پچاس لاکھ مکان

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 20 ستمبر 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

عمران خان کی عملی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات بڑی واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایک پرعزم اور دھن کے پکے انسان رہے ہیں وہ جب بھی کسی بڑے اور اہم کام کا اعلان کرتے ہیں توکسی کو یقین نہیں آتا کہ وہ اپنا اعلان کردہ کام پورا بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ایسے کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں جس کی بڑی قومی اہمیت ہوتی ہے ۔

اس حوالے سے ہم شوکت خانم اسپتال کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ اس اسپتال کی قومی اہمیت یہ ہے کہ ملک میں کینسر کا کوئی بڑا اور جدید سہولتوں سے لیس اسپتال نہیں تھا جس کی وجہ سے کینسر کے مریض سخت مشکلات کا شکار تھے جب عمران خان نے اس بڑے پروجیکٹ کا اعلان کیا تو کوئی یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ وہ اس منفرد اسپتال کو پورا کرسکیں گے، لیکن دھن کے پکے عمران خان نے اپنی شبانہ روز کوششوں سے یہ تاریخی اسپتال مکمل کیا۔

عمران خان ملک کے اہم مسائل کا ادراک رکھتے ہیں سو انھوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جن بڑے کاموں کا اعلان کیا، ان میں پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر شامل ہے جو بے گھر لوگوں کو دیے جائیں گے۔ پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر ایک بہت بڑا کام ہے جو بہ ظاہر ناممکن نہ سہی مشکل ضرور نظر آتا ہے لیکن پہاڑ جیسا عزم رکھنے والے خان صاحب یقینا اس بڑے اور بہ ظاہر ناممکن نظر آنے والے کام کو تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیں گے ۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہی نہیں ہے بلکہ ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ بھی ہے جسے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا۔

بھٹوکو عوام میں مقبول بنانے والے نعروں میں ایک مقبول ترین نعرہ ’’ روٹی کپڑا اور مکان ‘‘ بھی تھا لیکن دوسرے نعروں کی طرح بھٹو اس نعرے یا پروگرام کو بھی مکمل نہ کرسکے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو کو جن لوگوں نے یہ پروگرام بناکر دیا تھا اور یہ نعرے ایجاد کرکے دیے تھے، بھٹو نے انھیں پارٹی چھوڑنے کے لیے مجبورکردیا اور ان کی جگہ اس وڈیرہ شاہی نے لے لی جس کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ یوں پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین رہنما جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لاکھوں عوام رات رات بھر اس کا انتظار کرتے تھے، اس سے اس طرح لاتعلق ہوگئے کہ آمر ضیا الحق کی طرف سے انھیں سزائے موت دینے پر بھی وہ متحرک نہیں ہوئے۔

بہرحال اب ہمارے سامنے ایک دھن کا پکا وزیراعظم ہے اور اس نے ایک ایسے کام کا اعلان کیا ہے جو بہ ظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن عمران خان کی ڈکشنری میں غالباً ناممکن کا لفظ ہی نہیں ہے، سو اس نے اس بڑے کام کی ابتدائی منصوبہ بندی کا آغاز کردیا ہے۔ عمران خان نے اس بڑے کام کے ساتھ ایک بہت بڑے کام ایک کروڑ بے روزگاروں کو روزگار دلانے کا بھی اعلان کیا ہے یہ بھی ایک مشکل ترین کام ہے ہماری حکومتیں دو چار ہزار بے روزگاروں کو روزگار دلانے کا کام کرتی ہیں تو کروڑوں روپوں کی کرپشن کے الزامات کی زد میں آجاتی ہیں۔ ماضی میں ایک وزیر تعلیم کا نوکریاں بیچ کر کروڑوں روپے کمانے کا اسکینڈل بہت مشہور ہوا تھا۔

پچاس لاکھ مکان بنانا بلاشبہ ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن عمران خان کے عزم اور عوام دوستی اس کام کی تکمیل میں بہت کام آئے گی۔ اس مشکل کام سے زیادہ مشکل کام ان پچاس لاکھ مکانوں کی مستحقین میں تقسیم کا کام ہے ۔ جب اس قسم کے اربوں کے پروجیکٹ کا اعلان ہوتا ہے تو کرپٹ عناصر اپنے بلوں سے باہر نکل آئے ہیں اور کرپشن کے راستے ہموار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ عوام کی بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔

بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کرنا ایک اہم قومی ضرورت ہے لیکن اگر اس کام کو شفاف طریقے سے کرنا ہو تو بڑی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی ۔ ماضی میں ایسا بار بار ہوتا رہا ہے کہ ضرورت مندوں کے ساتھ پیشہ ورانہ لوگ بھی ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گھر یا پلاٹ سرکار سے مفت حاصل کرکے بیچ دینا ایک عام پریکٹس ہے ان شاطروں سے بچنے کے لیے پہلے سے ایک منظم اور سخت سروے کی ضرورت ہے شہروں کا تعین بھی اس حوالے سے اہم کام ہے۔

مکانوں کو کم ازکم دو کیٹیگری میں تقسیم کیا جانا چاہیے ایک کیٹیگری ان خاندانوں کی ہو جو پانچ افراد تک پر مشتمل ہو اس کیٹیگری کے لیے کتنے کمروں کے مکان کی ضرورت ہوگی۔ دوسری کیٹیگری 5 سے زیادہ افراد پر مشتمل خاندانوں کی ہونی چاہیے اور سماجی ماہرین کے مشوروں سے اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ 5 افراد پر مشتمل خاندان کے لیے کتنے کمرے کا مکان درکار ہونا چاہیے اور 5 سے زیادہ افراد پر مشتمل خاندان کے لیے کتنے کمروں کا مکان درکار ہوگا۔

گیس، بجلی اور سیوریج کے بغیر کسی آبادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہمارے ملک میں گیس بجلی کی پہلے ہی شدید کمی ہے اور سیوریج کا نظام انتہائی ابتر ہے ۔ ان تینوں بنیادی ضرورتوں کا پہلے سے اہتمام ضروری ہے۔

ٹرانسپورٹ بھی ایک ضروری مسئلہ ہے لیکن چونکہ یہ کام منافع بخش ہے، اس لیے دیکھا یہی گیا ہے کہ جہاں نئی آبادی قائم ہوتی ہے خواہ وہ کچی ہی سہی وہاں پرائیویٹ سیکٹر فوری ٹرانسپورٹ کا انتظام کرتا ہے لیکن پرائیویٹ ٹرانسپورٹ منافع بخش کرائے کے ساتھ ہوتی ہے لہٰذا یا تو کرایوں کا تعین سرکاری طور پر کیا جانا چاہیے یا سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جانا چاہیے عوام کو عام ضرورتوں کی اشیا جنرل اسٹور اور پرچون کی دکانیں سپلائی کرتی ہیں لیکن یہ تاجر عوام کو لوٹتے ہیں اس لوٹ مار سے عوام کو بچانے کے لیے ہر سیکٹر میں سپر اسٹور قائم کیے جانے چاہئیں۔

تعلیم اور علاج بھی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہیں، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ یہ ادارے ہر طرف خود رو پودوں کی طرح اگے ہوئے ہیں یہ دونوں ادارے آبادی کے تناسب سے قائم ہونے چاہئیں اور تعلیم اور علاج کا معیار اعلیٰ اور عوام کی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ سبزی، گوشت وغیرہ کی مارکیٹیں بھی سیکٹر وائز ہونی چاہئیں۔ آخر میں یہ تجویز پیش ہے کہ اگر مکانوں کی جگہ 5-6 منزلہ فلیٹ تیارکیے جائیں تو جگہ بھی کم لگ سکتی ہے اور قیمتوں میں بھی کمی آسکتی ہے یہاں ہم نے سرسری تجاویز پیش کی ہیں اس حوالے سے مفصل پروگرام پیش کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔