مذاق مذاق میں

وجاہت علی عباسی  اتوار 2 جون 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کچھ عجیب سا ماحول ہوجاتا ہے جب امریکا انگلینڈ جیسی جگہوں پر کوئی بھی سانحہ ہوتا ہے اوراس کی وجہ ’’اسلامک دہشت گردی‘‘ بتائی جاتی ہے، اسلام کو مغربی میڈیا پھر کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیتا ہے، نہیں ایسا نہیں ہے کہ کھل کر کوئی بھی بات اسلام کے خلاف ہو رہی ہوتی ہے لیکن اٹیک کرنے والے کا نام بار بار اسلام سے جوڑے جانے پر کئی لوگوں کے لیے اسلام اس شخص کی نہیں وہ شخص اسلام کی پہچان بن جاتا ہے۔

ہم نیویارک کے ایک ہوٹل کی لابی میں بیٹھے کسی کا انتظار کر رہے تھے وہاں لگے ٹی وی کے سامنے لوگوں کا ہجوم جمع ہونے لگا۔ ٹی وی پر خبر کہ بوسٹن میراتھون میں بم پھٹا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سانحے کے بارے میں مزید معلومات یا جانکاری کے بجائے آج ویسٹرن دنیا میں رہنے والے ہر مسلمان کے دل میں ایسی کوئی بھی خبر سن کر پہلا خیال یہ آتا ہے کہ کاش یہ اٹیک کسی مسلمان نے نہ کیا ہو ورنہ پھر میڈیا کئی دن تک اسلام اور ٹیررسٹ کو جوڑتا رہے گا۔

اگر کوئی گورا مسجد پر حملہ کردے تو وہ خبر، خبر نہیں ہوتی چھوٹے موٹے ٹی وی چینلز کے سوا کوئی اسے گھاس نہیں ڈالتا، کچھ دن پہلے راجراسٹاکہم نامی ایک تریسٹھ سالہ ریٹائرڈ آرمی آفیسر بارود سے بھری گاڑی کو ڈیٹورائڈ کی سب سے بڑی مسجد اسلامک سینٹر آف امریکا ڈیئربارن پر حملہ کرنے کی نیت سے پہنچا جہاں سات سو لوگ نماز جنازہ پڑھنے جمع ہوئے تھے۔

آپ کو جان کر شاید حیرانی ہوگی کہ فیصل شہزاد نامی پاکستانی جس نے گاڑی میں بارود بھر کر کچھ سال پہلے ٹائمز اسکوائر پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی وہ اتنا کچا تھا کہ اس کی گاڑی میں موجود بارود عام دکان سے خریدا گیا تھا جو امریکا میں کسی سے بھی خریدنا قانونی ہے اور جس کو خطرناک بھی نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن راجر کی گاڑی میں غیر قانونی اور خطرناک بارود تھا۔

سات سو لوگوں کی قسمت اچھی اور راجر کی قسمت بری تھی کہ ایک رات پہلے شراب کے نشے میں دھت ہوکر ایک بار میں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف اپنا پلان وہاں سب کو بتادیا اور لوگوں نے پہلے ہی پولیس کو راجر کے بارے میں آگاہ کردیا، راجر حملہ کرنے پہنچا اور پکڑا گیا۔ سات سو لوگوں کی جان لینے والے راجر کی خبر دب گئی لیکن یہی کوشش کوئی مسلمان کرتا تو اس کی تصویریں ہر اخبار اور نیوز چینلز کی ہیڈلائنز میں ہوتیں۔

مسلمانوں کے نام کو میڈیا میں زیادہ اچھالنے کے ٹرینڈ کی وجہ سے ہر سانحے کے بعد عام امریکن اور برٹش کا مسلمانوں کی طرف دیکھنے کا نظریہ بدل جاتا ہے۔ ایک عجیب سا تناؤ آپ اپنے لیے محسوس کرسکتے ہیں جب خبریں کہتی ہیں کہ بوسٹن میں حملہ کرنے والے مسلمان تھے اور یہ حملہ جس کو دیکھ کر کوئی بھی آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ یہ کوئی بہت منظم یا ویل پلانٹیڈ حملہ نہیں تھا اس کے باوجود اس کی ذمے داری پوری مسلمان قوم کو اٹھانی پڑتی ہے بوسٹن کے میراتھون حملے کو کچھ دن گزر گئے اور لوگوں کے ذہنوں سے یہ واقعہ محو ہونا شروع ہوگیا ۔ امریکا میں مسلمانوں کو مڑ مڑ کر دیکھنا بھی کم ہوگیا لیکن پھر لندن والی وہ ویڈیو آگئی جس میں دو آدمی ایک نہتے انسان کو سڑک پر مار کر کیمرے کے سامنے یہ بتا رہے تھے کہ انھوں نے اس آدمی کو اس لیے مارا کیوں کہ ان کی “Land” یعنی مسلمانوں کی سرزمین پر مرنے والے کی قوم ظلم کر رہی ہے۔

انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان پاکستان میں رہتے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں سب سے زیادہ متاثر بھی پاکستان ہوا ہے، نہ ہی حملہ کرنے والے کا تعلق پاکستان سے ہے اور نہ ہی کسی پاکستانی نے ان سے کہا تھا کہ کسی نہتے پر ہمیں انصاف دلانے کے لیے وار کرو پھر بھی وہ اپنے چاقو چھری لے کر کسی کو قتل کرکے خود کو مسلمانوں اور اسلام کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش میں ہماری لیے مصیبت پیدا کردیتے ہیں۔

کچھ سال پہلے ہمارے ایک جاننے والے جذبات میں آکر بوسنیا مسلمانوں کی مدد میں جہاد کرنے پہنچ گئے تھے وہاں پہنچنے پر بتایا گیا کہ آپ کے پاس بوسنیا کا ویزہ نہیں ہے آپ ملک میں داخل نہیں ہوسکتے وہ حیران رہ گئے۔ انھوں نے کہا میں تو جہاد کرنے آیا ہوں۔ جواب ملا ’’جہاد بعد میں کرنا پہلے ویزہ لاؤ‘‘۔ بس یہی لندن میں قتل کرنے والے خود کو ’’مسلمانوں کے لیے انصاف کر رہا ہوں‘‘ سمجھنے والوں کا معاملہ ہے۔ جہاد کے نام پر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی غلط حرکتوں کو سب قبول کریں، لندن کے حملے کے بعد ہم نے درجنوں امریکنز کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بوسنیا یا لندن میں حملہ کرنے والے کسی بھی طرح مسلمانوں کی نمایندگی کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کے حملے کوئی جہاد نہیں صرف جرم ہیں اور سب سے زیادہ مسلمان تو پاکستان میں رہتے ہیں جن کا گلوبل پیغام صرف امن ہے۔

ہم صبح شام پاکستانیوں کا تاثر امریکا میں بہتر کرنے کے لیے امریکا میں امن کے کبوتر اڑا رہے تھے، جب ہمارے اپنے پاکستانیوں نے ثابت کردیا کہ ہم بھروسے کے قابل ہی نہیں ہیں ہماری طرف شک سے دیکھنا بالکل صحیح ہے، لندن حملے کے بعد جب سب پاکستانی مسلمانوں کو پتہ تھا کہ اس وقت ہر جگہ خصوصاً انگلینڈ میں ہماری طرف شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے ہماری طرف سیکیورٹی الرٹ ہے اس وقت انھوں نے اپنا نام خراب کرنے کا موقع بالکل جانے نہیں دیا۔ مئی چوبیس کو پی آئی اے کی لاہور سے مانچسٹر کو جانے والی پرواز پی کے 709 میں دو پاکستانی خاندانوں کے درمیان تو تو میں میں ہوگئی ایک دو نہیں آٹھ دس لوگ غصے میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے جب فلائٹ کے عملے نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا بیچ میں مت آؤ، ہم جہاز کو بم سے اڑا دیں گے جس کے بعد پائلٹ نے مانچسٹر ایئرپورٹ پر یہ خبر پہنچائی اور جہاز فائر جیٹ کے ساتھ دوسرے ایئرپورٹ پر اتار کر ان پاکستانی جھگڑا کرنے والوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

اس واقعے کی وجہ سے انگلینڈ کے کئی ایئرپورٹس پر Delays ہوئے اور ہزاروں مسافروں کو ان پاکستانیوں پر شدید غصہ آیا ۔ اس واقعے سے ہم نے یہ ثابت کردیا کہ ہم وہ قوم ہیں جسے تمیز نہیں اور نہ ہی اپنے غصے پر کنٹرول۔ گرفتار ہوئے لوگوں سے جب بم کے متعلق تفتیش ہوئی تو انھوں نے کہا ’’ہم تو مذاق کر رہے تھے‘‘ بس یہی وہ مذاق ہے جس کی وجہ سے ان کی قوم کے ہزاروں باصلاحیت لوگوں کو ملٹی نیشنل میں نوکری نہیں ملے گی، فارن یونی ورسٹیوں میں داخلے میں مشکلات ہوں گی اور ایئرپورٹس پر گھنٹوں تلاشی کے لیے روکا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔