مفاہمتی پالیسی کا کلائمیکس

ظہیر اختر بیدری  اتوار 2 جون 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

مفاہمت ویسے تو ایک عمومی لفظ ہے جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک اور قومی زندگی سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی معنویت پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا لفظ اپنے اندر بڑے گہرے مضمرات رکھتا ہے، مفاہمت کا دوسرا رخ مخاصمت ہے اور مخاصمت ایک ایسا فتنہ ہے جو انفرادی زندگی میں گھس آتا ہے تو گھر ہی اجاڑ دیتا ہے، اجتماعی زندگی میں در آتا ہے تو معاشرے کے تار پود بکھیر دیتا ہے اور بین الاقوامی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو امن کو غارت کردیتا ہے، اس پس منظر میں ہم مفاہمت کو رد مخاصمت کا نام دے سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں بھی مفاہمت کا لفظ بہت مقبول ہے لیکن پاکستان میں یہ لفظ ہماری سیاست میں اس وقت سے غیر معمولی طور پر مقبول ہوا جب سابق صدر مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او کے نام پر مفاہمت کو متعارف کرایا گیا۔ مفاہمت کا ایک استعمال عوامی بھلائی کے لیے ہوتا ہے اور ایک استعمال سیاست دانوں اور حکمرانوں کی بھلائی کے لیے ہوتا ہے۔ مشرف اور بے نظیر کے درمیان مفاہمت کو دونوں کے مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ مشرف اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے جس کے لیے انھیں بے نظیر کی مدد درکار تھی، بے نظیر اپنی طویل جلاوطنی اور بے شمار مقدمات سے نکلنا چاہتی تھیں سو ان کا این آر او یا مفاہمت ان دونوں کے سیاسی مفادات کی ضرورت تھا۔

میثاق جمہوریت نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان ایک مفاہمتی معاہدہ تھا، اگرچہ اس معاہدے پر قومی مفادات کا غلاف ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت ہی تھی کہ یہ معاہدہ دراصل دونوں سیاسی رہنماؤں کا مشرف کے خلاف معاہدہ تھا جس کا مقصد مشرف کی طرف سے دونوں پر لگائی گئی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کی آزادی حاصل کرنا تھا۔ یہاں سوال پھر یہ آتا ہے کہ اس معاہدے کا مقصد عوامی مفادات تھا یا دونوں رہنماؤں کا سیاسی مفاد تھا؟

صدر زرداری نے جب اقتدار سنبھالا تو انھیں محسوس ہوا کہ مخالفتوں اور مخاصمتوں کی اس بھیڑ میں ان کے لیے سکون سے حکومت کرنا اور اپنے پانچ سال پورے کرنا مشکل ہے، سو ان کے ذہن رسا نے مفاہمت کی پالیسی کو متعارف کرایا، ایک طرف انھوں نے قومی سطح پر مسلم لیگ (ن) سے مفاہمت کی سیاست شروع کی تو دوسری طرف سندھ میں انھوں نے متحدہ، اے این پی سے مفاہمتی سیاست کا آغاز کیا لیکن چونکہ اس مفاہمت کی بنیاد سیاسی مفادات تھے لہٰذا مسلم لیگ ساتھ چھوڑ گئی اور متحدہ اور اے این پی سے محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رہا، عوامی مفادات پس منظر میں چلے گئے۔

آصف علی زرداری نے اپنی مفاہمتی پالیسی کے نتیجے میں اپنے پانچ سال مکمل کرلیے لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے انھیں علی بابا چالیس چور کا ٹائٹل ملا۔ 11 مئی 2013 کے انتخابات میں میاں برادران کو پنجاب میں اکثریت حاصل ہوئی اور مرکز میں وہ بغیر کسی کی مدد کے حکومت بنا سکتے تھے لیکن میاں صاحبان نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ذمے داری سے بڑی مفاہمتی پالیسی کا اعلان کیا ہے، اسی اعلان کے نتیجے میں انھوں نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حکومت بنانے کے حق کی حمایت کی حالانکہ اگر وہ چاہتے تو توڑ جوڑ کے ذریعے اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرسکتے تھے۔کیا میاں برادران کی یہ اچھی روایت کے پیچھے خیبرپختونخوا کے عوام کی بھلائی ہے یا ان کے دوررس سیاسی مفادات کی ضرورت؟ اس سوال کو ہم یہیں چھوڑ کر ذرا آگے بڑھتے ہیں۔

عمران خان نے خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے تعاون سے حکومت سازی شروع کی۔ سب سے پہلے خود تحریک انصاف میں وزارت اعلیٰ کے حصول کی لڑائی شروع ہوئی اور تحریک دو ٹکڑوں میں بٹ گئی بہرحال عمران خان نے پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ سرٹیفکیٹ دے دیا۔ یوں یہ مسئلہ حل ہوا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزارت اعلیٰ کی اس لڑائی کے پیچھے تحریک انصاف کے دو دھڑوں کے سیاسی مفادات تھے یا خیبر پختونخوا کے قریب عوام کی بھلائی کا کوئی پہلو جنہوں نے بڑی امیدوں سے تحریک کو ووٹ دیے تھے؟ چلیے اس سوال کو بھی یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے خیبرپختونخوا کی حکومت میں شمولیت کے لیے دو وزارتیں طلب کیں ایک وزارت خزانہ دوسری وزارت تعلیم، دوسری اتحادی جماعت کی بھی وزارتی ڈیمانڈ پوری کی گئی۔ کیا اتحادی جماعتوں کی طرف سے مختلف اہم وزارتوں کے مطالبے کے پیچھے ان کے سیاسی مفادات ہیں یا عوام کی بھلائی؟

کراچی اور سندھ میں دھاندلیوں کے نام پر ایک شور بپا ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی اتحادی جماعت اسلامی دھرنوں میں تحریک انصاف کے ساتھ ہے، جماعت اسلامی کو عوام کی یہاں کوئی نمایندگی نہیں ملی لیکن وہ زوروشور سے دھرنوں مظاہروں میں حصہ لے رہی ہے۔ اندرون سندھ بدقسمتی سے قوم پرستوں کو عوام نے مسترد کردیا لیکن وہ 10 جماعتی اتحاد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے خلاف دھرنوں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، کیا یہ سب سیاسی مفادات میں ہورہا ہے یا اس کے پیچھے عوامی مفادات ہیں؟ میاں برداران سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جتن بھی کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے خلاف قوم پرستوں کی حمایت بھی کر رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ سندھ میں پی پی پی اور متحدہ کے مینڈیٹ کو تسلیم بھی کر رہے ہیں۔ کیا یہ رویہ سیاسی مفادات کی ضرورت ہے یا اس کے پیچھے عوام کے مفادات کار فرما ہیں؟

بلوچستان ایک قیامت خیز صوبہ ہے جہاں قتل و غارت کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ اس صوبے میں انتخابات کے امکانات بہت کم تھے لیکن بہرحال نہ صرف انتخابات ہوگئے بلکہ ساری جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ کسی بلوچ جماعت کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں ملا۔ مسلم لیگ (ن) نے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما پر حملہ ہوا اور ان کے خاندان کے لوگ اس حملے میں مارے گئے، مسلم لیگی رہنما ثناء اﷲ زہری نے اختر مینگل ان کے والد کے خلاف قتل کا پرچہ کٹوادیا۔ یہاں ابھی تک حکومت نہیں بن سکی لیکن بن جائے گی۔ اختر مینگل کو شکایت ہے کہ انھیں ایک سازش کے ذریعے ہرایا گیا یہاں بھی دھاندلیوں کے خلاف شور شرابہ جاری ہے۔ کیا یہ سارا سیاسی کھیل ہے یا اس کے پیچھے عوام کا دکھ درد ہے؟ میاں برادران عمران خان کے سب سے بڑے حریف تھے، دونوں ایک دوسرے کو ایسی ملاحیاں سناتے کہ عوام بے چارے حیرت سے اپنی انگلیاں منہ میں دبا لیتے، عمران خان کسی قیمت پر میاں صاحب سے دوستی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ میاں برادران کی روایتی اعلیٰ ظرفی جوش میں آئی وہ عمران خان کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے، اس مزاج پرسی نے دونوں کے سارے اختلافات دھو دیے، دونوں نے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کیا۔ کیا یہ اعلان ان کے سیاسی مفادات کی ضرورت تھا یا اس کے پیچھے عوام کے مفادات کار فرما تھے؟

پاکستان کی 1988 کے بعد کی تاریخ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی سب سے بڑی حریف رہی، یہیں زرداری کے خلاف مقدمات اور زرداری کی طویل ترین قید کی ذمے داری میاں برادران پر عائد کی جاتی رہی ہے۔ میاں برادران کی حکومت کے دوران آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کی ذمے داری سیف الرحمن پر ڈالی گئی اور سیف الرحمن نے  بیرون ملک اس کی تحقیقات پر قوم کے کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے۔ میاں برادران آج ملک جن سنگین مسائل کا شکار سے اس کی ساری ذمے داری زرداری حکومت پر ڈالتے رہے ہیں،  لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چینی وزیراعظم کی دعوت میں زرداری سے نواز شریف کی ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات نے سارا نقشہ ہی بدل ڈالا، دونوں رہنماؤں نے ماضی کے سارے اختلافات بھلا کر مستقبل میں ایک ساتھ چلنے کا اعلان کردیا۔ یہ این آر او اور میثاق جمہوریت سے شروع ہونے والی مفاہمتی پالیسی کا کلائمیکس ہے۔ کیا ان سارے افسانوں میں سیاسی مفادات کارفرما ہیں یا عوام مفادات مفاہمتی پالیسی کے یہ دو پہلو ہیں۔ اب یہ عوام کی ذمے داری ہے کہ سنجیدگی سے اس کا جائزہ لیں اور ہماری سیاست کا اصلی چہرہ تلاش کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔