- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
- 9 مئی کیسز؛ فواد چوہدری کی 14 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
- بیوی کو آگ لگا کر قتل کرنے والا اشتہاری ملزم بہن اور بہنوئی سمیت گرفتار
- پی ٹی آئی حکومت نے دہشتگردوں کو واپس ملک میں آباد کیا، وفاقی وزیر قانون
- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
- اصحابِ صُفّہ
شوٹنگ کے لیے یہاں آئیں!
ایک فلم کی شوٹنگ کئی ممالک میں کرنے کا رجحان عام ہوچکا ہے۔
ہالی وڈ میں تو یہ رجحان کئی عشروں سے موجود ہے مگر اب تو چھوٹی فلم انڈسٹریز سے وابستہ پروڈیوسرز بھی اپنی فلموں کی شوٹنگ کے لیے بیرونی ممالک کا انتخاب کرتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں فلموں کی شوٹنگ کا رجحان ان ممالک کے لیے معاشی طور فائدہ مند ثابت ہورہا ہے جہاں فلم ساز جا کر ’ ڈیرہ‘ لگاتے ہیں۔
اس رجحان سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف ممالک فلم سازوں کو پُرکشش مراعات دے رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی فلموں کی شوٹنگ کے لیے وہاں کا رُخ کریں۔ اس ضمن میں آسٹریلوی حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آسٹریلوی حکمران بین الاقوامی فلم ساز کمپنیوں کو مختلف رعایتیں دے رہی ہے۔ ان رعایتوں کا مقصد آسٹریلیا میں فلموں کی شوٹنگ کے لیے ان کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
براعظم آسٹریلیا فطری حسن سے مالامال ہے۔ قدرت نے اس سرزمین کو ہر طرح کے وسائل سے نوازا ہے۔ یہاں سحر انگیز ساحل بھی ہیں اور پُرکشش جنگلات بھی، ریگستان بھی ہیں اور چٹیل میدان بھی۔ جدید ترین آسٹریلوی شہروں میں فلک بوس عمارتیں دیکھنے والے کو سحرزدہ کردیتی ہیں۔ غرض یہاں ہر نوع کی فلموں کی شوٹنگ کے لیے بہترین لوکیشنز موجود ہیں۔
شہرۂ آفاق اداکارہ مارلن منرو نے ہالی وڈ کو ایک ایسی جگہ قرار دیا تھا جہاں فلم ساز ایک بوسے کے لیے آپ کو ایک ہزار ڈالر دیں گے مگر آپ کی جان کی قیمت محض پچاس سینٹ لگائے جائے گی۔ آسٹریلوی حکومت تو عالمی فلم ساز کمپنیوں کو سبسڈیز کی مد میں ایک ہزار ڈالر سے بھی کہیں زیادہ دے رہی ہے۔
حکومت نے 20,000 Leagues Under the Sea کی شوٹنگ کے لیے ڈزنی کو مجموعی طور پر بارہ ملین ڈالر کی سبسڈی دینے کی پیش کش کی تھی جو بعدازاں بڑھتے بڑھتے اکیس ملین ڈالر تک چلی گئی تھی۔ اب جب کہ اس فلم کی شوٹنگ آئندہ برس تک ملتوی کردی گئی ہے، آسٹریلوی حکومت نے مزید غیرملکی فلم ساز کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے بیس ملین ڈالر مختص کردیے ہیں۔
گذشتہ برس The Wolverine کی شوٹنگ کے لیے ٹوینٹیتھ سینچری فوکس کو تقریباً تیرہ ملین ڈالر کی سبسڈی دی گئی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ 20,000 Leagues کی شوٹنگ کے دوران دو ہزار افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جب کہ The Wolverine کی عکس بندی کے دوران سترہ سو لوگوں کو روزگار ملا۔
حکومت کے اس اقدام پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم ساز کمپنیوں کے بجائے سبسڈی ایسے لوگوں کو دی جانی چاہیے جو یہاں فیکٹریاں اور صنعتیں لگانے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک کو مستقل بنیادوں پر فائدہ پہنچے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کیا حکومت چند روزہ عارضی روزگار کو ملازمت تصور کررہی ہے؟
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔