آرٹیکل چھ

جاوید قاضی  جمعرات 20 ستمبر 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

مجھے نہیں لگتا کہ قانون کی حکمرانی کی جنگ اس مملکت خداداد میں اب اہم رہی ہے۔ وہ جنگ جس میں وکلا نے تحریک چلائی تھی، وہ جنگ جس میں بار اور بینچ ایک ساتھ کھڑے تھے اورکون تھا جو اس تحریک میں پیچھے تھا۔ سب میدان میں آگئے، سیاستدان، سول سوسائٹی، کالم نگار، ٹی وی اینکرز اور چینلز پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ وہ جنگ جو نہ دائیں بازو کی تھی نہ بائیں بازوکی۔ سب کا ایک ہی ایجنڈا تھا کہ آمریت کے تسلط کو ختم کیا جائے۔ پھر سب لوگ خوش فہمی کا شکار تھے کہ اس ملک میں اب قانون کی حکمرانی ہوگی، میں بھی اسی غلط فہمی کا شکار تھا۔

قانون کی حکمرانی کیسے ہوتی؟ کیا بغیر سماجی تبدیلی کے، وہ سماجی تبدیلی جس کا انحصار ہماری معیشت پر ہے اور کیا معاشی تبدیلی اچانک سے ایک رات میں ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے ایک مکمل انفرااسٹرکچر بول رہا ہوتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر سڑکوں کی تعمیر، ریلوے نظام کی بہتری یا پھر نہری نظام کے بننے سے نہیں بنتا بلکہ تعلیمی نظام، صحت کے شعبے اور انسانی وسیلوں کے معیاری ہونے سے بنتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں جو اسکول بنائے گئے، جہاں من موہن سنگھ، ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ پڑھا کرتے تھے اور وہ زمانہ جہاں بھگت سنگھ جیسے سورما ہوتے تھے۔ کہاں تھا اس زمانے میں پرائیویٹ اسکول، میڈیکل و انجنیئرنگ کالج کا کوئی خیال بھی۔

ہم نہ صرف سرد جنگ میں پسے بلکہ اس سے پہلے غلامی کے طوق ہمارے گلے میں تھے اور اس سے پہلے حملہ آوروں کے حملے۔ برصغیر پاک وہند سے دو ملکوں نے آزادی پائی۔ ہندوستان اور پاکستان۔ ہندوستان ہمارے ہی وجود کا حصہ ہے لیکن سرد جنگ کے اثرات صرف پاکستان کے حصے میں آئے اور سرد جنگ ہماری تاریخ کا حصہ ہی بن گئی۔ حملہ آوروں اور غلامی کے دور کی تاریخ۔ وہی لاشعور اب شعور سے جڑگیا۔ آزادی کے زمانوں میں ہمارے حصے میں آنے والی سیاسی قیادت ہندوستان کی سیاسی قیادت سے بہت پیچھے تھی۔

آج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سرد جنگ تو چلی گئی مگر ہم اپنے پاؤں پرکھڑے نہ ہوسکے۔ ہم کل بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ تھے جب حملہ آوروں نے درہ خیبر پار سے اور پانی پت کے میدانوں سے جنگیں لڑ کر دلی پر راج کیا اورآج بھی ہم فرنٹ لائن ریاست ہیں۔ بھلے ہی ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ تاریخی اعتبار سے کسی بھی نوعیت کے ہوں۔

رول آف لاء، قانون کی حکمرانی کیا ہے؟ لارڈ بنگھم اپنی کتاب ’’رول آف لاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جو قوانین مثبت پہلو رکھتے ہیں وہ قوانین منفی پہلو رکھنے والے قوانین پر سبقت لے جاتے ہیں۔

ورنہ قانون کیا ہے۔ قانون جابر کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جس سے مظلوم پر ظلم کیا جاتا ہے۔ آج اس ملک میں جو اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہندوستان میں بھی اقلیتوں کے حوالے سے حالات بہتر نہیں، لیکن ہندوستان کی سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں، جب کہ ہمارا ملک جب برے حالات میں پھنسا تو ہماری کورٹ نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کا سہارا لیا۔ حال ہی میں ہندوستان نے سیکشن 377۔IPC  اپنے پینل کوڈ سے اس طرح نکالا کہ وہ بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں ہے اور اس طرح ہم جنس پرستی ہندوستان کے اندر جرم نہ رہا بلکہ اب وہ ایک ذاتی فعل قرار پایا۔ بھلے ہی وہ غیر اخلاقی ہے، مگر ریاست اس سے ملحق نہیں، یہ اتنا بڑا انقلابی قدم تھا، پوری دنیا کے بڑے بڑے اخباروں میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے اس فیصلے کی واہ واہ ہوئی۔

ہندوستان نے غلامی کے زمانے کے بنائے ہوئے بہت سے قوانین کو خیرباد کہا، لیکن یہاں یہ کام بہت سست رفتاری سے جاری ہے۔ ہماری کورٹ کا نظام اور ہندوستان کی کورٹ کا نظام یکساں ہے اور ہم دونوں ملکوں کے قوانین کے بنیادی اصول بھی یکساں ہیں، جیسا کہ برطانیہ اور امریکا میں ہیں۔ ہمارا آئین بھی ایک جیسا ہی ہے اورکورٹ کا نظام بھی۔ اس آئین اور قانون کے آگے بھلے کتنے ہی مودی جیسے لوگ کھڑے ہوں، امریکا کی سپریم کورٹ کے سامنے بھی صدیوں بعد ایسے چیلینجز آئے ہیں۔ ٹرمپ نے ایسے لوگوں کو سپریم کورٹ کا جج بنایا ہے جس سے خود امریکا کے اندر قانونی حوالے سے ایک بحث چھڑگئی ہے، جس نے امریکا کے رول آف لاء کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی ہے، مگر امریکا کی کورٹ کی تاریخ کے سامنے ٹرمپ زیادہ عرصے تک چل نہ پائے گا۔

آج ہماری کورٹ بہت طاقتور ہے۔ آزاد بھی، مگر اب بھی اس کی رول آف لاء کے حوالے سے پیش رفت ہونے اور صحیح سمت کا تعین ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ہزاروں کیس دہائیوں سے زیر التوا ہیں۔ فوجداری مقدموں کے حوالے سے کورٹ کا سسٹم سست ہے۔ اور تو اور1973 ء میں جو ہندوستان میں کیشونندا کیس کے حوالے سے بنیادی ڈھانچے والا اصول سیٹلڈ ہوگیا تھا، یہاں یہ اب بھی مکمل طور پر نہیں ہوا۔ حال ہی میں ہم جنس  پرستی کے کیس میں سپریم کورٹ نے پہلے تو دلی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا کہ Section 377 IPC قانون ہے اور قانون بنانا اور اس کو رد کرنا پارلیمان کا کام ہے، لیکن پھر ایک لارجر بینچ بنا اور بالآخر یہ کہہ دیا گیا کہ 377 IPC آئین کے بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ میں ہے یا یوں کہیے کہ ultra vires ہے۔

رول آف لاء کی بنیاد یہی ہے کہ قانون پارلیمنٹ بنائے گی، ان قوانین کی تشریح عدالتیں کریں گی اور قوانین پر عمل درآمد مقننہ کروائے گی۔ یہ تینوں ستون اپنے اس کام میں انتہائی آزاد ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے آئین کی رو سے ملے اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ آئین میں ترمیم کرنے کا حق پارلیمنٹ کے پاس ہے مگرDoctrine of Implied theory کے تحت پارلیمنٹ آئین میں اس حد تک ترمیم نہیں کرسکتی کہ جس سے اس کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو۔

صوبائی خودمختاری بنیادی ڈھانچے کا اہم ستون یا فیچر ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے اس فیچر کو اور نمایاں کیا، یعنی آئین کی رو کو اور واضح اور بہتر بنایا۔ آرٹیکل چھ کو مزید واضح کیا گیا۔ اسی طرح جب آمریت کو کورٹ کے ججز نظریہ ضرورت کے تحت صحیح قرار دیتے ہیں ان کو بھی اور جو بھی اسی coup میں  collaboratorsہیں ان کو بھی اس کے اطلاق ہونے کے دائرہ کار میں آنا ہوگا، لیکن اس کے برعکس اس بات پر غوروخوض ہورہا ہے کہ آرٹیکل چھ کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے جو کالا باغ ڈیم یا کسی بھی ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں۔

ڈیم کا تعمیر ہونا اور نہ ہونا ایک الگ بحث ہے، لیکن اس پر تنقید کرنا، اظہار رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اور آرٹیکل 19 کے تحت اس حق کی گارنٹی ہمار آئین دیتا ہے۔ میرے خیال میں آرٹیکل چھ کی تشریح بہت وسیع ہوجائے گی اگر اس کا اطلاق ساڑھے پانچ کروڑ پر مشتمل پوری سندھی قوم پر ہوتا ہے تو، اور اگر یہ بات صحیح ہے جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے تو کیا آرٹیکل چھ کے مرتکب لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔