نوازشریف اور مریم نواز کی رہائی

ایڈیٹوریل  جمعـء 21 ستمبر 2018
نیب عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف فیصلہ 6 جولائی کو سنایا تھا۔ فوٹو: فائل

نیب عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف فیصلہ 6 جولائی کو سنایا تھا۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بدھ کو سابق وزیراعظم نواز شریف‘ ان کی بیٹی مریم نوازاور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزائیں معطل کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیدیا‘ رہائی کے احکامات ملنے کے بعد میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی سے رہا کردیا گیا‘ اس کے بعد تینوں خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچ گئے۔

عدالت عالیہ نے مکمل فیصلہ جاری نہیں کیا، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ نیب عدالت کے جس فیصلہ میں میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں ایسے سقم موجود تھے جن کے باعث بیشتر قانونی ماہرین کو قوی امید تھی کہ عدالت عالیہ سے تینوں ملزمان کو ریلیف مل جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

نیب عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف فیصلہ 6 جولائی کو سنایا تھا۔ ملزمان نے اس فیصلے کو معطل کرنے کی درخواست دائر کی تھی جس پر گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ شریف فیملی کو پاناما پیپرز کے اسکینڈل میں اپریل 2016ء کو ملوث کیا گیا۔ نواز شریف اس وقت ملک کے وزیراعظم تھے۔

پاناما اسکینڈل نے ڈھائی سال تک پاکستان کی سیاسی فضا کو مکدر کیے رکھا۔ اب میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور لیڈر شپ میں اعتماد کی لہر پیدا ہوئی ہے‘ بہرحال عدالت عالیہ کا فیصلہ فی الوقت شریف خاندان کے لیے اس امید کا باعث بنا ہے کہ بالاآخر وہ عدالت میں قانونی جنگ کا ایک مرحلہ جیت گئے ہیں۔

نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ اب عدالت عظمیٰ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا‘ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے لیے ابھی مشکلات ختم نہیں ہوئیں کیونکہ ابھی دو مزید ریفرنسز کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ ان کا فیصلہ کیا ہوتا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ شریف خاندان کو ایک طویل عرصے تک مقدمات کی کارروائیوں کا سامنا رہے گا۔

اصولی طور پر قانونی لڑائی کو قانون کے ہتھیاروں سے ہی لڑا جانا چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا ہے ۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔