ہے کارِایوان چلانا جس کا منصب

محمد عثمان جامعی  اتوار 2 جون 2013
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکرز کی تاریخ پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکرز کی تاریخ پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل

اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ ملک کے باوقار ترین مناصب میں سے ایک ہے۔ قوم کے منتخب نمائندوں کے اجلاسوں کی صدارت پر مامور اسپیکر اجلاس کی کارروائی چلاتا اور ارکان کو قواعد وضوابط کا پابند بنائے رکھتا ہے۔

صدر کی جانشین کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ جب صدر کا عہدہ کسی وجہ سے خالی ہو جائے یا صدر کسی بنا پر اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرپائے یا ملک سے باہر ہو توچیئرمین سینٹ صدر کے فرائض انجام دیتا ہے اوراگر کسی بنا پر چیئرمین سینٹ بھی میسر نہ ہو تو یہ ذمہ داری اسپیکر کو ادا کرنا ہوتیہے۔ مرتبے کے اعتبار سے اسپیکر صدرِمملکت، وزیراعظم اور سینیٹ کے چیئرمین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ اسپیکر کے منصب کے لیے عموماً کسی سینیر پارلیمنٹرین کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو بالغ نظر، بُردبار اور قائدانہ صلاحیت کا حامل ہو۔

اسپیکر قومی اسمبلی بہت اہم ذمے داریاں سرانجام دیتا ہے۔ ایوانِ زیریں کے اجلاسوں کی صدارت اور حسبِ ضرورت قائم مقام صدر کے فرائض نبھانے کے ساتھ آئین کے تحت اس کی ذمے داریوں میں ایوان میں نظم وضبط قائم کرنا، آئینی معاملات اور مناقشوں کو نمٹانا، قواعد وضوابط کے خلاف بولے جانے والے جملوں اور الفاظ پر ایکشن لینا اور ایسا کرنے پر رکن اسمبلی کو خاموش کرانا، اجلاس کی کارروائی کے دوران اراکین کو کسی بھی ایسے عمل سے باز رکھنا جو قواعد اور قوانین کے خلاف ہو، اس حوالے سے حکم کی خلاف ورزی پر اسپیکر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ خلاف ورزی کرنے والے رکن کو ایوان سے باہر بھیج دے۔ وہ ایوان میں معاملات چلانے میں مکمل بااختیار ہوتا ہے۔ اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں بھی اسپیکر اپنے عہدے پر برقرار رہتا ہے اور اس منصب پر کسی دوسرے فرد کے منتخب ہوجانے تک وہی اسپیکر رہتا ہے۔

پاکستان میں جہاں سیاست اور حکومتوں کی تاریخ سیاہیوں میں لتھڑی ہوئی ہے وہیں ہماری اسپیکرز کا کردار اور فرائض کے حوالے سے رویہ ایک روشن تاریخ رکھتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے قانون ساز ادارے کے اجلاس کی صدارت کے ساتھ پاکستان میں اس عہدے کی ذمے نبھانے کی ابتدا کی۔ ان کی وفات کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست داں قومی اسمبلی کے پہلے اسپیکر منتخب ہوئے۔ وہ اس منصب پر 14دسمبر 1948تک فرائض انجام دیتے رہے۔

1954کے ایک سیاہ دن جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اسمبلی توڑ کر جمہوریت کا قتل کیا، تو ایک بہ اصول اور جرأت مند سیاست داں اور آئین کے محافظ اسپیکر کی حیثیت سے مولوی تمیز الدین میدان میں آگئے اور انھوں نے گورنر جنرل کے اس جمہوریت دشمن اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سندھ کی عدالتِ عالیہ نے مولوی تمیزالدین کی درخواست پر ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے گورنرجنرل کے اقدام کو غیرآئینی قرار دے دیا۔ تاہم گورنرجنرل نے اپنے اقدام کو حق بہ جانب قرار دلوانے کے لیے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کردی، جہاں سے اس اقدام کے حق میں فیصلہ آگیا۔ بہ طور اسپیکر مولوی تمیز الدین کا یہ بروقت اور جرأت مندانہ اقدام ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔

مولوی تمیز الدین کا بعد یہ منصب عبدالوہاب خان کے حصے میں آیا، ان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ 12  اگست کو اس عہدے پر فائز ہوئے اور 7 اکتوبر 1958تک بہ طور اسپیکر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کے بعد ایک بار پھر مولوی تمیز الدین نے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر کا منصب سنبھالا۔ وہ 6  نومبر 1962سے19 اگست 1963تک اس عہدے پر فائز رہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ سنبھالنے والے پانچویں فرد فضل القادر چوہدری تھے۔ انھوں نے 29 نومبر 1963 کو یہ منصب سنبھالا اور 12 جون 1965تک اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔

قومی اسمبلی کے چھٹے اسپیکر عبدالجبار خان تھے۔ وہ 12جون 1965سے 25مارچ 1969 تک بہ حیثیت اسپیکر قومی اسمبلی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ عبدالجبار خان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس عہدے پر فائز ہونے والے پانچویں شخص ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ وہ 4اپریل 1972سے 12اپریل 1973تک قومی اسمبلی کی صدارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کے بعد 15 اگست 1972سے 7 اگست 1973تک فضل الٰہی چوہدری نے قومی اسمبلی کی صدارت کی ذمے داریاں انجام دیں۔ بعدازاں انھوں نے بہ طور صدرپاکستان بھی فرائض ادا کیے۔ ایوانِ زیریں کے نویں اسپیکر صاحب زادہ فاروق علی تھے۔ انھوں نے 9اگست 1973کو یہ منصب سنبھالا اور 27مارچ 1977تک اپنی ذمے داریاں ادا کیں۔

قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ سنبھالنے والے دسویں شخص ملک معراج خالد تھے۔ وہ اس عہدے پر 27 مارچ 1977سے 5جولائی 1977 تک بہ طور تک فرائض انجام دیتے رہے۔ قومی اسمبلی کے گیارہویں اسپیکر سید فخرامام تھے۔ وہ 22مارچ 1985سے 26 مئی 1986 تک قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے۔ حکومت سے اختلاف کی بنا پر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر انھیں اس منصب سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ حامد ناصر چٹھہ اسپیکر منتخب ہوئے، جو31مئی 1986سے   3 دسمبر 1988تک فرائض انجام دیتے رہے۔ مولوی تمیزالدین کی طرح معراج خالد بھی دو بار اسپیکر منتخب ہوئے۔ ان کی دوسری مدت 3 دسمبر 1988سے 4 نومبر1990تک محیط تھی۔ متوسط طبقے سے تعلق اور دیانت، متانت اور شرافت کے حوالوں سے پہچانے جانے والے ملک معراج خالد ملک کے نگراں وزیراعظم بھی رہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر کا منصب سنبھالنے والے چودہویں فرد گوہر ایوب خان تھے۔ وہ 4 نومبر 1990سے 17اکتوبر 1993تک اس منصب پر فائز رہے۔ قومی اسمبلی کے پندرہویں اسپیکر ہونے کا اعزاز یوسف رضا گیلانی کو ملا، جو 17اکتوبر1993سے 16فروری1997تک اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ قومی اسمبلی کے سولہویں اسپیکر سنیئر سیاست داں الٰہی بخش سومرو تھے۔ وہ 16فروری 1997سے 20اگست2001 تک اس منصب پر فائز رہے۔ چوہدری امیر حسین قومی اسمبلی کے سترہویں اسپیکر منتخب ہوئے اور 19نومبر 2002 سے 19مارچ 2008 تک اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ فہمیدہ مرزا کو ملک کی پہلی خاتون اسپیکر ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ وہ 19مارچ 2008 کو اسپیکر منتخب ہوئیں اور آج نئے اسپیکر کے انتخاب کے ساتھ ہی ان کی مدت ختم ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔