احتساب کا عمل چلا سکتے ہیں اور اسے جاری رکھ سکتے ہیںتو پھر وہ اس کی طاقت سے آرام کے ساتھ اسلام آباد کے تخت پر متمکن رہیں، اگر یہ احتساب محدود رہا تو پھر ان کو کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔