مذہبی رواداری کی علامات: مبارک حویلی اور نثار حویلی

طلحہ شفیق  جمعـء 21 ستمبر 2018
یہ حویلی شیعہ سنی محبت کی علامت اور شاندار ماضی کی حامل بھی ہے جو تاریخ سے شغف رکھنے والوں کی منتظر ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

یہ حویلی شیعہ سنی محبت کی علامت اور شاندار ماضی کی حامل بھی ہے جو تاریخ سے شغف رکھنے والوں کی منتظر ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

مبارک حویلی اندرون موچی دروازہ میں واقع ہے۔ اکبری گیٹ بازار بھی قریب ہی ہے، شاید اس لیے باہر لگی تختی پر ’’اندرون اکبری دروازہ‘‘ درج ہے۔ بقول سید لطیف، یہ حویلی مغل بادشاہ محمد شاہ (المعروف رنگیلا، عہد 1719 تا 1748 عیسوی) کے دور میں تعمیر کی گئی۔ حویلی کی بنیاد رکھنے والے تین بھائی تھے: میر بہادر، میر نادر اور میر بابر (کہنیا لال نے تیسرا نام ’’بہار علی‘‘ لکھا ہے)۔ اس حویلی کی تعمیر میں تین سال لگے، تقریباً 1730 میں یہ حویلی تعمیر ہوچکی تھی۔ اس حویلی کی وجہ تسمیہ کے متعلق ڈاکٹر طاہر کامران لکھتے ہیں: ’’جب حویلی تعمیر ہوئی، اسی ماہ میر بہادر علی کے گھر بیٹا ہوا۔ اسی باعث اس کو ’مبارک حویلی‘ کہا گیا۔‘‘

مغلوں کا زوال اس حویلی کےلیے بھی زاول کا سبب بنا۔ یہ حویلی عرصے تک ویران رہی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں اس کی مرمت کی گئی اور اسے مہمان سرائے بنا دیا گیا۔

شاہ شجاع جب کابل سے بے دخل ہوکر آیا تو اسے مبارک حویلی میں ہی قید کیا گیا۔ رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع سے معروف ہیرا کوہِ نور چھیننے کی بہت کوشش کی۔ شاہ شجاع کے حرم کی خواتین سے بھی زیورات و جواہرات چھینے گئے۔ این کے سنہا کا بیان ہے کہ شاہ شجاع کی بیوی نے جان بخشی کے عوض یہ ہیرا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ شاہ شجاع کو ہیرا دینے پر راضی کرنے میں فقیر سید نورالدین نے اہم کردا ادا کیا جس کی تفصیل ان کی تصنیف ’’تاریخ کوہِ نور‘‘ میں درج ہے۔ شاہ شجاع نے بعد میں حویلی کی دیوار توڑ کر یا سوراخ کرکے یہاں سے فرار حاصل کیا اور برطانوی حکام کے پاس پناہ حاصل کی۔

سکھ عہد میں یہ حویلی غلام محی الدین شاہ قریشی اور سردار کہر سنگھ کے پاس رہی؛ اور بقول سید شرافت حسین (مصنف کتاب ’’گمشدہ لاہور‘‘) سردار کہر سنگھ نے یہ حویلی نواب علی رضا خان قزلباش کے ہاتھ فروحت کردی۔ نواب صاحب اور ان کے خاندان نے برطانوی حکومت کی ہمیشہ مدد کی، جس کی خاطر خواہ تفصیل گریفن کی کتاب میں درج ہے۔ برطانوی افواج جب کابل میں گرفتار ہوئیں تو نواب صاحب نے دروان قید ان کو غذا و دیگر ضروریات فراہم کیں اور تاوان دے کر رہا کرایا۔ اسی طرح ہزارہ میں جب انگریز افواج قید ہوئیں تو نواب صاحب نے رشوت ادا کرکے رہائی دلائی۔ 1857 میں بھی انگریزوں سے وفاداری نباہی بلکہ نواب صاحب کو ’’تاجِ برطانیہ کی وفادار ترین رعیت‘‘ کہا گیا۔ ایمپریس روڈ کے دونوں اطراف جو زمین ہے وہ نواب صاحب کو انگریزوں سے تحفے میں ملی۔ اس کے علاوہ رائے ونڈ میں زمین اور اودھ کے 147 گاؤں بھی دیئے گے۔

حویلی کے موجودہ متولی منصور علی قزلباش کا کہنا ہے ’’نواب صاحب نے اس حویلی کی تعمیر نو 1863 میں کروائی۔‘‘ کہنیا لال بیان کرتے ہیں ’’…یہ قدیم عمارت ہے اگرچہ اب نقشہ اس کا بدل کر سب نئی عمارت بن چکی ہے مگر جنوبی حصہ اس کا اب بھی پرانی عمارت کا باقی… نو اب علی رضا قزلباش نے اپنی زندگانی میں اس عمارت میں بہت سا تغیر و تبدل کیا۔ شرق کی طرف بڑا دروازہ نکالا اور بڑے بڑے دالان و صحن و عمارات جدید بنوائیں اور ماہ محرم میں عزاداری کی مجلسیں اس میں مقرر کیں۔ جب نواب جنت نصیب ہوا تو نواب نوازش نے باپ کے وقت کی عمارتوں کو گرا کر اعلٰی درجے کی عمارتیں بنوائیں۔‘‘

قزلباش خاندان نے کربلا گامے شاہ میں ہونے والی مجالس کی بھی سرپرستی کی۔ آئن ٹالبوٹ اور ڈاکٹر طاہر کامران کی تصنیف کردہ کتاب میں درج ہے کہ نواب رضا علی خان نے 1850 میں لاہور میں ذوالجناح کے جلوس کی ابتداء کی، جو اب بھی اسی حویلی سے برآمد ہوتا ہے۔

1928 میں جائیداد کی تقسیم پر یہ حویلی بھی تقسیم ہوگئی۔ اب جس حصے سے عاشورہ کا مرکزی جلوس برآمد ہوتا ہے، وہ ’’نثار حویلی‘‘ کہلاتا ہے جبکہ باقی حصہ ’’مبارک حویلی‘‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔

جس حصے کو نثار حویلی کہا جاتا ہے وہاں پہلے باورچی خانے کا سامان رکھا جاتا تھا اور حاضرین کےلیے لنگر تیار کیا جاتا تھا۔

ہم ڈرتے ہوئے مبارک حویلی میں داخل ہوئے مگر حویلی کے منتظم نے نہایت خندہ پیشانی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ مبارک حویلی سے 21 رمضان المبارک یوم شہادت حضرت علی کرم اﷲ وجہہؓ کے موقع پر چاندی سے بنا تعزیہ برآمد کیا جاتا ہے۔ ماہ محرم میں تمام مرکزی مجالس یہیں پر ہوتی ہیں۔ لاہوت میں یوم عاشورہ کا مرکزی جلوس اور شب ذوالجناح کا جلوس بھی نثار حویلی سے برآمد ہوتا ہے اور اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا کربلا گامے شاہ پہنچتا ہے، جہاں مجلس شام غریباں برپا کی جاتی ہے۔

موچی دروازے میں موجود یہ حویلی شیعہ سنی محبت کی علامت ہے اور یہ وسیع و عریض حویلی مذہبی اہمیت کے علاوہ شاندار ماضی کی حامل بھی ہے، جو تاریخ سے شغف رکھنے والوں کی منتظر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔