قوم بیدار ہوگئی ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

لیجیے جناب! انتخابات بھی پایہ تکمیل کو پہنچے اور وطن عزیز میں ایک نئے جمہوری دورکا آغاز ہوا۔ مسلم لیگ (ن) واضح اکثریت کے ساتھ حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت سازی کی پوزیشن میں ہے۔ 12اکتوبر1999میں جب جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کا تختہ الٹاگیا تو عوام کی اکثریت نے اس غیر جمہوری اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیاتھا، اس کے بعد نواز شریف، پرویز مشرف کے زیر عتاب آئے، جیل کاٹی اور پھر ضمانت پر ان کی جان کو امان ملی، سعودی عرب نے انھیں پناہ دی اور اس طرح وہ مشرف حکومت کے عروج کے زمانے میں ایک عرصے جلا وطن رہے۔تاہم وطن واپسی کے لیے شب وروز ہمہ تن گوش رہے۔

مشرف نے واضح طورپر کہہ دیاتھا کہ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں اب نواز شریف اور بے نظیر قصہ پارینہ بن چکے ہیں اور اب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا دور اقتدار کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔ گویا دونوں جماعتوں کے لیے تاج وتخت اور اقتدار کا ہما شجر ممنوعہ قرار دے دیاگیا تھا اور مشرف کی پالیسیاں تھیں بھی کچھ اس قدر سخت کہ معلوم یہی ہوتا تھا کہ جمہوریت کے لبادے میں آمریت کا یہ دور طوالت اختیار کرے گا اور مشرف پاکستانی سیاسی افق پر چھائے رہیںگے،ملکی سیاست اور پالیسی سازیوں پر ان کا مکمل اختیار تھا لیکن پھر سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور مشرف کے وردی اتارنے کے بعد ان کی طاقت میں کمی آ گئی، رہی سہی کسر ان کی مفاہمتی پالیسی نے پوری کردی، گویا ملک میں آمریت کا زوال اور جمہوریت کے عروج کا دروازہ کھلنا شروع ہوا اور وہ جن کے مستقبل تاریک ہونے کی پیش گوئی مشرف کیا کرتے تھے ان کا مستقبل روشن ہونا شروع ہوگیا اور خود مشرف غیر متوقع وغیر یقینی حالات کی دلدل میں پھنستے چلے گئے۔

محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ بھی واپس آئیں اور شریف برادران بھی سخت لیکن سبق آموز جلا وطنی کا سفر طے کرکے وطن واپس آگئے۔ دونوں کے درمیان معاہدہ جمہوریت نے ملک میں ازسرنو جمہوریت کی داغ بیل ڈالی لیکن ابھی یہ بیل منڈھے چڑھ بھی نہ پائی تھی کہ 27 دسمبر 2007لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کو شہید کردیاگیا۔ نتیجتاً18فروری2008کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو محترمہ شہید کی قربانی کے نتیجے میں عوام کی ہمدردی اور حمایت کا بھاری مینڈیٹ ملا اور پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی، محترمہ کی شہادت اتنا بڑا قومی سانحہ تھا کہ لوگوں کی تمام ہمدردیاں قدرتی وفطری طورپر پیپلزپارٹی کے ساتھ ہوگئیں اور نواز شریف صرف پنجاب میں ہی لوگوں کی حمایت حاصل کرسکے، جب کہ ملکی سطح پر وہ ایک بار پھر حکومت سازی سے محروم رہے۔

گویا ابھی ان کے صبر کا امتحان باقی تھا اور اس صبر میں ان کے لیے ایک بڑا سبق بھی تھا اور آج جب کہ وہ تقریباً چودہ برس بعد حکومت بنانے اور مسند اقتدار پر براجمان ہونے جارہے ہیں تو انھیں اپنے ماضی کے تلخ تجربات اور تاریخ کے ان اسباق سے فیضیاب ہونے کے بعد اب ان کی روشنی میں ملکی وسیع تر مفاد میں اہم ترین فیصلوں اور انقلابی اقدام اٹھانے اور عمل درآمد کرنے کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ 12اکتوبر1999سے تاحال ملکی ترقی وخوشحالی کے سفر میں ایک طویل مہلک وخود کش خلاء پیدا ہوچکا ہے، وطن عزیز بد ترین وعظیم ترین داخلی وخارجی چیلنجز اور مسائل کا شکار ہوچکا ہے اور ملک کی سالمیت کو مختلف النوع خطرات لاحق ہیں اور یہ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہاہے، مسلم لیگ (ن) کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ایک انتہائی پر خار رہ گزر ہے۔

یہ وہ پل صراط ہے جس پر قدم بھی انتہائی احتیاط سے رکھنا ہے اور جس سے گزرنا بھی بڑی ہوش مندی کے ساتھ ہے بصورت دیگر پاکستان کو درپیش مسائل اور چیلنجز جن میں سرفہرست بجلی وتوانائی کا بحران ولوڈ شیڈنگ، امن وامان کی بد ترین صورت حال اور زبردست دہشت گردی، بیروزگاری ومہنگائی سے نبرد آزما ہونا محال ہی نہیں ناممکن ہے۔  اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ پانچ برس میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے بحیثیت جمہوری حکومت پانچ برس تو مکمل کیے لیکن یہ پانچ برس مسائل اور چیلنجز نمٹانے کی بجائے انھیں مزید پروان چڑھانیوالے ماہ وسال تھے چنانچہ پھر نتیجہ بھی سامنے ہے۔ رد عمل کے طورپر جمہوریت نے انتقام لیا اور پیپلزپارٹی حالیہ انتخابات میں سمٹ کر اندرون سندھ تک محدود ہوگئی۔ حیرت ہے جس جماعت نے یہ کلیہ سیاست میں متعارف کروایا کہ جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے وہ خود ہی اس عظیم کلیہ کی نذر ہوگئی۔

عوام پیپلز پارٹی دور سے اس قدر مایوس ہوئے کہ اس کے رہنمائوں کی شہادت اور قربانی اس بار ان پر کوئی جادو نہ چلاسکی اور ان نا مساعد حالات میں ان کی نظریں نواز شریف کی جانب اٹھیں اور عوام نے نواز شریف کو ایک بار پھر منتخب کرکے خدمت کا موقع دیا، خود نواز شریف نے اس بات کا عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ملک میں ترقیاتی کاموں کا آغاز دوبارہ وہیں سے کریںگے جہاں 12 اکتوبر کو انھوںنے چھوڑا یا ان سے چھڑوا دیا گیا تھا۔ جمہوریت نے پیپلزپارٹی سے جو انتقام لیا اس میں بھی نواز شریف کے لیے ایک بڑا سبق ہے، اگر مسلم لیگ (ن) بھی پیپلزپارٹی کی روش پر چلی تو اگلے انتخابات میں عوام کو عمران خان کی مظلومیت یاد آجائے گی۔

انھیں یاد آجائے گا کہ عمران خان ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے اور مظلوم عوام کو مظلومیت سے نجات دلانے میں ایسے ہمہ تن گوش مد ہوش ہوئے کہ لفٹر سے گر کر کافی زخمی ہوگئے تھے اور ظاہری بات ہے کہ عوام اسے بھی نئے پاکستان کی جد وجہد میں پیش آنیوالے ایک ناگہانی حادثے کی صورت میں کسی قربانی سے کم نہیں سمجھتے، لہٰذا مد مقابل موجود ہے اور غلطی کی قطعی گنجائش نہیں ہے، ملک کے پاس اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے پاس … اب ہر صورت کارکردگی دکھانا ہوگی، قوم بیدار ہوگئی ہے، میڈیا نے عوام کو سیانا بنا دیا ہے، لوگ اپنے سیاسی حق واختیار سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں، جو کام کرے گا کارکردگی دکھائے گا وہ ’’ان‘‘ رہے گا، بے کار ونا اہل ’’آئوٹ‘‘ ہوجائے گا، مسلم لیگ (ن) کا ’’مستقبل‘‘ ان کے ’’حال‘‘ میں پوشیدہ ہے اور’’حال‘‘ انقلابی اقدام کا متقاضی ہے اب عوام کو لالی پاپ دے کر نہیں بہلایاجا سکتا ہے، عوام آمروں کو تو معاف کرسکتے ہیں لیکن اپنے منتخب نمائندوں اور جمہوریت کے علمبرداروں کے حوالے سے وہ جمہوریت کو ہی بہترین انتقام سمجھتے ہیں اور جو آج کے باشعورعوام کو بے وقو ف سمجھے یا بنانے کی کوشش کرے وہ خود گویا احمقوں کی جنت میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔