خان صاحب کا وژن اور راہ کی رکاوٹیں

طلال مجتبیٰ حیدر  اتوار 23 ستمبر 2018
میڈیا ہو، ریلوے ہو، پولیس ہو یا واپڈا، سب کے سب خان سرکار کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے اپنا اپنا کردارادا کررہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میڈیا ہو، ریلوے ہو، پولیس ہو یا واپڈا، سب کے سب خان سرکار کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے اپنا اپنا کردارادا کررہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میٹنگ روم میں سناٹا طاری تھا۔ ہال میں موجود ہر شخص کی نظریں دروازے کی جانب اٹھی ہوئی تھیں، ہر آنکھ میں ہزاروں سوال تھے لیکن زبانیں خاموش! جیسے ہی گھڑیال 9 بجے کا گھنٹہ بجاتا ہے، کمرے میں موجود واحد دروازہ کھلتا ہے اور ایک نوجوان آنکھوں میں ذہانت کی چمک، چہرے پر متانت اور اطمینان لئے اندر داخل ہوتا ہے۔ ہال میں موجود ہر آدمی حیرانی اور سراسیمگی کی کیفیت سے دوچار ہے کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کا نیا چیئرمین ایک پینتیس چالیس سال کا نوجوان ہوگا۔

میٹنگ شروع ہوتی ہے۔ ایجنڈے کی ایک ایک کاپی ہر ممبر کو دے دی جاتی ہے۔ کچھ ہی دیر بعد ہال میں ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اِٹس ناٹ پاسیبل! (یہ ناممکن ہے)‘‘

’’اتنے سارے اہداف اور وہ بھی صرف 10 سال میں! یہ پورے ساٹھ سال کا بکھیڑا ہے چیئرمین صاحب! اتنی جلدی نہیں سمیٹا جائے گا۔‘‘ ایک سینئر ممبر نے کھڑے ہو کر اپنا نظریہ پیش کیا۔

اس نوجوان نے حاضرین پر سرسری نگاہ ڈالی اور پہلی بار زبان کھولی: ’’جنٹلمن، آئی وِل ڈُو اِٹ۔‘‘ (صاحبو، میں اسے کروں گا۔)

اس کے ایک ایک لفظ میں چھپی اعتماد کی جھلک نے باقی ساری زبانیں بند کر دیں۔ کچھ دیگر امور نمٹانے کے بعد میٹنگ برخاست کردی گئی۔

وقت کا پہیہ گھومتا ہے اور دس سال پلک جھپکنے میں گزر جاتے ہیں۔ آج پھر وہی میٹنگ روم ہے، وہی لوگ ہیں اور وہی جوان کھڑا ہے، چہرے پر کامیابی اور خوداعتمادی کی چمک لئے ہوئے؛ اور ہاتھ میں وہی دس سال پرانے ایجنڈے کی کاپی ہے جسے سب نے ناقابل عمل قرار دے دیا تھا۔ لیکن آج سب کی نظروں میں اس جوان کیلئے ستائش اور تحسین کے جذبات تھے کیوں کہ جو اس نے کہا تھا، وہ کر دکھایا تھا۔

آج اس کے ادارے کی 1200 سے زائد شاخیں ہیں۔ ان دس سال میں ایوارڈز کی ایک لمبی فہرست ہے جو یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر حاصل کرچکے ہیں… اور پھر 2013 میں وہ لمحہ بھی آتا ہے جب اسے Best Managed Bank Achievement Award (بہترین انتظام کاری کا حامل بینک ہونے کا اعزاز) دیا جاتا ہے۔ اور اس دن یہ جوان اپنے دس سالہ ایجنڈے کی کاپی پر آخری لفظ لکھتا ہے: ’’Achieved!‘‘

یہ نعیم مختار ہیں، الائیڈ بینک کے چیئرمین جنہوں نے ثابت کیا کہ اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ مستقل مزاجی، محنت، لگن اور وژن کو سامنے رکھتے ہوئے انسان ہر امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

محمد نعیم مختار نے جب الائیڈ بینک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کا حال بھی موجودہ پاکستان سے مختلف نہ تھا۔ وہی مسائل کے انبار، وہی وسائل کی کمی، کرپشن، سیاسی بھرتیاں اور وہی کام چور اسٹاف۔ لیکن انہوں نے نہ تو کسی کو فارغ کیا اور نہ ہی جنگی بنیادوں پر بلاوجہ تھلتھلی مچائی۔ بلکہ انہوں نے صرف ایک کام کیا کہ ادارے کو ایک مثبت سمت دے دی اور ناقدین و حاسدین کی باتوں اور تکرار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خاموشی سے اپنا سفر جاری رکھا۔

آج عمران خان کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے، آج عمران خان کی میٹنگوں میں بھی لوگ ان کی باتوں پر زیر لب مسکراتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ خان صاحب، 70 سال کا بکھیڑا ہے، دنو ں میں نہیں سمیٹا جائے گا!

مجھے یقین ہے کہ خان صاحب بھی ان لوگوں کے چہروں کو دیکھتے ہوں گے اور ان کا بھی یقیناً یہی جواب ہوگا جو ہر وژن رکھنے والے کا ہوتا ہے: ’’Gentlemen, I’ll do it۔‘‘

آج حکومت کے ہر ادارے نے خواہ وہ میڈیا ہو، ریلوے ہو، پولیس ہو یا واپڈا، خان سرکار کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور ہر کوئی تبدیلی کی راہ میں روڑے اٹکانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ دراصل تبدیلی ہر کوئی چاہتا ہے لیکن خود تبدیل ہوئے بِغیر! اور پھر خواہ بزنس مین ہو، ولی اللہ یا کوئی ایماندار سیاست دان، ہر کسی کو اس راستے پر چلتے ہوئے مشکلات پیش آتی ہیں۔

کفار مکہ بھی جانتے تھے کہ اسلام کی تعلیمات سو فیصد سچ ہیں لیکن انہیں مانتے نہیں تھے کیونکہ اسلامی تعلیمات سے ان کے ذاتی مفادات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ عمران خان کو بھی اب بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن لوگوں نے کعبے میں اپنے اپنے بت سجا رکھے ہیں، ان کے ٹوٹنے سے پہلے یہ شور تو مچائیں گے۔ لیکن جس دن مدینہ کی ریاست بنے گی اور آپ فاتحانہ انداز میں مکہ داخل ہوں گے تو یہ سب اپنے اپنے گھروں میں دُبک جائیں گے کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اس دن ان کی جائے پناہ ابوسفیان کا گھر نہیں، اڈیالہ جیل ہوگی۔

اور پھر، ان شاء اللہ، عمران خان بھی اس دن اپنے ایجنڈے کی کاپی نکالیں گے اور اس پر آخری الفاظ لکھیں گے: Target Achieved۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔