ریت کے بگولوں کا ماتم !

شبنم گل  جمعرات 20 ستمبر 2018
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

کوئی زمانہ تھا جب امریکا میں کئی ہائیڈرو پاور ڈیمز بننے لگے تھے ۔اس وقت ماحولیاتی آگہی کا فقدان تھا ، لیکن جب نئی تحقیق سامنے آئی تو ماہرین نے جانا کہ یہ ڈیمزفائدے کے بجائے نقصان دیں گے، تو ماحولیات کے ماہرین نے اقوام کو ڈیمز کے برے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا شروع کردیا تاکہ یہ سلسلہ رک سکے۔

ڈیمزکے خطرات میں لوگوں کی اپنی زمینوں سے بیدخلی، تازہ پانی کی عدم دستیابی، مچھلی کی افزائش میں کمی، دریاؤں کی خشک سالی اور ماحولیاتی تنزلی کے خطرات درپیش ہیں ۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں مزید ڈیمز نہیں بنائے جا رہے بلکہ بجلی اور پانی کی فراہمی کی خاطر ، فطری اور محفوظ طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے مطابق ’’ کالا باغ ڈیم پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے‘‘ مزید برآں، وزیراعظم کے ڈیم بنانے کے اعلان کے بعد، ملک بھر میں گرما گرم بحث چھڑگئی ہے اور بالخصوص سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے اور شدید تنقید جاری ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے اس معاملے پر واضح موقف اختیارکرلیا ہے کہ اگر ڈیم کا منصوبہ دوبارہ بحال ہوا تو سخت احتجاج کیا جائے گا ۔ سندھ کی سیاسی، سماجی وادبی تنظیمیں، اس فیصلے کے خلاف سخت مذمت کر رہی ہیں، تاحال سندھ میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سسی پلیجو کے مطابق ’’سندھ میں پانی کی شدید قلت ہے اور رواں سال صرف تیس فیصد زمین کا حصہ کاشت کیا جاسکتا ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے، اس موضوع پرکراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ، وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیرکے خلاف نہیں، لیکن انھیں اس کے مقام اور نظام میں پانی کی دستیابی پر ’’کچھ تحفظات‘‘ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل میں بھاشا ڈیم منصوبے کا آغاز پیپلزپارٹی کی حکومت نے کیا تھا لیکن اس پر تکنیکی معاملات پر اعتراضات اٹھائے گئے، لہٰذا انھوں نے زوردیا کہ اس متنازع منصوبے پر ضروت ہے کہ مرکز سب کو اعتماد میں لے ۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے عطیات پر ڈیم کی تعمیرکی مخالفت کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ اگر سندھ کو اس کا پانی کا حصہ نہیں دیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ یہاں کے عوام صوبے کی سرحد پر آجائیں اور اسے پورے ملک سے الگ کردیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ملک کی نوے فیصد زراعت کا دار و مدار آبپاشی نظام کے پر ہے ۔ اس وقت ملک میں کئی بڑے ڈیمز اور ریزر وائر کام کررہے ہیں ۔ سندھ میں آر۔ بی۔ او۔ڈی ، ایل ۔ بی ۔او ۔ڈی کی غیر فعال کارکردگی نے پہلے ہی غیر یقینی فضا قائم کردی ہے ۔رائٹ بینک آوٹ فال ڈرین نے منچھر جھیل کو زہرآلود بنادیا ۔ جس کے گرد اطراف میں رہائش پذیر لاکھوں لوگ کالے یرقان، پیٹ و جلد کے امراض میں مبتلا ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عوام سندھ کی جھیلوں کی بربادی کا دکھ بھول چکے ہیں ؟ لہذا وہ تمام تکلیف دے باب کیسے بند ہوسکتے ہیں ۔

جنہوں نے خطے کی تمام تر تازگی چھین لی ہے ۔دھرتی اگر ماں ہے تو دریا اس کی مانگ کا سیندور ! ماں کی مانگ اجڑ جائے تو فطری خوشی بھی روٹھ جاتی ہے۔چوٹیاری ڈیم سانگھڑکی بدترین مثال سامنے ہے، ہزارہا لوگ بے گھر ہوئے ، ان کی روزی چھن گئی اور ہریالی کے خواب تعبیر نہ پاسکے ۔ڈیم بنانا مشکل کام نہیں مگر اس کے بننے کے بعد اسے سنبھالنا و فعال رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اہل سندھ آلودہ پانی زہرکی صورت پی رہے ہیں ۔ اے ۔ بی ۔ سی ۔ یرقان کی مختلف اقسام گھروں کی خوشحالی کو نگل چکی ہیں ۔ ٹائیفائیڈ و دیگر بیماریاں موت اور معذوری بانٹ رہی ہیں ۔

پانی کو شفاف بنانے کے پلانٹس ناکارہ ہوچکے ہیں ۔ سبزیاں ودیگر نباتات آلودہ پانی کے تحت موت بانٹ رہی ہیں اور ہمارے حکمران ہیں جو موجودہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے دورکی سوچ رہے ہیں ۔

تھرکی خشک سالی کا سراب سامنے ہے ۔تھرکی ماؤں کی اجڑی ہوئی گودیں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں ۔ تھرکے معصوم بچے مستقل موت کی وادی کی طرف محو سفر ہیں ، مگر حکمران ہمسائے ملکوں کی فکر میں گھل رہے ہیں۔

عوامی سطح پر اس بیان کے بعد رد عمل سامنے آرہا ہے ، جب پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ، ملک میں نئے ڈیم کی تعمیرکی مخالفت کرنے والوں کو تنبیہہ کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ جن لوگوں نے ڈیم کی تعمیرکو روکنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے ۔ اس کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جمہوری قدروں کے درمیان ایسی باتیں جمہوریت کی روح کو پامال کرنے کے مترادف ہیں۔

جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو سندھ کی تمامتر جھیلیں منچھر،کینجھر، ہالیجی اور دریا ، پیاس کا صحرا بن چکے ہیں ۔ دریائے سندھ کی رگوں میں زمین کی توانائی دوڑتی تھی ، آج وہاں ریت کے بگولے ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔