ہارو مگر ایسے تو نہیں

سلیم خالق  جمعرات 20 ستمبر 2018
بڑے ارمانوں کے ساتھ اسٹیڈیم آنے والے شائقین پاکستانی ٹیم کی غیرمعیاری بیٹنگ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگئے۔ فوٹو: اے ایف پی

بڑے ارمانوں کے ساتھ اسٹیڈیم آنے والے شائقین پاکستانی ٹیم کی غیرمعیاری بیٹنگ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگئے۔ فوٹو: اے ایف پی

’’کیا کہیں سے پاک بھارت میچ کے ٹکٹ مل سکتے ہیں میں زیادہ قیمت دینے کو تیار ہوں، چیمپئنزٹرافی کی طرح ہماری ٹیم آج ایک بار پھر بھارتی سائیڈ کے چھکے چھڑا دے گی‘‘

آج اسٹیڈیم آتے ہوئے میں نے اس قسم کے کئی مناظر دیکھے جب لوگ کسی سے ٹکٹ کیلیے درخواست کر رہے تھے، دیار غیر میں ملک سے محبت کا جذبہ ویسے ہی بڑھ جاتا ہے، ایسے میں جب کرکٹ میچ جیسے مواقع آئیں تو ہر پاکستانی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خود اسٹیڈیم جا کر اپنے کھلاڑیوں کو اچھے کھیل پر داد دے اورپھر فتح کا جشن منائے، دبئی میں روایتی حریف کیخلاف مقابلے سے قبل بھی ایسا ہی ماحول تھا، ساڑھے تین بجے شروع ہونے والے میچ کیلیے اسٹیڈیم کے دروازے دوپہر 12بجے ہی کھول دیے گئے تھے،سخت گرمی کے باوجود پسینے میں شرابور شائقین لائن میں لگ کر اندر  داخل ہوتے رہے،کئی کلومیٹر دور تک گاڑیوںکی قطاریں نظر آئیں، لوگوں کو ٹکٹس دیکھ کر اسٹیڈیم والے ایریا میں آنے کی اجازت ملتی تھی۔

کافی دن پہلے ہی تمام ٹکٹس فروخت ہو گئے تھے، میچ کے دن لوگ منہ مانگے دام پر ٹکٹ خریدنے کیلیے مارے مارے پھرتے رہے، گوکہ اسٹیڈیم کے تمام اسٹینڈز تو نہیں بھرے ہوئے تھے لیکن اس کی کئی دیگر وجوہات تھیں، مقامی صحافیوں کے مطابق بھارتیوں نے پہلے ہی ٹکٹ خرید لیے تھے، ان میں سے بہت سے لوگوں کا مقصد بعد میں انھیں بلیک میں فروخت کرنا تھا، پاکستانی پیچھے رہ گئے اسی لیے میچ میں زیادہ ترکراؤڈ بھارتی تھا، ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے خاص طور پر کئی لوگ اپنے دفاتر سے چھٹی لے کر اسٹیڈیم آئے تھے، پاکستانی اور بھارتی شائقین اپنے اپنے قومی پرچم لیے نظر آئے، دبئی کے سخت قوانین اور ڈی پورٹ ہونے کے ڈر سے انھیں اپنے جذبات قابو میں رکھنا پڑتے ہیں۔

کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے یا ایک دوسرے کے ممالک کی توہین کی جائے تو قصوروار کو سخت نتائج بھگتنا پڑتے ہیں، ملک میں طرم خان بن کرگھومنے والے یو اے ای میں سگنل توڑنے کا بھی نہیں سوچ سکتے جبکہ چیونگم کا  ریپر پھینکنے سے قبل بھی کئی بار ادھر ادھر دیکھتے  ہیں کہ کہیں کوئی شرطہ (پولیس اہلکار) تو موجود نہیں، اگر یہی لوگ اپنے ملک میں بھی ایسے ہی قوانین کا احترام کریں تو کچھ تو بہتری آ ہی جائے گی۔ خیر میچ کے دوران میڈیا سینٹرکی کوئی نشست خالی نہ تھی، پاکستان سے تو کم ہی صحافی آئے ہیں۔

زیادہ تر کا تعلق بھارت سے تھا یا پھر یو اے ای میں مختلف چینلز کے نمائندے موجود تھے، گرمی کی شدت سے فوٹیج بنانے کیلیے نیچے  جانے والے میڈیا کے نمائندے بھی پریشان نظر آئے خصوصاً کیمرہ مینز کا حال خراب اور شرٹس پسینے میں بھیگی ہوئی تھیں، ٹیم کی آمد کے موقع پر جانے والے کئی صحافیوںکے موبائل فون بھی گرمی سے بند ہوگئے، دوپہر کو درجہ حرارت 44 تک بھی پہنچ گیا تھا، اس کے باوجود شائقین مسلسل نعرے  لگا کر اپنے کھلاڑیوں کوداد دیتے رہے، پبلک ساؤنڈ سسٹم پر بجنے والے گانے ان کا جوش مزید بڑھا دیتے، ایک موقع پر ’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے‘‘ گانا بھی چلایا گیا، جس پر شائقین نے خوشی میں نعرے لگائے، میڈیا سینٹر میں شعیب اختر اور رمیز راجہ بھی دکھائی دیے۔

شعیب نے اپنا وزن بہت زیادہ بڑھا لیا ہے، اسی طرح رمیز بھائی کو دیکھ کر بھی احساس ہوتا ہے کہ بڑھاپا تیزی سے ان پر طاری ہو رہا ہے، البتہ وقار یونس پہلے کے جیسے فٹ دکھائی دیے، سنا تھا چیئرمین پی سی بی احسان مانی بھی میچ دیکھنے آئیں گے مگر انھوں نے پاکستانی صحافیوں کو لفٹ نہ کرائی، میڈیا منیجر نے بھی نہیں بتایا کہ وہ آئے بھی ہیں یا نہیں۔ میچ سے قبل ہی اے سی سی نے سپرفور کے شیڈول کا اعلان کر دیا تھا یوں پاکستانی ٹیم اگر جیت بھی جاتی تو بھی اس کے میچز ابوظبی میں ہی ہوتے، صرف بھارت سے ایک میچ ہی دبئی میں ہوگا۔

بڑے ارمانوں کے ساتھ اسٹیڈیم آنے والے شائقین پاکستانی ٹیم کی غیرمعیاری بیٹنگ دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگئے، ایک کے بعد ایک ایسی وکٹوں کی جھڑی لگی جیسے سامنے خطرناک ترین بولنگ اٹیک موجود ہے، زمبابوے کیخلاف رنز کے انبار لگانے والے امام الحق گزشتہ دنوں میڈیا کو خاصی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، اب بیٹ سے کچھ کر دکھانے کا موقع آیا تو خاموش ہوگئے، حد سے زیادہ خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی، فخرزمان نے بھی غلط شاٹ کھیل کروکٹ گنوائی، اوپنرز کے جلد آؤٹ ہونے سے دباؤ بڑھا جس سے  رنز بننے کی رفتار بیحد کم ہوگئی، شعیب ملک سینئر بیٹسمین ہیں، ان کے 2 کیچز ڈراپ ہوئے ایسے میں سنچری سے کم بات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی مگر وہ رن آؤٹ ہوگئے۔

سرفراز احمد نے بطور کپتان اچھا شاٹ نہ کھیلا، دیگر پلیئرز نے بھی بیٹنگ میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی، 162 رنز بنانے کے بعد جیتنے کا خواب صرف اسی صورت دیکھا جاسکتا ہے اگر آپ کے بولنگ ڈپارٹمنٹ میں وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے بولرز موجود ہوں، گوکہ ہمارا اٹیک  بھی اچھا ہے لیکن اتنے کم رنز کا دفاع کرنا اس کیلیے آسان نہ تھا، ہارنا کوئی مسئلہ نہیں کھیل میں یقیناً ایک ٹیم جیتتی تو دوسری ہارتی ہی ہے، البتہ اس انداز میں شکست قبول نہیں کی جاسکتی، پچ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ بیٹسمینوں کا قدم جمانا دشوار ہوجاتا، بھارتی بیٹسمینوں کی کارکردگی دیکھ کر اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، خیر اب جو ہوگیا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا باقی کے میچز میں کیسے اچھا پرفارم کریں اس کا سوچنا چاہیے۔

کھلاڑیوں کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا، سوشل میڈیا پر شیونگ اور ہیئر اسٹائل تبدیل کرنے  کے شوشے چھوڑیں اور جو اصل کام ہے اس کا سوچیں، ابھی مصروف ترین سیزن کا آغاز ہی ہوا ہے، ابتدا میں ہی بدترین شکست آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ثابت ہوگی، ٹیم میں صلاحیتوں کی کمی نہیں، اسے سرفراز احمد جیسے نڈر لیڈر کا ساتھ بھی میسر ہے، بس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اگر ایسا کرلیا تو کوئی وجہ نہیں کہ  ٹیم دوبارہ فتوحات کی راہ پر گامزن نہ ہوسکے۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔