خالی پلیٹ

راؤ منظر حیات  بدھ 19 ستمبر 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

کیڈٹ کالج حسن ابدال میں1972میں داخلہ ملاتھا۔کل کی بات لگتی ہے۔لگتا ہے کہ بس آنکھ جھپکی تو 2018آگیا۔ زندگی گزرنے کااحساس تک نہیں ہوتا۔

پہلی بارلائل پورسے حسن ابدال کاسفرکرناتھا۔لہذاجج صاحب چھوڑنے کے لیے ساتھ آئے۔شام کاوقت تھا۔لائل پورکے ریلوے اسٹیشن سے ’’چناب ایکسپریس‘‘ روانہ ہوئی۔ انتہائی آرادم دہ اوروقت کی پابند۔ ٹرین چلی تو میں سوگیا۔ گیارہ بارہ برس کی عمرمیں نیندجیسی دولت تواپنی ہی ہوتی ہے۔سنجیدہ عمرمیں گہری نیند سونا ناممکن ہے۔خیرصبح آنکھ کھلی تو پنڈی اسٹیشن آیاہواتھا۔جج صاحب کاایک دوست ہمیں لینے آیاہواتھا۔ان کے پاس چھوٹی سی سرکاری گاڑی تھی،حسن ابدال روانہ ہوگئے۔

کالج کے گیٹ میں داخل ہوئے تو سینئر اسٹوڈنٹس استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ مرحلہ ختم ہوا۔مجھے اورنگ زیب ونگ ملاتھا۔ایک بڑے کمرے میں لیجایا گیا، جسے ڈوم کہتے تھے۔اس میں ایک بیڈ،ایک میزاورنصف الماری الاٹ ہوئی۔ویسے انسٹھ سال کی عمرمیں بھی خیال ہے کہ انسان کے لیے حقیقت میں سامان اتناہی ضروری ہوتا ہے جتناکیڈٹ کالج میں ملاتھا۔ ایک بیڈسونے کے لیے۔ ایک میزپڑھنے کے لیے اورآدھی الماری سامان کے لیے۔باقی سب کچھ اضافی ہے۔ خیرہوسٹل کے اس لمبے سے کمرے میں بارہ اسٹوڈنٹ تھے۔

خالدمحمود،رضوان ہاشم،جلال ،حیدراوردیگرطالبعلم اردگردتھے۔خالدمحمودبہاولپورسے آیاتھا۔سب سے قد میں لمبااورسرخ وسفید تھا۔پہلے دن سب گھریاد آرہے تھے۔ سب خاموش سے تھے۔ اتنی دیرمیں گھنٹی کی آوازسنائی دی۔  پتہ چلاکہ اسے گھنٹی نہیں بلکہ ’’گونگ‘‘کہتے ہیں۔ اس کا مطلب تھاکہ میس میں جاکررات کاکھاناکھاناہے۔ڈوم کے کمانڈرنے بتایاکہ مخصوص ڈریس پہن کرجاناہے۔سخت گرمیاں تھیں۔ سفید قمیض،سفیدپینٹ اورنیلی کالج کی ٹائی۔

سب نے فوری طورپرنئے کپڑے پہن لیے۔مگر جب جوتے پہنے تومعلوم ہواکہ ان کے نیچے،لوہے کی چھوٹی چھوٹی چوبیں اورایڑی پرگھوڑے کی نعل جیسالوہے کاایک پرزہ سا لگا ہوا تھا۔دراصل یہ جوتے پریڈکے لیے تھے جوصبح شروع ہونی تھی۔ رضوان ہاشم نے جوتے پہن کر چلنے کی کوشش کی لیکن پھسلا اورفرش پرگرگیا۔ کھڑاہوا اور پھر دوبارہ گرگیا۔ہم سب کے ساتھ تقریباًایسے ہی ہوا۔

خالدنے بڑے اطمینان سے جوتے پہنے اوراکیلامیس کی طرف چل پڑا۔ہوسٹل سے میس تقریباً چھ سات منٹ کی مسافت پرتھا۔وہاں پہنچ کرمعلوم ہواکہ یہاں بھی فوجی طرزکی درجہ بندی ہے۔ٹیبلیں مخصوص تھیں۔ سینئرپہلے کھاناشروع کرینگے اورجونیئربعدمیں۔خالدکی نشست میزپر،میرے بالکل سامنے تھی۔وہ کھانا نہیں کھارہا تھا۔اچانک دیکھاکہ اس کی عینک کے شیشہ سے آنسوکے قطرے کھانے کی خالی پلیٹ پرگرنے لگے۔

دراصل خالد رورہاتھا۔حال سب کایہی تھا۔مگرہم میں سے کچھ بہادرنظر آنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔میرے ساتھ رضوان ہاشم بیٹھاہوا تھا۔اس نے خاموشی سے پلیٹ پربہت زیادہ کھانا ڈالا اور آرام سے کھانے لگ گیاتورضوان نے پلیٹ میں مزید کھانا ڈال لیا۔کسی تکلف کے بغیر خوب سیرہوکر کھانا کھایا۔ خالدکی پلیٹ خالی رہی۔وہاں چنداُداس سے آنسو تھے۔

واپسی پر رضوان ہاشم نے ہاسٹل میں اعلان عام کیاکہ اس کا منصوبہ ہے کہ کالج میں جتنی فیس،والدین نے جمع کرائی ہے۔اس فیس سے دگناکھاناکھائے گا،تاکہ پیسے پورے ہوسکیں۔اس کے خیالات کافی حدتک غیرمعمولی تھے۔رات کوسونے سے پہلے،کوئی دس منٹ کی بریک ہوتی تھی۔اس میں سلیپنگ سوٹ پہنناہوتا تھا۔رضوان ہاشم،جلدی سے سونے والے کپڑے پہن کر ڈوم کاایک چکرلگاتاتھا۔اس میں وہ منہ سے انتہائی عجیب وغریب آوازیں نکالتاتھا۔اپنے بازو،سراورپیرپھرکی کی طرح گھماتاتھا۔دراصل یہ ایک کارٹون شوکی نقل تھی جواگلے دوسال ہم مسلسل دیکھتے رہے۔ رضوان بچپن سے ہی پڑھائی میں بے حدسنجیدہ تھا۔ ڈاکٹربنااورفوج میں بریگیڈئیربن کرریٹائرہوا۔

بات خالدمحمودکی ہورہی تھی۔اس کے بال گھنگریالے تھے۔سب بچوں کاخیال تھاکہ اس طرح کے بالوں میں پانی داخل نہیں ہوسکتا۔اگلے دن جب ہم پڑھنے کے لیے اکیڈیمک بلاک گئے تومیرااورخالدکاسیکشن ایک ہی تھا۔ انگریزی زبان کے ماہرترین استاد،شفقت صاحب، ہمارے ٹیچر تھے۔پتہ نہیں کیاہوا۔شفقت صاحب نے خالد کو ’’چارلی‘‘ کاخطاب دیدیا۔آج تک نہیں سمجھ پایاکہ ایساکیوں ہوا۔ مگر خالدمحمود1972سے لے کرآج تک چارلی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

آٹھویں جماعت کے شروع کے دن تھے۔چارلی ہر شام کواپنے والدصاحب کوتین سے چارصفحات کاایک خط لکھتاتھا۔اسکابنیادی نکتہ ہوتاتھاکہ اے میرے والد، آپکو اپنابیٹاچاہیے یادولت چاہیے۔خط کامضمون کئی بار ہمیں بھی بتاتاتھا۔ایک بارہ سال کے بچے کی حیثیت سے دراصل اپنے گھرکوبے حدیادکرتاتھا۔سب کاخیال تھاکہ چارلی ہاسٹل میں نہیں رہ سکے گا۔کچھ دن بعدہم لوگ شام کو ’’گیمز‘‘ سے واپس آئے۔توایک انتہائی نجیب انسان، اورنگ زیب ونگ کی سیڑھیوں پرکھڑاتھا۔سرمئی رنگ کی شیروانی زیب تن کر رکھی تھی۔یہ خالدکے والدمحترم تھے۔بہاولپورمیں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسرتھے۔

ہائوس ماسٹرسے اجازت لے کر، خالد کو گرائونڈمیں لے گئے۔آدھاگھنٹہ سمجھاتے رہے کہ کیڈٹ کالج حسن ابدال پاکستان کابہترین تعلیمی ادارہ ہے۔اسے مت چھوڑو۔یہ تمہاری قسمت بدل دیگا۔چارلی کوبات سمجھ میں آگئی۔اس دن سے لے کرکالج کے آخری دن تک مکمل طورپرتبدیل ہوگیا۔انتہائی لائق طالبعلم تھا۔یقین فرمائیے،بارہ سال کی عمرمیں خواتین کے حقوق پردلیل سے تقریر کرتا تھا۔ حددرجہ جذباتی اورذہین انسان۔میری اس سے دوستی ہوئی جوآج تک قائم ہے۔

خالدمحمودکو’’تیرنا‘‘نہیں آتاتھا۔مصیبت یہ تھی کہ تیراکی سیکھنالازمی تھی۔ہرونگ کواس کے نمبرملتے تھے۔ اگر کوئی بچہ تیرنانہ سیکھ سکے توہاسٹل کے نمبرکم ہوجاتے تھے۔ ہائوس ماسٹرچاہتاتھاکہ تمام طالبعلم بہترین تیراک بنیں۔ چارلی کوسوئمنگ پول کے پانی سے بے حدگھبراہٹ ہوتی تھی۔ صدیقی صاحب،جواردوکے استادہونے کے ساتھ ساتھ ہائوس ماسٹربھی تھے۔انھوں نے سب کوتیراکی سکھانے کا بیڑا اُٹھایا۔طے پایاکہ سینئرتیراک پانی میں موجودہونگے۔ہم ایک ایک کرکے تالاب میں چھلانگ لگائیں گے۔ہاتھ پیر ماریں گے اورسینئر مددکرتے ہوئے ہمیں دوسرے کنارے تک لے جائیں گے۔سب نے ایساہی کیا۔

چارلی نے صاف انکارکردیاکہ مرجائیگا۔پانی میں چھلانگ نہیں مارے گا۔ ہائوس ماسٹرنے حکم دیاکہ اسے زورسے پانی میں دھکا دیدو۔ یہ تیرناسیکھ لے گا۔مگرچالی نہ مانا۔آخرمیں طے ہواکہ چارلی سوئمنگ پول سے ذرادور،دیوارسے دوڑکرآئیگا،پول میں چھلانگ مارے گااوردوسرے کنارے تک پہنچ جائیگا۔ خالد نے بالکل یہی کیا۔اس نے دیوارکے ساتھ کھڑاہوکر زوردار نعرہ لگایا۔دوڑتاہواسوئمنگ پول کے کنارے پہنچا۔وہاں سے یوٹرن لیا۔چھلانگ لگانے کے بجائے پھرواپس دیوار تک پہنچ گیا۔

ہائوس ماسٹرکاغصے سے رنگ سرخ ہوگیا۔ صدیقی صاحب نے زبردستی خالدکوپول میں پھینک دیا۔ خالدبڑی مشکل سے کنارے تک پہنچا۔مگراس چیزکافائدہ یہ ہواکہ ایک دومہینے میں چارلی سوئمنگ سیکھ گیا۔دومہینے میں یہ حالت ہوگئی کہ دوسرے بچوں کوتیرنے کے گُر بتاتا تھا۔ سیکنڈائیرتک پول کے سب سے اونچائی والے بورڈپرلیٹ جاتاتھااورپھرزورسے چھلانگ لگاتاتھا۔یہ بورڈ،پانی سے دس پندرہ فٹ بلندتھا۔خیرصدیقی صاحب نے ہم سب میں پانی کاخوف ختم کردیا۔ہم میں کچھ توبہترین درجے کے تیراک بن گئے۔ذاتی طورپرمجھے تیراکی کی عادت ہوگئی ہے۔آج تک ساراسال تیرتاہوں۔گرمیوں میں پنجاب کلب اورسردیوں میںسول آفیسزمیس میں، جہاں تالاب میں گرم پانی موجودہوتاہے۔

کیڈٹ کالج میں نئے طالبعلموں کادل لگانے کے لیے شروع شروع میں ایک میجک شوہوا۔آج تک یاد ہے۔جادوگر ایک ڈبے میں سے کاغذکے لمبے لمبے ٹکڑے نکالتا تھا۔جب لگتاتھاکہ ڈبہ خالی ہوگیاہے،تووہ ایک نعرہ لگاتا تھا۔One Moreیعنی’’ایک اور‘‘۔ رضوان ہاشم میرے ساتھ بیٹھاہواتھا۔جیسے ہی جادوگر نعرہ لگاتاتھا۔رضوان بھی زورسے نعرہ لگاتاتھا۔میجک شوتوجلدہی ختم ہوگیا۔ مگر رضوان،پورے پانچ سال اکثرکہتاتھا،ون مور،ون مور۔ 1972 سے 1977 تک ہم تمام طالبعلم ایک خاندان بن گئے۔یہ کیفیت آج تک ہے۔امجد،کامران،شاہدبشیر،علی حماداور دیگر تمام لوگ،ایک دوسرے سے ہروقت رابطے میں رہتے ہیں۔

چارلی جوہنسی مذاق اورقہقہوں کی وجہ سے جانِ محفل تھا۔اب بے حدسنجیدہ ساہو گیا ہے۔ اکثر اکیلا رہتا ہے۔مکمل طورپرتنہائی پسندہے۔آج بھی لگتاہے کہ کیڈٹ کالج کے میس کی خالی پلیٹ سامنے پڑی ہوئی ہے اوراس کی آنکھوں سے آنسوٹپک ٹپک کرپلیٹ پرگر رہے ہیں۔ غور سے دیکھاجائے،سمجھاجائے توانسان کی پوری زندگی،خالی پلیٹ کی طرح ہی ہوتی ہے۔ ادھوری،نامکمل اورتغیرسے بھرپور۔ مگریہ نکتہ سمجھانا اور سمجھنابے حدمشکل ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔