- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
پانی کی پائپ لائن ، جس نے پاکستانی گاؤں میں امن قائم کردیا
گلگت بلتستان: پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں پانی کی شدید قلت سے آئے دن تنازعات جنم لیتے رہتے تھے لیکن اب کئی کلومیٹر دور سے لائی جانے والی پانی کی ایک پائپ لائن سے یہاں امن کا راج ہوا اور زراعت پھل پھول رہی ہے۔
سکسا نامی گاؤں میں 500 گھرانے آباد ہیں جو زراعت اور غلہ بانی کا کام کرتے ہیں۔ ایک سال پہلے تک یہاں پانی کی شدید قلت تھی جس سے سنگین تنازعات جنم لے رہے تھے۔ ہفتے میں ایک دفعہ صرف نصف گھنٹے کے لیے ایک خاندان کو پانی ملتا تھا جس کی چوری اور خیانت سے مسائل جنم لے رہے تھے۔ اس سے قبل لوگوں کو غسل اور کپڑے دھونے کےلیے وادی سے اتر کر نیچے دریا تک جانا ہوتا تھا۔
اب یہاں سے 6 کلومیٹر دور قراقرم کی پہاڑیوں پر موجود چشموں اور پگھلتی ہوئی برف سے حاصل شدہ پانی کی ذرائع سے یہ پائپ لائن جوڑی گئی ہے جو ڈھلان میں ہونے کی وجہ سے ازخود وہاں سے پانی لاتی ہے۔ یہ پانی نہ صرف تمام آبادی کے لیے پورا ہے بلکہ اس سے زراعت کو بھی فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اس طرح پانی کے ایک پائپ نے علاقے میں دیرپا امن قائم کردیا ہے۔
پائپ لائن کو زمین میں تین فٹ گہرائی میں رکھا گیا ہے جو ایک بڑے ٹینک تک جاتی ہے جس میں 30 ہزار لیٹر پانی بھرا جاسکتا ہے۔ ٹینک کا پانی چھوٹی نالیوں سے کھیتوں تک جاتا ہے اور ساتھ ہی چار ہزار افراد کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔
گلگت بلتستان میں کام کرنے والے ایک غیرسرکاری تنظیم ماؤنٹینز اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن (ایم جی پی او) سے وابستہ عائشہ خان کہتی ہیں کہ پورا نظام سال میں لگ بھگ پانچ ارب لیٹر پانی نیچے لاتا ہے جو پورے سال کی ضروریات کے لیے بہت کافی ہے۔
عائشہ خان نے بتایا کہ علاقے میں موسمِ سرما کی مدت کم اور برف بھی کم ہورہی ہے جبکہ موسمِ گرما قدرے طویل اور گرم ہوتا جارہا ہے۔ اس پر بارش بے بھروسہ ہوتی جارہی ہے اور زراعت پر دباؤ کے ساتھ ساتھ غذائی تحفظ (فوڈسیکیورٹی) کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
سکسا میں رہائش پذیر اور گلگت بلتستان سے منتخب ہونے والی مقامی نمائیندہ شیریں اختر کہتی ہیں کہ اب اس علاقے میں امن و سکون ہے۔
اس منصوبے پر ساڑھے 15 کروڑ روپے لاگت آئی ہے جس کی 20 فیصد رقم اور پوری افرادی قوت گاؤں والوں نے فراہم کی اور بقیہ 80 فیصد رقم کوکا کولا کمپنی نے ادا کی ہے۔
یہاں رہائش پذیر خاتون سکینہ نے بتایا کہ چند برس قبل دیہات میں پانی کی فراوانی تھی کیونکہ برف باری سے سردیوں میں خوب پانی آتا تھا۔ لیکن اب سردیوں کی شدت اور برفباری میں کمی ہورہی ہے جس سے زراعت اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
سکینہ نے کہا کہ پانی کی بڑے ٹینک کی وجہ سے اب زراعت ممکن ہوگئی ہے اور انہوں نے بھی پہاڑ کی نشیب میں ٹماٹر، بینگن اور بھنڈی اگائی ہے جو پہلے ممکن نہ تھا۔ اس کے علاوہ علاقے میں پھولوں کی افزائش بھی بڑھی ہے۔
پائپ لائن اور ٹٰینک کی تعمیر سے قبل خواتین کے لیے دور دراز علاقوں سے پانی لانا ایک بہت تکلیف دہ عمل تھا اور اس میں گھنٹوں صرف ہوتے تھے۔ اب پانی کی فراہمی سے بچے بھی صاف اور بیماریوں سے دور رہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ضروریات سے زائد سبزیاں اسکردو اور خپلو تک لے جاکر فروخت کررہے ہیں جس سے اضافی آمدنی مل رہی ہے۔
پانی کی آمد سے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں نے یہاں 10 ہزار سے زائد درخت لگائے ہیں اور اب یہ علاقہ پکنک کا مقام بن چکا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔