ایک مودبانہ گزارش

مقتدا منصور  جمعرات 20 ستمبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وطن عزیز بدترین آبی بحران کا شکار ہے، جو اقوام متحدہ کے ادارے UNDPکی تحقیق کے مطابق2040 تک قحط کی کیفیت اختیار کرسکتا ہے۔

اس لیے پاکستان میں آبی ذخائر (Reserviors) کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے، تاکہ مستقبل کو بے آبی جیسے بحران سے بچایا جاسکے ۔ ستر برسوں کے دوران کسی بھی حکومت نے پانی جیسے اہم مسئلے پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی ، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ آج بحرانی شکل اختیار کر گیا ہے ۔ پانی کے بحران اور مستقبل میں اس کے شدید تر ہونے کا ادراک کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو متحرک اور فعال ہونا پڑا ، حالانکہ یہ عدلیہ کی ذمے داری نہیں ہے ۔ انھوں نے اپنی عدالتی ذمے داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ڈیموں کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے ۔

اب اس عمل میں وزیر اعظم بھی فعال ہوگئے ہیں، مگر ساتھ ہی چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کے عوام کی جانب سے بعض تحفظات اور اعتراضات بھی سامنے آرہے ہیں۔ان پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جا رہی ۔ جس کی وجہ سے ایک اہم اور نہایت ضروری منصوبہ تنازعات کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے ذخائر تعمیر کے حوالے سے اٹھنے والے اعتراضات اور تحفظات کا ہر زاویہ سے جائزہ لے کر انھیں دور کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ کوئی بھی بڑا (Mega) منصوبہ قومی اتفاقِ رائے کے بغیر اپنے اہداف کے حصول اور متوقع نتائج دینے میں ناکام رہتا ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ سے کیا اعتراضات اٹھ رہے ہیں؟ اور ان کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟

اس وقت ذرایع ابلاغ کے ذریعہ بار بار مشتہر کیا جا رہا ہے کہ پانی سمندر میں جا کر ضایع ہو رہا ہے۔ یہ درست معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے غلط اظہار ہے ۔ تمام دنیا میں دریا سمندر ہی میں گرتے ہیں ۔ سمندر میں گرنے سے پہلے میلوں پر محیط ڈیلٹا بناتے۔ یہ ڈیلٹائی علاقہ دریائی میٹھے پانی کی وجہ سے زرخیز ہوتا ہے اور نہایت عمدہ فصلیں پیدا ہوتی ہیں ۔ دوسرے جس مقام پر دریا سمندر میں گرتا ہے ۔ اس مقام پر آبی حیات ( مچھلیوں ، جھینگوں اور کیکڑوں وغیرہ) کی افزائش نسل ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ تاثر غلط ہے کہ پانی سمندر میں ضایع ہو رہا ہے۔

سندھ میں ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع دریائے سندھ کے ڈیلٹائی خطے پر آباد ہیں۔ جہاں ایک زمانے میں بہترین فصلیں ہوا کرتی تھیں ۔ خاص طور پر ٹھٹھہ کا سرخ چاول ملک سے باہر مشرق وسطیٰ تک مشہور تھا اور اس کی بڑے پیمانے پر تجارت ہواکرتی تھی ۔ اسی طرح بلوچستان سے سندھ تک ساحلی پٹی پر ماہی گیروں کی بستیاں قائم ہیں، جن کا روزگار آبی حیات سے وابستہ ہے۔

جب سے دریائے سندھ پر مختلف مقامات پر بیراج اور بند  باندھ کر پانی کو ڈیلٹا تک پہنچنے سے روکا گیا ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے ٹھٹھہ اور بدین کے علاقوں میں دریائی پانی کے دباؤ میں کمی کے باعث سمندری پانی اس علاقے میں گھس آیا ہے اور دونوں اضلاع کی زرخیز زمینیں تباہ ہوچکی ہیں ۔دوسری طرف ان اضلاع کے ماہی گیر بھی آبی حیات میں کمی کے سبب بدترین بے روزگاری کا شکار ہیں ۔

اس صورتحال کا پس منظر کیا ہے؟ اور کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ اس کا جائزہ لیے بغیر بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔ پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ دریائے سندھ کشمیر سے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی قدرتی سرحد بناتا ہوا سندھ میں داخل ہوتا ہے اور سندھ کا واحد آبی ذریعہ ہے۔ ملتان  کے قریب پنجاب کے دریا اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ پنجاب کے پانچ دریا جن کی وجہ سے اس خطے کا نام پنجاب ہوا، بیاس، ستلج، راوی، چناب اور جہلم ہیں۔

تقسیم کے ساتھ ہی بھارت نے پنجاب کے دریاؤں کی تقسیم کا سوال بھی اٹھا دیا ، بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد بھارت نے دریائے راوی کا پانی بندکر کے سرحدی اضلاع میں اولین آبی بحران پیدا کر دیا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عالمی بینک (جو اس وقت IBRDکہلاتا  تھا) آگے آیا ۔ اس نے سندھ طاس معاہدے (IWT) کا مسودہ تیارکیا۔اصولی طورپر دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے نتیجے میں 40 فیصد پنجاب بھارت اور 60 فیصد پاکستان کے حصے میں آیا۔ اس لحاظ سے دریاؤں کی تقسیم بھی اسی مناسبت یعنی بھارتی پنجاب کے حصے میں دو اور پاکستانی پنجاب کے حصے میں تین دریا آنا چاہیے تھے، مگر مسودے میں کشمیر سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں کو Indus Waters کا نام دے کر پہلا کنفیوژن پیدا کیا گیا ۔ جو قطعی طور پر پاکستان کے ساتھ زیادتی تھی۔ بنگالی وزیر اعظم محمد علی بوگرہ مسودے کے نکات میں موجود اسقام کو سمجھ گئے، اس لیے انھوں نے اس مسودے کی بنیاد پر معاہدے سے انکارکردیا ۔

لیکن ملک کے پہلے آمر ایوب خان اور ان کی ٹیم بھارت کی جانب سے بچھائی گئی بساط کو سمجھنے سے قاصر رہے ۔ ان کے پیش نظر تربیلا کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کے لیے ملنے والا متوقع قرض تھا ۔ لہٰذا انھوں نے 19ستمبر 1960 کو سندھ طاس معاہدے پر بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہروں کے ساتھ دستخط کردیے۔ اس معاہدے کی تمام شقیں پاکستان کے بجائے بھارت کے مفاد کا تحفظ کرتی ہیں، مگر آمروں میں وہ بصیرت، دور اندیشی اور باریک بینی نہیں ہوتی کہ کسی تحریر کے بین السطورکو سمجھ سکیں۔

اس معاہدے کی رو سے بھارت کو تین دریا مل گئے۔ بیاس اور ستلج پر اس کا حق بنتا تھا ، لیکن راوی اسے دینے کا فیصلہ وسطی پنجاب کی کمر میں چھرا گھونپے کے مترادف تھا۔ پھر بقیہ تین دریاؤں پر بھارت کو 20 فیصد تصرف کا حق دے کر پورے پاکستان کے آبی حق پر ڈاکا ڈالا گیا ۔ اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان کو صرف 6 کروڑ 20 لاکھ60 ہزار پونڈ اسٹرلنگ ادا کیے، لیکن پاکستان کا آبی مستقبل داؤ پر لگا دیا ۔

اب جہاں تک تربیلا ڈیم کا تعلق ہے تو یہ کچا ڈیم ہے۔ اس کی تعمیر کے وقت بھی ماہرین اور ملک بھر کے نمایندوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی گئی ۔نتیجتاً اس ڈیم کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین سیم و تھور کا شکار ہوکر بنجر ہوچکی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی کسی بھی حکومت نے مغربی دریاؤں (سندھ ، جہلم اور چناب) کے داخلی راستے پر میٹر لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ان دریاؤں کا کتنا پانی بھارت کے زیر استعمال ہے۔

اب جب کہ آبی ذخائر میں کمی آرہی ہے اور پاکستان کی طرف آنے والے پانی کے قدرتی ذرایع پر بھارت مختلف قسم کی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے، تو بھی آبی ذخائر کے ادارے IRSA (Indus River System Authority)نے کوئی خاطر خواہ اور ٹھوس تحقیقی کام نہیں کیا، بلکہ عالمی عدالت میں ہم اپنا کیس سنجیدگی کے ساتھ پیش کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے گزشتہ برس عالمی عدالت میں ہزیمت اٹھانا پڑی ۔

عرض ہے کہ حکومت اور عدلیہ اس مسئلے کو ضرور ترجیحی اہمیت دیں، لیکن ساتھ ہی چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کے تحفظات کو بھی مدنظر رکھا جائے، کیونکہ سندھ اور بلوچستان اس وقت بد ترین آبی بحران کا شکار ہیں ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے عجلت اور جذبات کی رو میں بہہ کر کیے جانے والے فیصلوں کے مثبت کے بجائے منفی نتائج آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اس لیے مودبانہ عرض ہے کہ قومی نوعیت کے اہم منصوبوں پر عمل درآمد سے قبل تمام صوبائی اسمبلیوں کو اعتماد میں لے کر اس اہم مسئلے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے، تو زیادہ بہتر ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔