چین کے بارے میں کچھ عام مگر غلط تصورات

کامران امین  اتوار 23 ستمبر 2018
حلال کھانوں کی عدم دستیابی سے لے کر دو نمبر مال تک، ہم چین کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں رکھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حلال کھانوں کی عدم دستیابی سے لے کر دو نمبر مال تک، ہم چین کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمیاں رکھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چین بچپن سے ہی ہمارا جگری یار ہے۔ اور جگری یار بھی ایسا جس کی ہمالیہ سے بلند، لوہے سے مضبوط اور سمندر سے گہری دوستی کی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔ اس کے باوجود وطنِ عزیز کے عوام کی اکثریت چائنا کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ صرف عوام ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سند یافتہ لوگ بھی چائنا کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں تو اور عجیب لگتا ہے۔ ایسی کچھ باتیں ہم بھی سنا کرتے تھے لیکن جب چین کی سر زمین پر پہلا قدم ہی رکھا تو سارے خیالات ہوا ہوگئے۔

باہر کے نظارے ایسے تھے کہ اگر ہاتھوں پر ہاتھی بھی ہوتے تو انہیں بھی اڑا دینے کےلیے کافی تھے۔ اب تو حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے، غوطے کھاتے دو سال ہوگئے ہیں۔ اس دوران جو کچھ دیکھا آپ کی نذر:

1۔ چینی لوگ بونے (چھوٹے قد والے) ہوتے ہیں

یہ بات کہیں میں نے اپنے بچپن میں سنی تھی جس کے بعد یہ تصور سا بن گیا تھا کہ جب بھی کسی چینی کا ذکر آتا، چھوٹے سے قد والی عجیب و غریب شبیہ بنتی لیکن چین کے جس انسان سے میں سب سے پہلے ملا وہ محفل میں موجود سب سے اونچے قد والے پاکستانی سے بھی بہت اونچا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جس انسٹیٹیوٹ میں میرا داخلہ ہوا، وہاں سارے ایسے ساتھی ملے کہ مجھے اپنا قد (5 فٹ 5 انچ) بونا لگنے لگا۔ معلوم یہ ہوا کہ چینیوں میں بہت تنوع ہے اور کچھ علاقوں کے لوگوں کے قد واقعی چھوٹے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کے قد انتہائی مناسب اور لمبے ہیں؛ اور بے صرف مردوں کے بلکہ یہاں کی عورتوں کے قد بھی اچھے خاصے لمبے ہوتے ہیں۔ مثلاً صوبہ شندونگ میں چینی مردوں کی اوسط اونچائی 5 فٹ 7 انچ ہے تو عورتوں کی اوسط اونچائی 5 فٹ 5 انچ ہے۔ چینیوں کی اوسط اونچائی بھی 5 فٹ 6 انچ ہے اور اس لحاظ سے وہ دنیا میں 93 ویں نمبر پر ہیں، اور اس اونچائی میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔

ایک انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی لڑکیوں کے پاؤں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ماضی میں چھوٹے پاؤں کو نسوانیت کی علامت سمجھا جاتا تھا لہذا لڑکیوں کی پیدائش کے وقت جیسے دولے شاہ کے چوہوں کا سر چھوٹا رکھا جاتا، ایسے یہاں پر پاؤں چھوٹے رکھے جاتے تھے۔ اب قدرتی طور پر ہی ان کے پاؤں بہت چھوٹے ہوگئے ہیں۔

2۔ چینی کتے، بلی، سانپ، مینڈک، سب کچھ کھا جاتے ہیں

یہ وہ بات ہے جو بہت مشہور ہے۔ جب بھی آپ چین آنے کا ارادہ کریں گے، لوگ آپ کو سب سے پہلا مشورہ یہ دیں گے کہ وہ تو مینڈک روسٹ کرکے کھا جاتے ہیں، احتیاط کرنا! کتے اور گدھے کا گوشت بھی کھا جاتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ چائنا میں کوئی بھی چیز حرام نہیں لہذا آپ کا جو کھانے کا دل کرے، کھا سکتے ہیں۔ لیکن عوام کی بہت ہی محدود تعداد ہی ایسی چیزیں کھاتی ہے اور انہیں بھی یہاں کے معاشرے میں بھی بہت عجیب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ بیجنگ میں ایسی کچھ جگہیں ہیں جہاں گدھے کے گوشت کے برگر ملتے ہیں لیکن وہ بہت کم ہیں اور زیادہ تر بند ہورہی ہیں۔ چینی بھی وہی کچھ کھاتے ہیں جو باقی دنیا کھاتی ہے اور ان کی غذا بہت صحت مند اور متوازن ہوتی ہے۔ میرے بہت سارے چینی دوست ہیں اور بہت مرتبہ چینیوں کے ہوٹلوں میں بھی گیا ہوں جہاں مینیو میں ایسا کچھ نہیں تھا، اور گھروں میں بھی۔ بارہا ان سے یہ سوال بھی پوچھا کہ آپ ایسی چیزیں کھاتے ہیں۔ جواب نفی میں تھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں کیکڑا حلال ہے لیکن کیا آپ نے کبھی فرائی کیکڑا کھایا؟

3۔ چین میں مذہب پر پابندی ہے

جی؟ کیا کہا؟ یہ بھی غلط فہمی ہے؟ ہاں جی اور بہت بڑی۔ لوگ چین میں مذہب پر پابندیوں کے حوالے سے بہت باتیں کرتے ہیں بالخصوص بین الاقوامی میڈیا تو بہت شور کرتا ہے، لیکن ایسا ہے نہیں۔ مین لینڈ چائنا میں تو کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اپنے آئین کے حساب سے چین ایک سیکولر ملک ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست اس بات سے بے نیاز ہے کہ افراد کونسا عقیدہ رکھتے ہیں، اور کوئی عقیدہ رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی حکومت ہے جس کے ممبران کےلیے بہرحال لازم ہے کہ ان کا مذہب سے تعلق نہ ہو۔ اسی طرح مسلم اکثریتی خطے سنکیانگ میں نماز روزے پر پابندی کی خبریں آتی رہتی ہیں جن کی کبھی کسی چینی نے نجی گفتگو میں بھی تصدیق نہیں کی، البتہ یہ شکایت ضرور کرتے ہیں کہ سیکیورٹی بہت سخت ہے اور لوگوں کو محض شک کی بنیاد پر بھی ایسے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے جنہیں چینی ’’تربیتی کیمپ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں سے شکایات نہیں آتیں اور باہر سے آنے ولے لوگوں سے، بالخصوص پاکستانیوں کے ساتھ تو خصوصی مہربان ہیں۔ یہاں بھی مسجدیں ہیں، اذانیں اور نمازیں ہوتی ہیں، عیدیں منائی جاتی ہیں؛ سب کچھ پاکستان کی طرح۔

ہاں! عید کا تہوار منانے کےلیے ایک دن مختص ہوتا ہے اور وہ رمضان سے پہلے ہی یہ پوچھ لیتے۔ اس دن کے علاوہ عید نہیں منائی جاسکتی، بے شک چاند نظر آجائے۔ عید اور چاند وغیرہ کےلیے ہر شہر کی اپنی علما کونسل ہے جو عموماً سعودی عرب یا ملائیشیا کے ساتھ مل کر فیصلے کرتے ہیں۔ اس بار ہمارے بہت سے لوگوں نے یہاں قربانی بھی کی۔

4۔ چینیوں کا صرف ایک ہی بچہ ہوتا ہے

یہ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہے جو ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ مشہور یہ ہےکہ چینی حکومت نے بچوں کی پیدائش پر پابندی لگائی ہوئی ہے، صرف ایک بچے کی اجازت ہے اور ایک سے زیادہ بچہ ہوجائے تو اسے مار دیتے ہیں اور والدین کو قید کرکے آئندہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم کر دیتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک چینی حکومت نے ایک بچے کی پالیسی رکھی۔ لیکن اگر کوئی والدین دوسرے بچے کی خواہش رکھتے تو وہ حکومت کو ایک مقررہ ٹیکس دے کر اس کی اجازت حاصل کرسکتے تھے۔ کچھ چینی ٹیکس سے بچنے کےلیے ایک بچے تک ہی محدود رہے لیکن ایسے گھرانے اکثر ملتے ہیں جہاں دو دو تین تین اور چار چار بچے تک ہیں۔ میرے ایک دوست کے تین بہن بھائی ہیں۔ اب اس ایک بچے والی پالیسی کا حکومت نے خاتمہ کر دیا ہے اور اس بات کی حوصلہ افزائی کی جارہی کہ والدین دوسرے بچے کی طرف جائیں۔

5۔ چینی سارے ایک جیسے دکھتے ہیں

یہ بھی ایک اور عام غلط فہمی ہے۔ اکثر لوگ کہیں گے کہ چینیوں میں فرق کرنا مشکل ہے، یہ تو سارے ہی ایک جیسے لگتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ چین بہت بڑا ملک ہے۔ ان کی اکثریت ہان نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے جو تقریباً ایک جیسے لگتے ہیں لیکن غور سے دیکھنے پر بہ آسانی ان میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی چائنا میں تقریباً 58 دیگر نسلوں کے لوگ آباد ہیں اور سب ایک دوسرے سے مختلف۔ مثلاً سب سے بڑے صوبے سنکیانگ میں عربی اور ترک نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے۔

6۔ چائنا میں ’’دو نمبر مال‘‘ تیار ہوتا ہے

سارے پاکستانی دانشور آپ کو یہ سمجھائیں گے کہ چائنا سے آنے والی ہر چیز دو نمبر ہوتی ہے۔ اور تو اور تعلیم بھی چائنا کی دو نمبر، بندے بھی دو نمبر۔ یہ غلط فہمی بیجنگ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی دم توڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا کی بہت سی مشہور کمپنیوں کے پروڈکشن یونٹس چائنا میں ہیں۔ ایڈیڈاز، ایپل، مائیکروسافٹ اور ڈیل سمیت کپڑے جوتے، گھریلو مشینیں اور برقی سامان، گاڑیاں بنانے والی کسی کمپنی کا نام لیجیے، اس کا یونٹ چائنا میں ملے گا۔ مال کے معیار کا تعلق زیادہ تر خریدار سے بھی ہوتا ہے۔ پاکستانی تاجروں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ فیکٹریوں سے کوڑیوں کے مول وہ والا سامان اٹھاتے ہیں جسے کسی نقص کی وجہ سے ناکارہ کرکے پھینکا ہوتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ یہاں سے ایک گھڑی لی جو پاکستانی حساب سے مجھے تین ہزار میں ملی۔ اور ہوبہو اس جیسی گھڑی صدر راولپنڈی سے ’’میڈ اِن چائنا‘‘ لیبل والی، میں نے دو سو یا تین سو روپے میں خریدی۔ پاکستانی سے خریدی گئی گھڑی میں پانی بھی جاتا تھا اور کچھ عرصے بعد وہ بند ہوگئی۔ چائنا سے خریدی گئی گھڑی اپنی پوری خصوصیات کے ساتھ اب تک کام کررہی ہے۔

7۔ سارے چینیوں کو کنگ فو، کراٹے اور اس طرح کی چیزیں آتی ہیں

پاکستان میں تھا تو ایک صاحب ایک بار بتارہے تھے کہ چینی بچے تو جیسے پیدائشی مارشل آرٹس اور کنگ فو کے ماہر ہوتے ہیں وغیرہ، اور ان کی لڑکیاں شاہراہوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کررہی ہوتی ہیں۔ ویسے پاکستانیوں کو ایسی کہانیاں سنانا تھوڑا ضروری بھی ہے۔ یہاں نئے نئے آتے ہیں تو لڑکیوں کو نہیں چھیڑتے کہ کہیں لات ہی نہ پڑجائے۔ چین بہرحال کنگ فو کی جائے پیدائش ضرور ہے لیکن بہت کم لوگ ہی اسے جانتے ہیں۔ مختلف اسکولوں میں بچوں کو کنگ فو سکھایا تو جاتا ہے لیکن وہ بہت بنیادی سی تعلیم ہوتی ہے۔

8۔ چین میں حلال کھانا نہیں ملتا

کھانے پینے کا چین میں بہت مسئلہ ہوتا ہے؛ اور ہر کوئی یہی کہتا کہ وہاں تو یہ بھی کھاتے ہیں وہ بھی، پتا نہیں حلال کھانا ملتا بھی ہے یا نہیں۔ جی ہاں! اب تقریباً ہر بڑے شہر میں حلال کھانے کے ہوٹل جا بجا نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مارکیٹ میں حلال کی مہر والا گوشت اور دوسری اشیاء بہ آسانی دستیاب ہوتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

کامران امین

کامران امین

بلاگر کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور چین سے میٹیریلز سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیجنگ میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے بطور اسپیشل ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔