غیرسردار وزیراعلیٰ کی نامزدگی بلوچستان میں تبدیلی کاعملاً اظہار

راؤ خالد  پير 3 جون 2013
ماضی میں بلوچستان میں صرف اس ایک ضلع کی حکومت ہوتی تھی جس کا سردار وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو جاتا تھا فوٹو: فائل

ماضی میں بلوچستان میں صرف اس ایک ضلع کی حکومت ہوتی تھی جس کا سردار وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو جاتا تھا فوٹو: فائل

اسلام آباد: نسلًا بلوچ اور ماہر امراض چشم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کی رہنمائی کے حقدار قرار پائے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان میںدوسری نمائندہ جماعتوں پختونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے کئی روز کی بحث کے بعداتوار کو ایک طویل اجلاس کے بعد اتفاق رائے سے نیشنل پارٹی کے قوم پرست رہنماڈاکٹر عبدالمالک کوبلوچستان کے وزیراعلیٰ کیلیے نامزدکر دیا ۔ خود کو نیلسن منڈیلا کے پیرو کارقرار دینے والے ڈاکٹر مالک نے الیکشن میں بلوچستان کی قسمت اسی طرح سے بدلنے کا وعدہ کر رکھا ہے جس طرح افریقی رہنما نے جنوبی افریقہ کے ہم نسل باشندوں کی قسمت بدل کر رکھ دی ۔ان کی نامزدگی اس بات کی غماز ہے کہ بلوچ قوم پرست ہی نہیں بلکہ پنجاب کے رہنما بھی بلوچستان کی قسمت بدلنے میں کسی سیاسی مصلحت کے حامی نہیں ہیں ۔

نواز شریف نے اس نامزدگی پر آمادگی ظاہر کر کے نہ صرف سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا ہے بلکہ اس بات کا عملاً اظہار کر دیا ہے کہ وہ بلوچستان کو اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول سے آزاد کرانے میں سنجیدہ ہیں اور حقیقی معنوں میں وہاں عوامی راج کے قیام کے خواہاں ہیں ۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ایک غیر سردار کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر نامزد کرنا ہے جس کی ساری زندگی بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے گزری۔ یہ جنگ انھوں نے دو محاذوں پر لڑی۔ ایک محاذ اسٹیبلشمنٹ کا تھا جبکہ دوسرا سرداری نظام کا ۔ اس نامزدگی سے بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ ہی تبدیل نہیں ہوئی بلکہ یہ صوبے میں ایک اہم کلچرل تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو گی ۔

ماضی میں بلوچستان میں صرف اس ایک ضلع کی حکومت ہوتی تھی جس کا سردار وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو جاتا تھا اور یہ حکومت چار ضلعوں کے درمیان میوزیکل چیئر کی طرح تبدیل ہوتی رہتی تھی ۔ نیشنل پارٹی کے نمائندہ کی حکومت کثیر ضلعی حکومت ہو گی اور اس میں سرداروں کا اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر ہو گا ۔ لے دے کے اس جماعت میں ایک ہی نام کا سردار ہے جس کا نام حاصل خان بزنجو ہے جو کسی بھی اعتبار سے سردار کی بلوچستان میں مروجہ تعریف پر پورا نہیں اترتے ۔ اس نامزدگی اور صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تحریک انصاف کے حق حکومت کو تسلیم کرنے پر سب سے زیادہ جمعیت علما اسلام (ف) جز بز ہو رہی ہے کیونکہ انہیں بلوچستان کی حد تک یقین تھا کہ وہ حکومت کا حصہ بننے میں نہ صرف کامیاب ہو جائے گی بلکہ موئثر وزارتیں بھی حاصل کر پائے گی ۔ بلوچستان کے فیصلہ کے بعد مولانا فضل الرحمان کو اپنی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گی اور غالب امکان ہے کہ وہ مرکز میں ’ہاتھ نہ پہنچے تھو کوڑی‘ کے مصداق اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔