- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
شوٹنگ کے لیے یہاں آئیں!
ایک فلم کی شوٹنگ کئی ممالک میں کرنے کا رجحان عام ہوچکا ہے۔
ہالی وڈ میں تو یہ رجحان کئی عشروں سے موجود ہے مگر اب تو چھوٹی فلم انڈسٹریز سے وابستہ پروڈیوسرز بھی اپنی فلموں کی شوٹنگ کے لیے بیرونی ممالک کا انتخاب کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں فلموں کی شوٹنگ کا رجحان ان ممالک کے لیے معاشی طور فائدہ مند ثابت ہورہا ہے جہاں فلم ساز جا کر ’ ڈیرہ‘ لگاتے ہیں۔
اس رجحان سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف ممالک فلم سازوں کو پُرکشش مراعات دے رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی فلموں کی شوٹنگ کے لیے وہاں کا رُخ کریں۔ اس ضمن میں آسٹریلوی حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آسٹریلوی حکمران بین الاقوامی فلم ساز کمپنیوں کو مختلف رعایتیں دے رہی ہے۔ ان رعایتوں کا مقصد آسٹریلیا میں فلموں کی شوٹنگ کے لیے ان کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
براعظم آسٹریلیا فطری حسن سے مالامال ہے۔ قدرت نے اس سرزمین کو ہر طرح کے وسائل سے نوازا ہے۔ یہاں سحر انگیز ساحل بھی ہیں اور پُرکشش جنگلات بھی، ریگستان بھی ہیں اور چٹیل میدان بھی۔ جدید ترین آسٹریلوی شہروں میں فلک بوس عمارتیں دیکھنے والے کو سحرزدہ کردیتی ہیں۔ غرض یہاں ہر نوع کی فلموں کی شوٹنگ کے لیے بہترین لوکیشنز موجود ہیں۔
شہرۂ آفاق اداکارہ مارلن منرو نے ہالی وڈ کو ایک ایسی جگہ قرار دیا تھا جہاں فلم ساز ایک بوسے کے لیے آپ کو ایک ہزار ڈالر دیں گے مگر آپ کی جان کی قیمت محض پچاس سینٹ لگائے جائے گی۔ آسٹریلوی حکومت تو عالمی فلم ساز کمپنیوں کو سبسڈیز کی مد میں ایک ہزار ڈالر سے بھی کہیں زیادہ دے رہی ہے۔
حکومت نے 20,000 Leagues Under the Sea کی شوٹنگ کے لیے ڈزنی کو مجموعی طور پر بارہ ملین ڈالر کی سبسڈی دینے کی پیش کش کی تھی جو بعدازاں بڑھتے بڑھتے اکیس ملین ڈالر تک چلی گئی تھی۔ اب جب کہ اس فلم کی شوٹنگ آئندہ برس تک ملتوی کردی گئی ہے، آسٹریلوی حکومت نے مزید غیرملکی فلم ساز کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے بیس ملین ڈالر مختص کردیے ہیں۔
گذشتہ برس The Wolverine کی شوٹنگ کے لیے ٹوینٹیتھ سینچری فوکس کو تقریباً تیرہ ملین ڈالر کی سبسڈی دی گئی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ 20,000 Leagues کی شوٹنگ کے دوران دو ہزار افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جب کہ The Wolverine کی عکس بندی کے دوران سترہ سو لوگوں کو روزگار ملا۔
حکومت کے اس اقدام پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم ساز کمپنیوں کے بجائے سبسڈی ایسے لوگوں کو دی جانی چاہیے جو یہاں فیکٹریاں اور صنعتیں لگانے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک کو مستقل بنیادوں پر فائدہ پہنچے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کیا حکومت چند روزہ عارضی روزگار کو ملازمت تصور کررہی ہے؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔