جب ہندوستان جاپان کے قبضے میں آتے آتے رہ گیا

مرزا ظفر بیگ  اتوار 23 ستمبر 2018
کوہیما کی جنگ کا ماجرا، ایک ایسا معرکہ جسے دنیا فراموش کرچکی ہے۔ فوٹو: فائل

کوہیما کی جنگ کا ماجرا، ایک ایسا معرکہ جسے دنیا فراموش کرچکی ہے۔ فوٹو: فائل

کوہیما انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کا پہاڑی شہر اور ریاست کا دارالحکومت ہے جو ایک پہاڑی پشتے پر واقع ہے۔ یہ شمال مشرقی ہندوستان کے دوردراز پہاڑی اور بنجر خطے میں 5,000 فیٹ کی بلندی پر بڑی شان سے کھڑا ہے۔ اور آج کے جغرافیے میں یہ ریاست ناگا لینڈ میں واقع ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران اس خطے میں برما کے محاذ پر دنیا کی سب سے خوف ناک جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ وہ شہرۂ آفاق جنگ تھی جس نے ہندوستان پر جاپانی حملے کو بری طرح ناکام بنادیا تھا اور اس وجہ سے یہاں سے اس جنگ کا رخ مشرق بعید کی طرف ہوگیا تھا۔ دوسری اکثر جنگوں کی طرح جو جنوب مشرقی ایشیا میں لڑی گئی تھیں، کوہیما کی جنگ حیرت انگیز طور پر اکثر لوگوں اور اقوام کے لیے نامعلوم اور غیرمعروف رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں پوری کی پوری دنیا کی توجہ یورپ میں نازی جرمنی کی طرف تھی اور دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک اسی سے نبرد آزما تھا۔ اس کے علاوہ یورپ پر اتحادی حملوں کے باعث بھی جنگ کوہیما کی طرف کسی نے خاص توجہ نہیں دی تھی جو اس وقت بھی جاری تھی جب دوسری عالمی جنگ نے پوری دنیا میں قیامت خیز تباہی مچادی تھی۔

اس دور میں منی پور اور ناگالینڈ کی دو شمال مشرقی ریاستیں جو اس وقت آسام کا حصہ تھیں، یہ دوسری جنگ عظیم میں بہت اہم محاذ تھیں اور جنہیں اس وقت برمی محاذ کہا جاتا تھا۔

اس خطے کے ناہموار، بنجر اور گھنے جنگلات میں ہندوستانی اور برطانوی افواج کے جاپانی فوجیوں کے خلاف کئی خوف ناک معرکے ہوئے جن میں سے ایک جنگ یہی جنگ کوہیما کہلاتی ہے جس میں جاپانی افواج کو شکست فاش ہوئی تھی، یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس نے ٹوکیو کو حد درجہ مایوس کیا اور اسی دوان ٹوکیو کے شاہی حکم رانوں کی قسمت بھی ان پر نامہربان رہی اور وہ جنوبی ایشیا میں حسب منشا کام یابیاں حاصل نہ کرسکے۔

کوہیما اس پہاڑی پشتے پر واقع ہے جو شمال اور جنوب کی طرف سیدھا چلا گیا ہے، اس پہاڑی پشتے پر ایک سڑک بھی بنی ہوئی ہے جو برطانوی سپلائی بیس واقع دیماپور تک جاتی ہے۔ یہ شمال میں دریائے برہم پتر کی وادی میں واقع ہے اور اس کے جنوب میں امفال واقع ہے اور مذکورہ سڑک اسی سے گزرتی ہے۔امفال سے یہ سڑک مزید جنوب کی طرف اور پھر وہاں سے برما کے اندر تک جاتی ہے۔

اصل میں یہ وہ راستہ تھا جہاں سے جاپانی برما کے راستے اندر گھس کر ہندوستان پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے۔ اس پلان کو انہوں نے آپریشن U-Go کا نام دیا تھا اور اس کے پس پشت یہ خواہش کارفرما تھی کہ اس طرح ناگالینڈ کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے دیما پور کے میدانوں تک پہنچا جائے۔ اگر وہ ایک بار وہاں اپنا بیس کیمپ قائم کرلیتے تو وہ چین تک جانے والی اتحادی سپلائی کا راستہ منقطع کردیتے جس کے بعد ان کے لیے برطانوی ہندوستان پر حملہ کرنا بہت آسان ہوجاتا۔ اگر آپریشن U-Go کام یابی سے ہم کنار ہوجاتا تو اس کے بعد پورا انڈیا جاپانیوں کے سامنے ہوتا اور ان کے لیے اس پر قبضہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔

امفال اور کوہیما پر حملے کی ابتدا 1944 کے موسم بہار میں ہوئی۔ جاپان کی پندرھویں آرمی کی دو ڈویژن فوج نے جس کی قیادت جارح مزاج کمانڈر جنرل Renya Mutaguchi کے ہاتھ میں تھی، اس نے دریائے چنڈون کو عبور کیا اور امفال کی طرف پیش قدمی کی۔ ایک تھرڈ ڈویژن جس کی قیادت لیفٹننٹ جنرل ساتو کے ہاتھ میں تھی، کوہیما کی طرف بڑھنے لگا۔ برطانوی جانتے تھے کہ جاپانی کوہیما کی طرف جارہے ہیں مگر وہ مکمل معلومات حاصل نہ کرسکے، نہ تو وہ ان کی تعداد معلوم کرسکے، اور نہ ہی وہ اس ڈویژن کی رفتار کا اندازہ لگاسکے۔

ان کا خیال تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے جاپانی افواج لگ بھگ ناقابل رسائی ان گھنے جنگلات سے کسی بھی صورت نہیں گزر سکیں گی جنہوں نے کوہیما کے اطراف کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس لیے جب لیفٹننٹ جنرل ساتو اپنے 15,000 مضبوط اور توانا فوجیوں کے ساتھ اس نباتاتی خطے میں 4 اپریل کو پہنچا تو انہوں نے صرف 1,500 ناتجربہ کار آدمیوں کو اس پہاڑی شہر کی حفاظت کرتے پایا۔ چناں چہ جاپانیوں نے فوری طور پر کوہیما کو محاصرے میں لے لیا اور برطانویوں اور انڈین فوجیوں کو ان کی پوزیشنوں سے بھگانا شروع کردیا۔ وہ بے چارے حواس باختہ وہاں سے نکل کر ایک چھوٹی سی جگہ میں جمع ہونے لگے جو بہ مشکل ایک ٹینس کورٹ کے برابر تھی۔ یہ جگہ ڈپٹی کمشنر کے باغ میں واقع تھی جو مقابل افواج کو ایک دوسرے سے الگ کررہا تھا۔

یہ جگہ اتنی قریب تھی کہ فوجیوں نے ایک دوسرے پر گرینیڈ براہ راست ایک دوسرے کی خندقوں میں پھینک دیے تھے اور اس میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ گولے اور دوسرا گولا بارود اتنی سی جگہ میں بڑی آزادی سے استعمال ہورہا تھا جس کی وجہ سے ممنوعہ جگہوں پر بھی آگ کی بارش ہوتی رہی۔ یہ چھوٹی سی قیامت اتنی تیزی سے اور اتنی شدت سے جاری تھی کہ لوگوں کو اپنے پانی کے برتن اور گیلن تک بھرنے کا موقع نہیں مل پارہا تھا۔

ادھر ایک اور بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ میڈیکل کیمپس بھی جاپانی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آگئے تھے اور زخمی بے چارے اتنے پریشان تھے کہ بار بار اسی گولہ باری کی وجہ سے مسلسل مزید زخمی ہورہے تھے۔ طبی کیمپس میں بیٹھے ہوئے افراد جو مرہم پٹی اور علاج معالجے کے منتظر تھے، وہ بھی اس قیامت سے محفوظ نہیں رہ پارہے تھے۔

جب برٹش سکستھ بریگیڈ اس ساری تباہی کے دو ہفتے بعد مدد پہنچانے کے لیے اصل گیریسن میں پہنچی تو انہیں اس گیریسن کی حالت دیکھ کر خود ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس جنگ میں موجود ایک فوجی افسر کا کہنا تھا:’’وہاں موجود افراد سب کے سب نہایت لاغر اور عمر رسیدہ بلکہ برسوں کے بوڑھے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بری طرح زخمی تھے، ان کے لباس بھی مکمل طور پر خون آلود تھے، ان کے چہروں سے بے حد تھکن اور نقاہت ٹپک رہی تھی۔ ان کے پاس اگر کوئی واحد صاف چیز تھی تو وہ ان کے ہتھیار تھے۔ وہاں ہر طرف خون، پسینے اور موت کی بو پھیلی ہوئی تھی۔‘‘

ایک ماہ سے بھی زیادہ مدت تک لڑی جانے والی اس لڑائی کے بعد برطانوی فوجیوں نے اس ٹینس کورٹ سے اوپر کی طرف چوٹی تک جانے کے لیے ایک راستہ کاٹ کر نکالا اور اس کے بعد ایک ٹینک کو گھسیٹتے ہوئے اوپر ڈھلوان پر لے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے صرف بیس گز کے فاصلے سے جاپانیوں کے بنکرز میں آگ کی برسات کرڈالی، اس جنگ کے بعد جب اس میدان جنگ کو دشمن سے پاک کردیا گیا تو ماضی کا حسین وجمیل ٹینس کورٹ ختم ہونے کے بعد ایک چھوٹے سے چوہے کے بل میں تبدیل ہوچکا تھا جس کے اطراف تباہی اور بربادی کے آثار تھے اور یہاں جگہ جگہ انسانوں کی نصف باقیات دکھائی دے رہی تھیں جو نصف زمین میں دھنسی ہوئی تھیں، بڑا ہول ناک منظر تھا یہ!

دو امریکی تاریخ دانوں ایلن ملٹ اور ولیم سن مورے نے لکھا تھا:’’دوسری جنگ عظیم میں کہیں بھی ایسی شدید قسم کی لڑائی نہیں لڑی گئی تھی جیسی مشرقی محاذ پر لڑی گئی تھی۔ اس دوران جس طرح کی بے رحمی اور شقی القلبی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، اس کی مثال نہیں مل سکتی۔‘‘

جاپانی آکسیجن یا دوسری ضروری سپلائز کے بغیر اس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ پھر ان کے اپنے دماغوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا اور اس کا آخرکار نتیجہ یہ نکلا کہ اتحادی افواج نے انہیں بڑی آسانی سے کوہیما سے نکال باہر کیا۔

امفال کی جنگ چار ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی یعنی مارچ سے جولائی 1944تک، جب کہ کوہیما کی یہ معرکہ تین ماہ تک چلتا رہا یعنی اپریل سے جون 1944تک۔

امفال میں کوئی 55,000 کے قریب جاپانی فوجی اپنی جانوں سے گئے اور کوہیما میں 7,000 مارے گئے جن میں سے اکثر بھوک اور فاقہ کشی کے باعث ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ بیماریوں اور دم گھٹنے نے بھی یہ جانیں لیں۔

امفال میں برطانوی افواج کے 12,500فوجی زخمی ہوئے جب کہ کوہیما کی لڑائی میں4,000 مزید فوجی زخمی ہوئے۔ امفال اور کوہیما کے معرکوں میں جاپانیوں کو بہت بڑے بڑے نقصان اٹھانے پڑے جس کا بہت بڑا منفی اثر آنے والے وقتوں میں بھی اس خطے پر شدت سے پڑا۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ بعد کے برسوں میں اتحادیوں کو برما میں اپنا تسلط قائم کرنے میں بہت آسانی ہوگئی۔ امفال اور کوہیما کی شکست جاپانی تاریخ کی سب سے بڑی شکست قرار دی جاتی ہے۔

جاپانی کی Last Bid for Victory کے مصنف رابرٹ لی مین نے لکھا ہے:’’امفال کی جنگ کو جاپانی اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست سمجھتے ہیں جو 1944 میں انڈیا پر حملے کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ اس سے ہندوستانی فوجیوں کو اپنی جنگی صلاحیت اور مہارت کا بہ خوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ اس سے ہندوستانی فوجیوں کو یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ وہ کسی بھی طرح کے مشکل سے مشکل حالات میں کسی سے بھی نبرد آزما ہوکر اسے شکست سے دوچار کرسکتے ہیں۔‘‘

آج بھی کوہیما میں ایک جنگی قبرستان موجود ہے جس میں 1,400 سے زیادہ اتحادی فوجیوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں اور یہ سب جنگ کوہیما میں اپنی جانوں سے محروم ہوئے تھے۔ یہ جنگی قبرستان گیریسن پہاڑی کی ڈھلوان پر بنا ہوا ہے جہاں کبھی ڈپٹی کمشنر کا ٹینس کورٹ واقع تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔