لندن میں ایک اجنبی

انتظار حسین  اتوار 2 جون 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

لیجیے اب ہم بھی لندن پلٹ بن گئے۔ یہ وہی عروس البلاد ہے جسے ہمارے بزرگ ولایت کہا کرتے تھے۔ پریوں پریزادوں کی دنیا کوہ قاف کے بعد یہ دوسرا نگر تھا جسے ہمارے بزرگوں نے کوہ قاف کی ٹکر پر ولایت کے طور پر جانا تھا۔ کبھی کوئی ان بزرگوں میں سے اس نگر میں جا نکلا تو حیراں حیراں واپس آیا اور اپنے نام کے ساتھ لندن ریٹرنڈ لکھنا شروع کردیا۔ مگر وہ زمانہ مدت ہوئی گزر گیا۔ اب تو ہر ایرا غیرا نے یہ رستہ دیکھ رکھا ہے۔ بلکہ اس سے پہلے اس زمانے میں جب لندن میں اردو مرکز قائم تھا اور الطاف گوہر اور افتخار عارف کی کوششوں سے پھل پھول رہا تھا ہم وہاں ان کے مہمان بن کر جا پہنچے تھے۔ مگر خیر اب کے تقریب اور تھی۔ اس کا رنگ کچھ اس طرح کا تھا۔ یعنی ہماری حد تک اس طرح کا تھا کہ جیسے قدرت کبھی ایسی فیاض ہوتی ہے کہ چھپڑ پھاڑ کر ملنے والی چیز مل جاتی ہے۔

بس ایسے ہی سان نہ گمان بُکر پرائز والوں کی طرف سے دس منتخب ادیبوں کا اعلان ہوا، ان میں ایک نام ہمارا بھی تھا۔کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ قرعۂ فال ایک اردو میں لکھنے والے کے نام پر کیسے نکل آیا۔ عجیب ثم العجب۔ مگر پتہ چلا کہ انھوں نے ایک انٹرنیشنل پرائز کی بھی طرح ڈالی ہے۔ یعنی انگریزی میں ناول افسانہ لکھنے والوں کے ساتھ ایسے لکھنے والوں کو بھی شمار کیا جاتا ہے جو اپنی اپنی زبان میں لکھتے ہیں۔ بشرطیکہ ان کی نگارشات انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہوں۔ ادھر اتفاق سے ہماری بھی کچھ کہانیاں اور ایک ناول ’بستی‘ انگریزی میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ اور اس ترجمہ شدہ ناول کا تازہ ایڈیشن اسی برس فرانسیس پریچٹ کے ترجمے کی صورت میں آصف فرخی کے دیباچہ کے ساتھ نیویارک ریویو بکس کی طرف سے شایع ہوا تھا۔ اس اشاعت کے ساتھ تو اسے پر لگ گئے اور وہ بُکر پرائز والوں کی نظروں میں آ گیا۔

تو لیجیے ہم نے لندن کے لیے رخت سفر باندھا اور بُکر پرائز کی تقریب میں شرکت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ آصف فرخی ساتھ تھے۔ یوں سمجھیے کہ کوا اندھیری رات میں دن بھر اڑا کیا اور شام ہوتے ہوتے لندن میں جا اترا۔ مگر ہمیں دردانہ انصاری نے پہلے ہی نوٹس دیدیا تھا کہ بُکر پرائز کی تقریب سے پہلے تمہیں ہماری طرف سے ناصر کاظمی کی یاد میں ہونے والی تقریب میں شریک ہونا ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ دردانہ انصاری کونسی شے ہیں۔ کیا پوچھتے ہو جب ہم پچھلی مرتبہ لندن گئے تھے تو بی بی سی میں انھیں دیکھا تھا بلکہ ایک پروگرام کی تقریب سے پورا دن ان کے ساتھ گزارا تھا۔ وہ ان کی کم سنی کا زمانہ تھا۔ برس تیرہواں یا کہ چودہ کا سن۔ مگر تب سے اب تک انھوں نے عمر کی اور ترقی کی کتنی منزلیں طے کر لی ہیں اور او بی ای بن گئی ہیں۔ تو وہ منتظم ہوئیں۔

باقی اردو کی کتنی مخلوق کہ اس شہر میں آباد ہے یہاں کس ذوق و شوق سے آئی بیٹھی تھی۔ بی بی سی کے پرانے دانوں کو تو ہم نے فوراً پہچان لیا۔ یاور عباس اور رضا علی عابدی۔ عابدی صاحب بی بی سی سے بھلے ہی ریٹائر ہو گئے ہوں مگر وہ اپنے قلم کے ساتھ اسی تیزی سے رواں ہیں۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا۔ مگر اس طرح کہ کرسی کوئی خالی نہیں تھی اور اس ہال کا ضابطہ کھڑے ہوکر شریک محفل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ اور ہاں جلسہ کے صدر ساقی فاروقی انھیں بھی اب پرانا دانہ ہی گردانو۔ اور باصر اور ان کی جیون ساتھی فرازہ، انھیں تو یہاں ہونا ہی تھا۔ ارے ہاں اس تقریب میں ناصر کاظمی پر شایع ہونے والی نئی کتاب ’ہجر کی رات کا ستارہ‘ کی رونمائی بھی ہو گئی۔ ناصر کے انتقال کے بعد احمد مشتاق نے اسے مرتب کیا تھا۔ اب نئے اضافوں کے ساتھ سنگ میل نے اسے شایع کیا ہے۔ اور ہاں بُکر پرائز فائونڈیشن کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ترودا سپریت نے بھی تو اس میں شرکت کی تھی۔

بُکر پرائز کی تقریب کا مختصر احوال یوں ہے کہ ایک اجلاس میں دسیوں منتخب ادیبوں نے اپنی اپنی نگارشات سے تھوڑا انتخاب کر کے سنایا۔ ہم نے یہ انتخاب ’بستی‘ سے کیا تھا۔ ہم نے کہا یہ انتخاب تو خود بُکر پرائز والوں کی طرف سے تھا۔ اسے پہلے ایک بی بی نے انگریزی میں سنایا۔ پھر ہم نے اردو میں سنایا۔

اختتامی تقریب بصد اہتمام البرٹ اینڈ وکٹوریہ میوزیم میں آراستہ ہوئی۔ یہاں انعام پانے والی کے نام کا اعلان ہوا۔ یہ امریکی ادیب لڈیا ڈیوس تھیں۔

مگر ادھر لندن سے پرے ایک اور شاندار تقریب ہمیں یاد کر رہی تھی۔ جسے فیسٹیول آف لٹریچر کا نام دیا گیا۔ ارد گرد سبزہ زار، درختوں، جھاڑیوں کا ہجوم، ان کے بیچ فیسٹیول والے خیمہ زن تھے۔ اچھی خاصی ایک ادبی بستی۔ ادیب قطار اندر قطار۔ رنگ رنگ کے ادیب، رنگ رنگ کی نشستیں، منتخب دس ادیبوں میں سے جتنے ادیب بھی یہاں مدعو تھے۔ ان میں ہم اور آصف فرخی بھی تھے۔ ایک تقریب اس طرح تھی کہ انعام یافتہ لڈیا ڈیوس، فرانسیسی ناول نگار افریقی نژاد ماری این جائے اور ہم۔ تینوں کو اپنی اپنی تحریروں سے اقتباسات سنانے تھے۔ ہمارا معاملہ یوں تھا کہ ہم ’بستی‘ سے اردو میں پڑھ رہے تھے اور پیچھے انگریزی ترجمہ کا سلسلہ چل رہا تھا۔

پھر ہمیں ایک قطار میں بٹھایا گیا جہاں ہماری کتابوں کے خریدار کتاب کے ساتھ نمودار ہو رہے تھے اور اپنے اپنے مصنف سے کتاب پر دستخط کرا رہے تھے۔

ہم نے اس فیسٹیول میں دو دن گزارے۔ وہاں سے مانچسٹر کا رخ کیا۔ جہاں باصر کاظمی اور میرے بھانجے مسعود اقبال ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ یعنی ایک یہ خاکسار اور دوسرے آصف فرخی۔

مانچسٹر خوب جگہ ہے۔ یہاں ایسی مخلوق اچھی خاصی تعداد میں جمع ہے جو ادب کی متوالی ہے۔ اردو میں لکھنا پڑھنا ان کا مشغلہ ہے۔ اردو کا کوئی لکھنے والا پاکستان سے یا ہندوستان سے ادھر آ نکلے تو ان کی عید ہو جاتی، ایسی عید منانے والے تو لندن میں بھی بہت نظر آتے ہیں۔ یہاں مانچسٹر میں ایک سے بڑھ کر ایک۔ بحث مستقل تیار۔

ارے اس شہر کا امتیاز ایک یہ بھی تو ہے کہ قریب ہی لیک سکیس ہے۔ یاروں کی تفریح گاہ اور یہیں آس پاس ورڈس ورتھ کی رہائش گاہ بھی ہے جو ڈو کاٹیج کے نام سے جانی جاتی ہے۔

فطرت کا یہ پجاری امنڈتے ہوئے سبزے اور گھنے درختوں کے بیچ کس اطمینان سے رہتا تھا۔ کسی دوست نے کاٹیج ہی کی حدود میں ایک ٹیلے کی طرف اشارہ کیا جو امنڈتے ہوئے سبزے کے درمیان گم نظر آ رہا تھا۔ کہا کہ ورڈ سورتھ وہاں جھاڑیوں کے بیچ بیٹھ کر لکھتا تھا۔

کیا خوب یہ مشاہیر تھے۔ رہنے کے لیے کیسے کیسے انھوں نے گھر بنائے تھے۔ اور اس قوم کو دیکھو کس طرح ان اجڑی رہائش گاہوں کی انھوں نے حفاظت کی ہے۔ انھیں سجایا بنایا ہے۔ میوزیم قائم کیے ہیں۔ ان پر رشک کرنے کو جی چاہتا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔