مسائل کاحل کیسے؟

مقتدا منصور  اتوار 2 جون 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

چند روز میں وفاقی حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدارکی منتقلی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔نئی حکومت کواپنے قیام کے ساتھ ہی کئی سنگین اندرونی اوربیرونی چیلنجزکا سامنا ہوگا۔جن میں سرفہرست توانائی کا بحران، معیشت کی زبوں حالی اورداخلی امن وامان کی ابتر صورتحال وغیرہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ اس سال تین اہم اورکلیدی ریاستی عہدے دار اپنے عہدوں کی مدت مکمل ہونے پر سبکدوش ہوں گے۔یہ سلسلہ ستمبر سے شروع ہوکر دسمبر میں تکمیل پذیر ہوگا۔

ان عہدوں پر تقرریوں سے میاں نواز شریف کی حکومت کے رجحانات اور ان کے آیندہ لائحہ عمل کا اندازہ ہوسکے گا۔ ساتھ ہی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی آنے والے چند برس انتہائی اہم ہیں،جن کا سلسلہ اسی سال شروع ہونے والا ہے۔جن میں سب سے اہم ایساف اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا ہے،جو اگلے برس یعنی 2014ء کے اوئل میں شروع ہوکر اسی سال کے آخر تک تکمیل پذیرہوگا۔اس دوران تقریباً80بلین ڈالر کا حساس جنگی سازوسامان کراچی کی بندرگاہ سے واپس جائے گا۔جس کی نگرانی اور بحفاظت ترسیل حکومت پاکستان کی ذمے داری ہوگی۔اس کے علاوہ نیٹو افواج کی روانگی کے بعد افغانستان میںقائم ہونے والے نئے سیٹ اپ کے ساتھ نارمل تعلقات کا قیام بھی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

پاکستان کو درپیش مسائل پیچیدہ اور حساس ضرور ہیں، ناقابل حل نہیں ہیں۔ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی بصیرت اور عزم کی ضرورت ہے۔پاکستان میں معاملات اور مسائل کے الجھنے کابنیادی سبب 65 برس کی غیر متوازن حکمرانی ہے، جس کی ذمے داری منتخب اور غیر منتخب دونوں ہی طرح کی حکومتوںپر عائد ہوتی ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت پارلیمانی جمہوریت ہمیں ورثے میں ملی۔مگرشایدہم جمہوری نظم حکمرانی کی نزاکتوںاور پارلیمانی اور صدارتی طرزحکومت کے فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے۔یہی سبب ہے کہ کانگریس کے صدرپنڈت جواہر لعل نہرونے اپنے لیے وزارت عظمیٰ کا انتخاب کیا، جب کہ مسلم لیگ کے صدر یعنی بابائے قوم نے گورنر جنرل بننے کو ترجیح دی۔

دوسرا فرق جو ان دونوں ممالک کے درمیان نظر آتا ہے، وہ بیوروکریسی کا کردار ہے۔ بھارت نے پارلیمانی جمہوری روایات کے مطابق روزِاول ہی سے بیوروکریسی کوریاست کے ایک ماتحت ادارے کے طورپر کنٹرول میں رکھنے کی کوششوں کا آغازکردیا تھا۔ جب کہ پاکستان میں بیوروکریسی پارلیمان اور منتخب حکومت کو جوابدہ ہونے کے بجائے براہ راست گورنرجنرل سے احکامات لینے کی پابند کردی گئی تھی۔بعض دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گورنر جنرل اپنے وزیر اعظم کے مقابلے میں سیکریٹری جنرل چوہدری محمدعلی کو زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میںپہلے دن ہی سے Politiciseہوگئی اوراس کی نظر میں منتخب حکومت اور پارلیمان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔

32برس تک اس ملک پر مسلط رہنے والی فوجی آمریتوں نے بھی اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور سیاسی جماعتوں کی کردار کشی کے لیے سول بیوروکریسی کو استعمال کیا، جس کے نتیجے اسے مزید Politiciseہونے کا موقع ملا۔فوجی آمریتوں کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے سیاستدانوں نے اپنے حلقوں میں اپنا اثر ونفوذ قائم رکھنے کے لیے علاقے میں من پسند انتظامی اورپولیس افسران کی تعیناتی اور قواعد وضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نچلے درجے کے اہلکاروں کی تقرریاں کرانے کا عمل شروع کیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اراکین کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے دو بدعتیں شروع کیں۔ ایک تو ہر رکن قومی وصوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت کا سلسلہ شروع کیااوردوسرے سرکاری ملازمتوں میں ہر رکن اسمبلی کا کوٹا مخصوص کردیا۔ جس کے نتیجے میں پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ تعلیم اور صحت جیسے شعبوںمیںبھی سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کا آغاز ہوا۔ان اقدامات کے نتیجے میں پورا ریاستی نظام تنزلی کی طرف مائل ہوگیا۔آج صورتحال یہ ہے کہ ریاستی انتظام کاکوئی بھی شعبہ اور محکمہ ایسا نہیں جوPoliticiseنہ ہوچکاہو اور جہاں کرپشن اور بے قاعدگیاں نہ ہورہی ہوں۔

اسوقت صورتحال یہ ہے کہ عوام نے قائم ہونے والی نئی حکومت سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔خاص طورپر توانائی کے بحران کو ختم یاکم کرنے، معیشت کو اس کے پائوں پر کھڑا کرنے اور دہشت گردی کے چنگل سے ملک کو نکالنے کے حوالے سے جو توقعات وابستہ ہیں،ان کے پورا ہونے کا انحصار مسائل کی ترجیحات کے تعین اور ان کے حل کی حکمت عملی کے علاوہ انتظامی مشنری کی فعالیت پر ہے۔کیونکہ حکومت جوحکمت عملی تیار کرتی ہے،اس پر عملدرآمد انتظامی مشنری کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک ایسی نااہل اوربدعنوان انتظامیہ حکومت کی تیار کردہ حکمت عملی پر اس کی روح کے مطابق عمل کرسکے گی؟ایسی انتظامیہ جس پر دیگر بیشمار الزمات کے علاوہ حال ہی میں ایک ادارے کے پلاٹوں کی بندر بانٹ کے سنگین الزامات بھی سامنے آئے ہوں،کیا بہتر کارکردگی دکھاسکے گی؟اس کے علاوہ کیا اراکین اسمبلی انتظامیہ میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت نہیں کریں گے، جس کی بدولت وہ انتخابات میں کامیابی کے لیے ہر جائز وناجائز طریقہ استعمال کرتے ہیں؟اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے،تو عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں۔

اب دوسری طرف آئیے ! جدید دنیا میں وفاقی یا مرکزی حکومت کوبیشمار عالمی اور علاقائی چیلنجزکاسامناہوتا ہے،جن کے باعث اس کے لیے ثانوی نوعیت کے معاملات میں الجھناممکن نہیں ہوتا۔اسی طرح صوبائی حکومت کوبھی صوبائی سطح کے امور نمٹانا ہوتے ہیں، چنانچہ دنیا بھر میں مقامی حکومتیں نچلی سطح کے ترقیاتی معاملات کو حل کرنے ، عوام کو فوری ریلیف دینے اور ان سے براہ راست رابطہ کااہم ترین ذریعہ ہوتی ہیں۔ پاکستان کواس وقت جن انگنت مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے بیشتر ایسے ہیں، جن کوحل کرنے کی ذمے داریاںتفویض کرنے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوںکو اہم قومی اور صوبائی نوعیت کے امور پر توجہ دینے کا موقع مل سکتاہے۔ اس لیے حکومت کی دیگر مسائل کے ساتھ مقامی حکومتی نظام کی تشکیل بھی پہلی ترجیح ہونا چاہے۔

ویسے بھی اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کا تصور ضلعی حکومتوں کے قیام کے بغیرممکن نہیں ہے۔یہاں یہ کہنابھی ضروری ہے کہ بیشک بلدیاتی نظام صوبائی سبجیکٹ ہوگیاہے ،لیکن ملک میں یکساں بلدیاتی نظام کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،کیونکہ اس کے بغیر بیشمار قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہمارے سامنے بھارت کی مثال ہے،جہاں بلدیاتی نظام صوبائی سبجیکٹ ہے، لیکن پورے بھارت میں یکساں بلدیاتی نظام کے قیام میں وہاں کی مرکزی حکومت نے کلیدی کرداراداکیا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بیوروکریسی کی بدعنوانیوںاوربے قاعدگیوں پرمقامی حکومتی نظام کے ذریعہ قابو پانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔اس لیے دیگرمسائل کے لیے تیارکی جانے والی ترجیحی فہرست میں مقامی حکومتی نظام کو بھی شامل کیاجانا ضروری ہے۔

اب جہاں تک قومی سطح پر اتفاق رائے کا تعلق ہے،توسابقہ حکومت نے اس سلسلے میں خاصی پیش رفت کی ہے۔اس میں شک نہیں کہ پیپلزپارٹی کی جانے والی وفاقی حکومت عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں دے سکی۔ لیکن اس کے باوجوداس نے قانون سازی میں خاصی پیش رفت کی اور بہت سے پیچیدہ آئینی وقانونی مسائل کو حل کرکے جمہوری اداروں کو ایک واضح سمت دینے کی بہر حال کامیاب کوشش کی، جن میں اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم کی متفقہ منظوری، NFC ایوارڈ پراتفاق رائے پیدا کرناایک بڑی کامیابی تھی۔اس کے علاوہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کی تشکیل کا فارمولہ طے کرنے کا کریڈٹ بھی اسے حاصل ہے۔ اب یہ مسلم لیگ(ن) کی ذمے داری ہے کہ وہ ان معاملات کو آگے بڑھائے اور پارلیمان کی فیصلہ ساز حیثیت کو مزید مستحکم کرے۔

لہٰذاہم سمجھتے ہیں کہ اب جب کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو پرامن انتقال اقتدار کی روایت شروع ہوگئی ہے۔ میاں نواز شریف کی قائم ہونے والی نئی حکومت اس عمل کو مزید تقویت دیں گے اور ایسے اقدامات کرے گی، جن کے نتیجے میں ایک طرف عوام کو فوری ریلیف مل سکے اور دوسری طرف ان کے دیرپا اثرات ہوں۔ اس سلسلے میں پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری اور خطے کی صورتحال کے مدنظر خارجہ پالیسی میں کلیدی تبدیلیاں اپنی جگہ اہم اور ضروری ہیں۔ لیکن عوامی سطح کے مسائل کے حل کے لیے انھیں ایک طرف تمام صوبوں کو جلداز جلد ایک متفقہ بلدیاتی نظام پر راضی کرنے کے علاوہ ریاستی انتظامی اداروں اورنوکرشاہی کوDepoliticiseکرنے پربھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ کیونکہ اس کے بغیرکیے گئے اقدامات کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔اس میں شک نہیں کہ یہ ایک کٹھن اور دشوارگذار کام ہے،مگر ناممکن نہیں ہے۔لہٰذا حکومت کے مستقبل کے رجحانات اورآنے والے دنوںمیںاس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ اس کے آیندہ چند روز میں کیے گئے اقدامات سے کیا جاسکتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔